Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

42 - 65
میں بھی دینی بیداری آرہی ہے ،پہلے سے زیادہ مساجد تعمیر ہورہی ہیں،لوگ مسجدوں کا رخ کررہے ہیں ،نمازیوں میں برابراضافہ ہورہاہے ،دینی اجتماعات میں پہلے سے زیادہ لوگ شریک ہورہے ہیں،حج وعمرہ کرنے والوں کی تعداد میں ہرسال حیرت انگیز اضافہ ہورہاہے ،متمول وخوشحال گھرانہ کے لوگ اب یورپ جاکر اپنی فیملی کے ساتھ سیروتفریح کے بجائے حرمین شریفین میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ حاضری کو ترجیح دے رہے ہیں،حفاظ وعلماء کی تعداد بڑھ رہی ہے ،مدارس ودینی مراکزاپنادینی دائرہ وسیع کررہے ہیں، اسلامی تنظیمیں پہلے سے زیادہ قائم ہورہی ہیں،نئے نئے رفاہی وسماجی کاموں کے ادارے  تیزی سے وجود میں آرہے ہیں اور واقعی ان اداروں سے کام بھی ہورہاہے ۔ لیکن ان سب کے باوجودایک تشویشناک پہلویہ ہے کہ ہماری ملت میں ملّی شعور ابھی ٹھیک سے بیدار نہیں ہوا ہے ،دین سے وابستگی تو بڑھ رہی ہے لیکن دشمنوں کی چالوں کوسمجھ کراس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہورہاہے ،اعداء اسلام کے منصوبوں کو سامنے رکھ کر بصیرت وفراست سے اس کے مقابلہ کی قوت میں ترقی نہیں ہورہی ہے ،مسلمان خود تو دین پر قائم رہناچاہتے ہیں لیکن اسلام برائے انسانیت اور اللہ تعالی کے رب المسلمین کے بجائے رب العالمین ہونے کے قرآنی وآفاقی پیغام کو عام کرنے کی ضرورت کامکمل احساس نہیں ہورہاہے ،اللہ تعالی کی زمین پراللہ تعالی ہی کے احکام کے نفاذ، اقامت دین ،خالص اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور محرمات ومنکرات سے پاک خالص دینی بنیادوں پر مالیا ت ،اقتصادیات اورسیاسیات وسماجیات کے اسلامی نمونوں کو انسانیت کے سامنے لانے اور بلکتی ،تڑپتی ،سسکتی انسانیت کے سامنے اس کا ماڈل پیش کرنے کی کوئی بڑی منصوبہ بندی نہیں ہورہی ہے ،ہماری طرف سے اس کے لیے بھرپورکوشش تو درکنار اس کے لیے کی جانے والی کوششوں میںہاتھ بٹھانے یا کم ازکم تنقید وتنقیص نہ کرکے اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے خاموش ہی رہ کر اس کو آگے بڑھنے دینے کی بھی اپنے اندر سکت وجرأت اب باقی نہیں رہ گئی ہے ،ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہالینڈ میں بننے والے گستاخانہ کارٹون پر تو عالم اسلام میں ہنگامہ برپاہوتاہے اور پوری ملت تڑپ اٹھتی ہے اوریقینا یہ احتجاج محسن انسانیت ﷺسے ہمارے والہانہ تعلق کی وجہ سے عین فطری اور مطلوب بھی تھا،لیکن اسی محسن انسانیت ﷺکے لائے ہوئے دین اسلام کے خلاف برپاکی جانے والی مغربی سازش کومصر والجزائر میں کامیاب ہوتادیکھ کر غیرت منداور حمیت پسند مسلمانوں کا دل تڑپ نہیں اٹھتاہے ،یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ امریکی ویورپی طاقتیں صرف اسلام پسندحکومتوں اور دینی سلطنتوں کوبدنام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ ان کو صہیونیت کی ناپاک اسرائیلی حکومت کے لیے خطرہ بننے والے  اشتراکی حکمرانوںمثلًاعراق کے صدام حسین اورلیبیاکے معمر قذافی سے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی ترکی کے طیب اردگان اور مصر کے محمد مرسی جیسے اسلام پسندقائدین سے ہے ،عالم اسلام میں اس کے خلاف احتجاجات نظرنہیں آئے ،حسنی مبارک کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں اخوان کا ساتھ دینے والے آخرصرف ۵۲فیصد 
Flag Counter