Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

46 - 65
بعض اہم مواقع پر اس ابہام سے پیداہونے والی انتظاری کیفیت (سسپنس)نہایت مسرت افزاہوتی ہے اہل اسلام مثلاعید الفطرکے ہلال کی امکانی رئویت و عدم رئویت سے پیدا ہونے والی انتظاری کیفیت میں چاند دیکھنے کی والہانہ کوشش کرتے ہیں بچوں ، جوانوں ، بوڑھوں ، مردوں اور عورتوں کی چاند دیکھنے کی یہ مسرت مساعی ایک عجیب سماں پیدا کرتی ہیں اگر عید وغیرہ کا دن پہلے سے ہی سوفیصدیقین کے ساتھ متعین اور مقررہوتو چنداں خوشی نہ ہوتی۔
قمری مہینوں کی موسموں سے عدم مطابقت کا فائدہ یہ بھی ہے کہ بعض نہایت اہم احکام شرعیہ مثلاصیام رمضان کی تعمیل زندگی بھر میںتمام موسموں میں ممکن ہوگی مثلاایک شخص اٹھارہ بیس سال کی عمر میں رمضان کے روزے رکھناشروع کرتاہے اور پچاس ساٹھ برس کی عمر تک جسمانی صحت کے لحاظ سے روزے رکھنے کے قابل رہتاہے تو وہ گرمااور سرما اور بہار و خزاں تمام موسموں میں روزے رکھنے کی سعادت حاصل کرپائے گا۔ اگر اس طرح کے احکام کیلئے شمسی مہینے متعین کئے جاتے تو ساری عمر ایسے احکام کی تعمیل ایک ہی موسم میں ہوتی بلکہ شمالی نصف کرہ اور جنوبی نصب کرہ کے موسمی تضاد کی وجہ سے بعض علاقوں اور ملکوں کے لوگ موسم گرمامیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ موسم سرمامیں ان احکام کی تعمیل کیلئے ہمیشہ پابندہوکررہ جاتے اور ان احکام کی بجاآوری کے سلسلے میں موسمی تغیرات کا فائدہ نہ اٹھاسکتے۔__ قمری تقویم کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں تاریخ کا تعین گو تقریبی اور تخمینی ہی سہی نہایت آسان ہے کیونکہ سورج کی نسبت چاندکی حالتیں اس کے بتدریج بڑھنے اور گھٹنے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ ایک ناخواندہ شخص بھی چاند کی حالتوں سے قمری تاریخ کا اندازہ کرلیتاہے، جبکہ سورج کی حالت یکساں رہتی ہے ۔چاند کو ننگی آنکھ سے دیکھنا آسان اور فرحت بخش ہے جبکہ سورج کو ننگی آنکھ سے دیکھنامشکل اورضررساں ہے۔اس کے علاوہ ماہرین نے قمری ہجری تقویم کی بعض دیگر خصوصیات یہ بیان کی ہیں:
1۔  سن ہجری کی بنیاد خالص قمری تقویم پر ہے جب سے اس کا آغازہواہے اس میں آج تک کوئی ترمیم نہیں ہوئی کیونکہ یہ شرعی اور دینی تقویم ہے اس میں ترمیم کا کسی کو حق نہیں۔ دنیا کی مروجہ تقویم میں یہ خصوصیت غالباً صرف قمری تقویم ہی کو حاصل ہے۔   2۔سن ہجری کا آغاز واقعہ ہجرت نبوی سے ہوایوں اس کی بنیاد روحانی ہے۔
3۔ہفتے کا آغاز جمعۃ المبارک کے دن سے ہوتاہے۔  4۔ ہجری تقویم میں شرک ، نجوم پرستی یابت پرستی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ مہینوں اور دنوں کے ناموںکو کسی سیارے یا دیوی ، دیوتاسے کوئی نسبت نہیں ۔ 5۔ قمری تقویم چونکہ فطری اور نہایت سادہ ہے لہٰذا شرائع سابقہ میں بھی دینی مقاصدکیلئے یہی مستعمل تھی بعد میں لوگوں نے اس خالص قمری تقویم میں تحریف کرتے ہوئے اسے شمسی یا قمری شمسی تقویم میں بدل ڈالا۔
	حاصل یہ ہے کہ ہمیں اپنی اصل پہچان یعنی اسلامی ہجری سال کوبھی بالکل نہیں بھلادیناچاہیے،بلکہ اس کے نام بھی یادرکھنے چاہئیں اوراسے استعمال بھی کرناچاہیے،کہیں ایسانہ ہوکہ آئندہ چندسالوں میں ہماری نئی پودکے ذہنوں سے یہ تصورہی محوہوجائے کہ ہم بھی ایک زندہ جاویدتہذیب وتاریخ کے امین ہیں،ہمارابھی ایک شاندارماضی ہے،ہمارابھی ایک تشخص ہے،بلکہ تمام تہذیبوں نے تہذیب کادرس ہم سے ہی لیاہے ۔      

Flag Counter