Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

24 - 65
ڈاکٹر خالد عثمان حقانی    *
مولاناسید حسین احمد مدنی اور علامہ محمد اقبال کا باہمی تعلق 
(ایک غلط فہمی کاازالہ)
تمہید:
	ایک اچھے انسان کی حیثیت سے ہر ایک آدمی کو اختلافِ رائے کا حق حاصل ہے لیکن اگر وہ اختلاف ِرائے ایک غلط فہمی پر مبنی ہواور فریقین کا آپس میں اختلاف اور غلط فہمی کا ازالہ بھی ہو گیا ہوتو پھر اس اختلا ف کو ہوادینایہ ایک اچھے مسلمان کی صفت نہیں ہو سکتی ۔ بعینہ یہی معاملہ مولانا سیدحسین احمد مدنیؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے درمیان ہواب اگر ایک تیسرا آدمی علمائے حق کے خلاف اپنے دل کا بھڑاس نکالنے اور اپنی آخرت خراب کرنے کے لئے اسی بات کو آڑبنا کر تلبیس سے کام لیتا ہے یہ بہت بُری با ت ہے ۔آ ج دنیا میں نہ علامہ اقبال ہے اور نہ مولانا حسین احمد مدنی، وہ پرانی بساط تمام تر لپٹ چکی ہے،اب ان کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کے سپردہے لیکن ان اکابرکی موت کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ گذرجانے کے بعد بھی اگر کوئی آدمی ایک کی آڑ میں دوسرے کو برا بھلا کہتا ہے بہرحال وہ اچھے اخلاق سے متصف نہیں ہو سکتا۔   
	پھر ہمیں تو سید الکونین ﷺ کی یہ تعلیم و تلقین بھی ہے کہ اُذْکروامحاسن موتاکم وکفواعن مساویھم (۱) (یعنی اپنے مُردوں کی نیکیاںذکر کرو اور ان کے بُرے کاموں سے اپنی زبان بند رکھو) یہ بھی ضروری نہیں کہ بزرگوں کو معبود بنا لیں اور انہیں تنقید سے بالا تر سمجھیں لیکن مذکورہ حدیث کا اصول بالعموم یہ ہوگا کہ عام طور پر ان کا ذکرخیر اور بھلائی سے کرو ،ان کی بُرائی کو بیان کرنے سے رُک جاؤ،ان کو اپنے حال پر چھوڑدو کیوں کہ ان کو اپنے اچھے اعمال اوراقوال کی جزا مل رہی ہے اور اسی طرح ان کے بُرے اعمال اور اقوا ل کی ان کو سزا مل رہی ہے بس ان کے لئے یہی کافی ہے۔جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر یہ ارشاد فرمایاکہ فانّھم قد افضوا الٰی ما قدموا (۲)’’ یعنی انھوں نے جو عمل کیا تھا اس حد تک وہ پہنچ چکے ہیں ‘‘۔اب تم خوا ہ مخواہ ان کے بارے میںزبان 
طعن دراز کروتو اس کا کیا حاصل؟ تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَھَامَاکَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّاکَسَبْتُمْ وَلَاتُسْئَلُوْنَ 
___________________________
    *   حالاً  ٹی وی ایف ملٹری کالج آف انجینئرنگ رسالپور
Flag Counter