Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

53 - 65
 ادریس الخولانی، شراخبیل بن السمط عبداللہ بن ابی زکریا، الغزالی، عبد بن امیہ، سلیمان بن الحبیب المحار بی ، خالد بن معدان، جنید بن نفیر، عمر بن عبدالعزیز اور رجاء بن حیوۃ وغیرہ اس کام میں مصروف تھے۔
سلطنت مغلیہ کے بعد فتویٰ:
	دارالافتاؤں اور دارالقضاؤں کا یہ سلسلہ سلطنت مغلیہ کے دور تک اسی صورت حال میں جاری رہا لیکن سلطنت مغلیہ ‘زوال اور انگریزی حکومت کے تسلط کے بعد فتویٰ کا کام مدارس دینیہ کی طرف منتقل ہو گیا۔ اور اب بھی یہ کام دینی مدارس ہی میں ہوتا ہے اس لئے کہ دینی مدارس میں دین اور تعلیمات نبویہ کی آماجگاہ ہیں۔
	جنگ آزادی کے بعد اسلام کے تحفظ اور فتویٰ کے کام کو حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے جانشین علماء نے سنبھالا۔ ان میں اکابر علماء دیو بند حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ خصوصیت کیساتھ قابل ذکر ہیں جنکے فتاویٰ مطبوعہ شکل میں موجود ہیں۔
جامعہ دارالعلوم حقانیہ میں دارالافتاء کا قیام:
جامعہ دارالعلوم حقانیہ علوم دینیہ کے میدان میں کسی تعارف کا محتاج نہیں چاردانگ عالم میں جامعہ حقانیہ کی عظمت و شرافت اتنی پھیل چکی ہے کہ شاید جامعہ حقانیہ کی طرح بے سروسامان دور افتادہ کسی ادارہ کو یہ عظمت حاصل نہ ہو۔ حقانیہ کی یہ آفاقی شہرت وسائل و اسباب کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ اللہ کا کرم اور عصر حاضر کے ولی کامل، بانی حقانیہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب نور مرقدہ کے اخلاص، مجاہدہ اور دعائوں کی برکت ہے حقانیہ کی تاسیس کا نہ کوئی باقاعدہ منصوبہ تھا اور نہ کوئی پروگرام بلکہ حضرت شیخ الحدیثؒ عالم اسلام کے عظیم دینی درسگاہ اور دینی مرکز دارالعلوم دیو بند سے فراغت اور پھر وہاں تدریسی مشاغل میں مصروف رہنے کے دوران رمضان کی چھٹیوں میں اکوڑہ خٹک تشریف لائے، اسی دوران برصغیر پاک و ہند تقسیم ہو گیا اور ملکی حالات نے دوبارہ دارالعلوم دیو بند جانے کی اجازت نہ دی۔ اور دیو بند سے ساتھ آئے ہوئے طلباء اور قرب و جوار کے تشنگان علوم نبویہ نے حضرت شیخ الحدیث کو اپنے گھر سے ملحق ایک چھوٹی سی مسجد میں اشاعت گاہ علم ومعارف جامعہ حقانیہ کی تاسیس پر مجبور کر دیا، رفتہ رفتہ طلباء کا ہجوم بڑھتا گیا اور تنگی مسجد کی وجہ سے درس و تدریس کا سلسلہ مزید وہاں جاری رکھنا ناممکن ہو گیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حضرت شیخ الحدیث کے دل میں اللہ کی طرف سے گویا یہ الہام ہو گیا تھا کہ مسجد باہر کھلی جگہ میں حقانیہ کی بنیاد رکھی جائے۔
اسی مختصر سی تمہید کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دارالعلوم کو مجبوری کی حالت میں الہامی انداز میں وجود ملا۔ اللہ کے فضل و کرم سے دارالعلوم اور حضرت شیخ الحدیث پر لوگوں کا اعتماد بڑھتا گیا جسکی وجہ سے اطراف و اکناف سے محبین اسلام کثرت سے آنے لگے لوگ مسائل دینیہ سے واقفیت حاصل کرنے اور اس سلسلہ کے شکوک و شبہات کے ازالہ 
Flag Counter