Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

47 - 65
جناب اوریا مقبول جان 
ملالہ یوسفزئی اور عبیر قاسم حمزہ الجنابی
	جب تک ملالہ نوبل انعام کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اس ملک کے میڈیا میں ایک شور برپا تھا۔’’ ہمارا سر فخر سے بلند ہے ‘ پاکستان کو عزت مل رہی ہے ‘ ایک بچی جس کی جدوجہد علم کے لئے تھی جو خواتین کے حقوق کی پاسداری کے لئے نکلی تھی اور آج پوری دنیا میں ہمارے ملک کا نام روشن کررہی ہے۔ پوری دنیا اس کی جرات کو سلام کررہی ہے‘ اس کے مشن کو جاری رکھنے اور تعلیم کو عام کرنے کیلئے سرمایہ دے رہی ہے۔‘‘اس ملک کے ’’عظیم‘‘ اور ’’باشعور‘‘ دانشوروں کے یہ نعرے میرے کانوں میں گونجتے تھے اورمیں سوچتا تھا کہ وہ امن کا نوبل انعام جسے یہ قوم عزت کا تاج سمجھ رہی ہے‘ کیسے کیسے ظالموں ‘ قاتلوں اورانسانیت کے دشمنوں کے سرپر سجتا رہا ہے۔
	ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن برائون وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ میں نہ صرف ووٹ دیا تھا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی۔ عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا ہی نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔ عورتوں کے حقوق کے عالمی چیمپیئن وہ ہیں جن کے ہاتھ مظلوم عورتوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور سروں میں عورتوں کی عزتوں سے کھیلنے کی ہوس رچی ہوئی ہیں۔
12مارچ 2006ء کو ملالہ کی ہم عمر چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ جو عراق کے چھوٹے سے قصبے المحمدیہ میں رہتی تھی‘ اس پر کیا بیتی؟  دل تھام کر پڑھیئے: عبیر کا والد قاسم حمزہ رحیم اور ماں فخریہ طہٰ محسن اپنی اسی بیٹی عبیر‘ ۶سالہ بیٹی حدیل‘ ۹ سالہ احمد اور ۱۱ سالہ محمد کے ساتھ اپنے گھر میں خوش و خرم رہ رہے تھے۔ عبیر کواس کے والدین بہت کم گھر سے باہر جانے دیتے کہ سامنے گورڈن برائون کے جمہوری ووٹ سے شروع ہونے والی عراق جنگ کے سپاہیوں کی چیک پوسٹ تھی‘ جس پر چھ سپاہی  پائول کورٹز‘ جیمز بارک‘ جیسی سپل مین‘ برائن ہاروورڈ ‘ سٹیون گرین  اور انتھونی پرایب موجود تھے۔ جب کبھی یہ بچی باہر نکلتی تووہ ایسے چھیڑتے اوروہ گھبرا کر اند ربھاگ جاتی۔ایک دن یہ ان کے گھر گھسے‘ تلاشی لی اور عبیر کی گال پر سٹیون گرین نے انگلی پھیری جس نے سارے گھر کوخوفزدہ کردیا۔
	جب کبھی وہ اپنے والدین کے ساتھ باہر نکلتی ‘ وہ اس کے طرف دیکھ کر غلیظ اشارہ کرتے ہوئے ویری گڈ کہتے۔12مارچ 2006ء کی صبح وہ شراب پینے میں مشغول تھے کہ عبیر کے دونوں بھائی سکول کے لئے روانہ ہوئے۔ عبیر کو اس لئے سکول سے اٹھالیا گیا تھا کہ والدین ان سپاہیوں سے خوفزدہ تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ مکان میں داخل
Flag Counter