Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

48 - 65
 ہوئے انہوں نے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں بند کیا اور عبیر کو دوسرے کمرے میں۔
	سٹیون گرین نے اس کے ماں باپ اور چھوٹی بہن کو ایک کمرے میں لے جاکر قتل کردیا اور دوسرے کمرے میں باقی دوسپاہی اس چودہ سالہ بچی سے زیادتی کرتے رہے۔ اس کے بعد گرین کی آوازآئی‘ میں نے انہیں قتل کردیا اور پھر وہ بھی عبیر پر پل پڑا۔ اس کے بعد ان سپاہیوں نے اس کے سر پر گولی مار کر قتل کردیا۔ جاتے ہوئے ایک سپاہی نے اس کے زیرجامے کو لائٹر سے آگ دکھائی اور کمرے میں پھینک دیا۔ گھر سے دھواں نکلا تو پڑوسی دوڑے ہوئے آئے اورانہوں نے جس حالت میں اس مظلوم چودہ سالہ بچی کو دیکھا وہ ناقابل بیان ہے۔میں نے جب یہ واقعہ پڑھا اور چودہ سالہ عبیر قاسم حمزہ الجنابی کی تصویر دیکھی تو کئی راتیں بے چینی اور اضطراب سے سو نہ سکا تھا۔
	نوبل پرائزدینے والوں اور ملالہ یوسفزئی کی وکالت کرنے والوں کے ہاتھ عبیر جیسی بے شمار معصوم لڑکیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جوان کے خوف سے گھروں سے نہیں نکلتی تھیں۔ جنہوں نے ان کی بدمعاش اور غلیظ نظروں کے خوف سے سکول جانا چھوڑ دیا تھا۔ عبیر توان کے خلاف کوئی ڈائری بھی تحریر نہیں کررہی تھی جو دنیا کا کوئی بڑا چینل نشر کرتا۔ اس نے توانہیں ظالم‘ تعلیم کے دشمن اورانسانیت کے قاتل بھی نہیں کہاتھا۔
	اس کاوالد کسی این جی او کا سربراہ یا کارپرداز نہیں تھا کہ اپنی بیٹی کوان سپاہیوں کے خلاف اکساتا‘ اس کی ایک فرضی نام سے ڈائری لکھنے میں مدد کرتا اور پھر دنیا بھر میں داد سمیٹتا۔ عبیر تواس ظلم کی وجہ سے سہم سی گئی تھی۔اس کے زندہ بچ جانے الے بھائیوں نے بتایا کہ جس دن سٹیون گرین نے اس کے گال پر انگلی پھیری ‘ ہمارے والد نے اسی دن اسے سکول سے اٹھا لیا تھا‘ وہ اس دن بہت روئی اسے گھر کے باہر لگی ہوئی سبزیوں کو پانی دینے اوردیکھ بھال کرنے کا بہت شوق تھا‘ لیکن اس دن کے بعد سے وہ بس کھڑکی سے انہیں دیکھتی رہتی۔
	اس عالمی یا مقامی میڈیا میں کوئی ایسا شخص ہے جس کے سینے میں دل ہو‘ جس کے دل میں بیٹی کی محبت جاگتی ہو‘ جس کی آنکھ سے ظلم پر آنسو نکل آتے ہوں؟ وہ اٹھے اور کہے‘ آئو ہم مل کر ایک اور امن انعام کا آغاز کرتے ہیں‘ ان بچوں کے لئے جو صابرہ وشطیلہ میں مارے گئے‘ ان مظلوموں کے لئے جو ٹینکوں تلے کچل دئیے گئے‘ ان قیدیوں کے لئے جن پرکتے چھوڑے گئے‘ ان بہنوں کے لئے جو ان درندوں کے ہاتھوں اس وقت تک درندگی کاشکار ہوتے رہے جب تک ان کا سانس باقی تھا‘ عبیر کے لئے جس سے اس کا سکول چھوٹ گیا‘ جس کے لئے گھر سے نکلنا عذاب ہوگیا۔
	لیکن ہم بے حس ہیں‘ نوبل انعام کی چکاچوند نے ہماری غیرت کے بچے کھچے گھروندے کو بھی ملیامیٹ کردیا ہے‘ اٹھارہ کروڑ قوم نے ایک مغربی چینل کے پروگرام میں اپنی اس ہونہار بیٹی کا یہ فقرہ کیسے سن لیا کہ ہم ۔

Flag Counter