Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

28 - 65
قوموںکو وطن کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے‘‘۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا مگر سننے والوں نے مولانا حسین احمد ؒ کی بات کو غلط رنگ دیا۔ اس غلط فہمی کی بنا پر علامہ نے حضرت مدنی کے خلاف یہ اشعار پڑھے:
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ،ورنہ	٭	زدیوبند حُسین احمد ایں چہ بو العجمی است 
سرودبرسرِمنبرکہ ملّت از وطن است	٭	چہ بے خبرز مقام محمد ﷺ عربی است
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست	٭	اگر بہ او نرسیدی ،تمام بو لہبی است(۱۴)
ازالہ:	مندرجہ بالا اشعار چھپتے ہی پورے ہندوستان میں شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ کے خلاف کردار کشی کی ایک مہم شروع ہو گئی ۔ اگرچہ اس غلط فہمی کے ازالے کے لئے علامہ اقبال کے ان اشعار کا جواب اقبال احمد سہیل نے پوری ایک نظم لکھ کر دیا،( یہاںوہ اشعار مضمون کو مختصر کرنے کی بنا پر نقل نہیںکئے گئے)وہ نظم’’سید حسین احمد مدنی ایک شخصیت ایک مطالعہ‘‘کے ص۳۲۱،۳۲۲ پر موجود ہے ۔  (۱۵)
	اسی طرح ہندوستان کے نامور ادیب اور دانشور علامہ طالوت ،حضرت مدنی سے والہانہ عقیدت رکھنے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال سے بھی قریبی مراسم رکھتے تھے۔اس صورتِ حال سے وہ سخت پریشان ہوئے اور انھوں نے حضرت مدنی ؒ کو خط لکھ کر ان پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب چاہا ،حضرت مدنی نے علامہ طالوت(۱۶)کو جواب دیتے ہوئے ان الزامات کی مکمل تردید کی اور دو ٹوک دلائل کے ساتھ اپنے موقف کی وضاحت کی ،بعض اقتباسات ملاحظہ فرمائیں :
	محترم المقام زید مجدکم ،السلام علیکم و رحمۃ اﷲ وبرکاتہ ،مزاج مبارک
	آپ کے والا نامہ نے مجبور کیا کہ حقیقت واضح کی جائے …میں نے بعض ضروری مضامین کے ملکی حالت بیرونی ممالک اور غیر اقوام نیز اندرون ملک میں آزادی کا تمہیدی مضمون شروع کیا تومیں نے کہا’’ موجود زمانے میںقومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ نسل یا مذہب سے نہیںبنتیں ۔دیکھو انگلستان کے بسنے والے سب ایک شمارکئے جاتے ہیں ۔حالاںکہ ان میں یہودی بھی ہیں ،نصرانی بھی ہیں،پروٹسنٹ بھی ،کیتھولک بھی۔یہی حال امریکا ،جاپان اور فرانس وغیرہ کا ہے…جو لوگ جلسہ کو درہم برہم کرنے آئے تھے ، انھوں نے شور مچانا شروع کر دیا ۔میں اس وقت یہ نہ سمجھ سکا کہ شور کی وجہ کیا ہے جلسہ جاری رکھنے والے لو گ اور دو چندآدمی جوکہ شور وغوغا چاہتے تھے سوال و جواب دیتے رہے اور ’’چپ رہو ‘‘کے الفاظ سنائی دیئے ۔ اگلے روز ’’الامان ‘‘  وغیرہ میںچھپاکہ حسین احمد نے تقر یرمیں کہا کہ قومیت وطن سے ہوتی ہے، مذہب سے نہیں ہوتی،اور اس پر شور وغوغا ہوا،اس کے بعد اس میںاور دیگر اخبارات میں سب و شتم چھاپاگیا ۔کلام کی ابتدا اور انتہا کو خذف کر دیا گیا اور کو شش کی گئی تھی کہ عام مسلمانوں کو ورغلایا جائے …میں نے یہ ہر گز نہیں کہا کہ مذہب و ملّت کا دارو مدار وطنیت پر ہے،یہ افترا اور دجل ہے ۔۔۔جن 
Flag Counter