Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

32 - 65
 نہیں دیا تھاکہ وطن کو اساسِ ملت بنا لو ،اس لئے دیانت وعدالت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اعلان کر دیں کہ اب مجھے حضرت مولانا حسین احمد صاحب پر اعتراض کا کوئی حق باقی نہیں رہتا تو ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ اعلان روزنامہ ’’احسان ‘‘ لاہور میں ۲۸ مارچ ۱۹۳۸ء کو شائع ہوا تھا لیکن قوم کی بد قسمتی سے ۲۱ اپریل کو ڈاکٹر صاحب کا انتقال ہو گیا جب کہ ان کا آخری مجموعہ کلام موسوم ’’ارمغانِ حجاز ‘‘ نومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا ۔اگر یہ مجموعہ ان کی زندگی میں شائع ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ان تین اشعار کو حذف کر دیتے یا حاشیے میں اس حقیقتِ حال کو واضح کر دیتے کہ میں نے یہ اشعارغلط اخباری اطلاع کی بنا پر لکھے تھے۔بعد ازاں حضرت مولانا نے اخباری رپورٹ کی تردید کردی اس لئے ان اشعار کو کالعدم یا مستردسمجھنا چاہئے لیکن افسوس کہ یہ مجموعہ ان کی وفات کے بعدشائع ہوا ۔اس لئے نہ ان شعار کو حذف کیا گیا اور نہ حاشیے میں حقیقتِ حال کو واضح کیا گیا۔
	نتیجہ اس غفلت اور کوتاہی کا یہ نکلا کہ گذشتہ تیس سال سے مسلمانانِ عالم بالعموم اور مسلمانانِ پاکستان بالخصوص ان ا شعار کی بنا پر حضرتِ اقدس ؒ سے بد گمان ہوتے چلے آرہے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ کے نوجوانوں کی اصلاح ِ خیال کا فریضہ بھی انجام دے دوں تاکہ وہ سوئِ ظن کے گناہ سے محفوظ ہو جائیں۔میں ان اشعار کو تو خارج نہیں کر سکتا ،مگر مسلمانوں کو یہ تو بتا سکتا ہوں کہ حضرتِ اقدسؒ نے اپنی تقریر میں نہ تو یہ فرمایا تھا کہ ملت کی بنیاد وطن ہے اور نہ مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وطن کو اپنی ملّت کی بنیاد بنا لو۔یہ اشعار بلا تحقیقِ حال سپُرد قلم ہو گئے تھے چناں چہ جب ڈاکٹر صاحب پر حقیقت منکشف ہوئی تو انھوں نے اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے ۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ میری توبہ قبول فرمائے اور میری اس تحریرکو عامۃ المسلمین کے لئے نافع بنائے ۔آمین (۲۸)
	یہ اعلانِ توبہ اور اقرار کسی عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک کٹر مسلم لیگی ،کلام اقبال کے شارح ،قائد اعظم محمد علی جناح کے معتمد علیہ اور انجمن حمایت اسلام کے قائم کردہ اسلامیہ کالج کے پرنسپل ہیں۔اس لئے خالی الذہن ہو کر ،تمام تعصّبات سے بالاتر ہوکر ،ہر طرح کی سیاسی وابستگیوں سے کچھ وقت کے لئے الگ ہو کر اس مذکورہ بالاتوبہ نامہ کے ایک ایک لفظ کو پڑھیں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ الفاظ حضرت مدنی کے کسی شاگرد ،مرید،معتقدیا کسی کانگرسی مولوی کے نہیں ۔ اس کے باوجود بھی بعض لوگوں کو حضرت مدنی کی شخصیت ہضم نہیں ہورہی ہے ۔ 
خلاصہ:		مذکورہ با لامضمون کا حاصل یہ نکلا  کہ علامہ ا قبال ؒجب حقیقت حال سے مطلع ہوا تو فوراً اپنے اشعار سے رجوع فرمالیا، لہٰذاان کے وہ اشعار بھی جن میں حضرت مدنیؒ پر تنقید کی گئی تھی کالعدم ہو چکے ہیں ۔جس طرح کوئی مصنف یا دانشور اپنے کسی سابقہ قول سے رجوع کرلے تو اس قول کو اس کی طرف منسوب کرنا جھوٹ ہے اور ان سابقہ خیالات پر مشتمل اس کے اشعار کو بھی اس کے نظریات قرار نہیں دیا جا سکتا۔لہٰذا علامہ اقبال کی
Flag Counter