Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

31 - 65
 	یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علامہ اقبال ،حضرت مدنی سے سیاسی اختلاف کے باوجود ان کی ملی خدمات اور دینی حمیت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ قدردان بھی تھے ۔ علامہ اقبال چوں کہ ان درویشوںکی حقیقت اور حقانیت کو جانتے تھے اس لئے تو حکمرانوں کو مخاطب کرکے ۱۹۲۲ء میں ایک پیغام جاری فرمایا:
’’ان مکتبوں(مدرسوں )کو اسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کو ان ہی مدرسوں میں پڑھنے دو۔اگر یہ مُلّا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟جو کچھ ہو گا اسے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔اگر ہندوستانی مسلمان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوںکی آٹھ سو برس حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء باب الاجوش کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرو اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرہ کا تاج محل اور دہلی کے لال قلعے کے سوا سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔ (۲۶)
اور اسی تناظر میں ضرب کلیم کے ان اشعار کوبعنوانِ ’’ابلیس کا پیغام اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ دیکھا جائے فرمایا:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا٭رُوحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو!
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات ٭اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو !
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج٭مُلّاکو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو! 
اہلِ حرم سے ان کی روایات چھین لو ٭آہوکو مرغزارِخُتن سے نکال دو!(۲۷)
	مولانا مدنی کی اس تقریر کے حوالے سے جن لوگوں نے مولانا کی شان میں گستاخی کی ان میں سے ایک آدمی (پروفیسر یوسف سلیم چشتی ) کو اﷲ تعالیٰ نے ان الفاظ کے ساتھ توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائی،لکھتا ہے:
	اس تحریر سے دو مقاصدمیرے پیشِ نظر ہیں پہلا مقصد تو یہ ہے کہ گذشتہ زندگی۱۹۳۷ء تا ۱۹۵۴ء میں مجھ سے جس قدر گستاخیاں حضرت اقدس مجاہدِ اعظم، شیخ الاسلام، اٰیۃٌ من اٰیٰت اﷲ الصمد ،سیدی و شیخی و سندی الحاج الحافظ المولوی السیّد حسین احمد مدنی قدس سرّہ العزیز کی شان رفیع البنان میں سر زد ہوئی ہیں ان پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے سامنے غیر مشروط انداز میں اظہارِ ندامت اور اعترافِ تقصیر اور اقرارِ جُرم کروں اور بارگاہِ ایزدی میں صدق دل سے استغفار کروں ۔
	دوسرا مقصد یہ ہے کہ ایک اہم تاریخی واقعہ کی وضاحت کردوںاور حقائق کو ان کی اصل شکل میں پیش کردوں۔اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جنوری ۱۹۳۸ء میں ڈاکٹر اقبال مرحوم نے محض اخباری اطلاع کی بنا پر تین اشعار سپردِ قلم کئے تھے جن کی وجہ سے علمی اور دینی حلقوں میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا تھا ۔جناب طالوت نے ڈاکٹر صاحب کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول و منعطف کرائی کہ حضرت اقدس ؒ نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو یہ مشورہ
Flag Counter