Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

29 - 65
 لوگوں نے تقریر کو من وعن نقل نہیں کیا ،اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ افترا اور اتہام کرتے ہی رہتے ہیں اس قسم کی تحریفیں اور سب و شتم ان کے فرائضِ منصبیہ میں سے ہی ہیں ، مگر سر اقبال جیسے مہذّب اور متین شخص کا،اُن کی صف میں آجانا ضرور تعجب خیز امر ہے،ان سے میری خط و کتابت نہیں ۔مجھ جیسے ادنیٰ ترین ہندوستانی کا اُن کی عالی بارگاہ تک پہنچنااگر محال نہیں تو مشکل ضرورہے ۔ ملخص(۱۷)
	 دوسری بات یہ ہے کہ حضرت مدنی نے عوامی جلسے میں تقریر کی تھی نہ کہ فتویٰ دیا تھا ،اہلِ علم حضرات اچھی طرح جانتے ہیں ، سمجھتے ہیں کہ فتویٰ اور تقریر میں اعتبارات کا بڑافرق ہوتا ہے ۔غور کرنے کے بعد یہ بات صاف معلوم ہوگئی کہ حضرت مدنی ؒ نے تقریر میںلفظ قومیت کا کہا ہے ملت کا نہیں کہا ہے ۔دونوں لفظوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ملت کے معنی شریعت اور دین کے ہے اور قوم کا معنی مردوںاور  عورتوں  کی جماعت کے ہے جیسا کہ لغت کی مشہور کتاب قاموس المحیط میں لکھا ہے:
	ِملّۃ بِالکسر شریعۃ الدّین وَالقوم الجماعۃ من الرّجال و النّساء معاً۔(۱۸)
	علامہ طالوت کا خط جب علامہ اقبال کو ملا اور ان کوصحیح صورتِ حال کا پتا چلا ،پھر انھوں نے حقیقتِ حال واضح ہونے کے بعد۲۸ مارچ ۱۹۳۸ء کو روزنامہ ’’احسان ‘‘لاہور سے یہ بیان شائع فرمایا :
’’مولانا مدنی اس بات سے صاف انکار کرتے ہیں کہ ا نھوں نے مسلمانانِ ہند کو جدید نظریہ قومیت اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے لہٰذا میں اس بات کا اعلان ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا کے اس اعتراف کے بعد کسی قسم کا حق ان پر اعتراض کرنے کا نہیں رہتا، میں مولاناکے جوش عقیدت کی قدر کرتا ہوںمیں ان کو یقین دلاتا ہوں کہ مولانا کی حمیت دینی کے احترام میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں ‘‘۔ (۱۹)
	اور اس رجوع کے ۲۳ دن بعد ۲۱ ؍اپریل ۱۹۳۸ء کوعلامہ اقبال مرحوم کا انتقال ہوا ۔ان کے آخری کلام کا مجموعہ بنام ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ان کی وفات کے بعدنومبر ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا تو ان اشعار کو بھی اس مجموعہ کے آخر میں درج کر دیا گیا ۔(۲۰) ’’اقبال کا سیاسی کارنامہ ‘‘نامی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے ان اشعار کو شائع کرنے کی ممانعت فرمادی تھی ۔مگر ان کی وفات کے بعد چوھدری محمد حسین (جن کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ لاہوری مرزائی تھا واﷲ اعلم)کی زیرِ نگرانی ’’ارمغانِ حجاز ‘‘طبع ہوئی تو اس میں یہ اشعار بھی طبع کر دیئے گئے تھے۔(۲۱)اگرعلامہ اقبال زندہ ہوتے اور ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ان کی ترتیب و تدوین سے شائع ہوتی تو یہ اشعار کبھی بھی اس میں نہ ہوتے ۔ علامہ اقبال شخصیات کی مدح و قدح سے بالا وبلند تھے اور عمر کے آخری دور میں یہ چیزیں ان کے تصور ہی سے عنقا ہوچکی تھیں۔انھوں نے اس طرز کے تمام اشعار اپنے کلام سے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیئے تھے ۔
اگر مرتّبین اتنے ہی دیانتدار تھے تو علامہ کے کچھ اور بھی اشعار کسی مجموعہ میں شامل کر لیتے ، مثلاً علامہ محمد 
Flag Counter