Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

27 - 65
کیوں کہ ان کو تصویر کا دوسرا رُخ نظر نہیں آتا ،جب کہ آپ نے پاکستان بننے کے بعد ارشاد فرمایاتھا:
’’کسی نے ایک مجلس میں پوچھا کہ حضرت !پاکستان کے لئے اب آپ کا کیا خیال ہے تو حسب معمول سنجیدگی و بشاشت سے فرمایا کہ ’’: مسجد جب تک نہ بنے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اب وہ بن گئی تومسجد ہے‘‘۔ (۱۱) یعنی پھر اختلاف نہیں کیا جا سکتااوراس کی ایک ایک اینٹ کی حفاظت ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہوتا ہے۔
 	یعنی پاکستان کے قیام سے قبل ہمارا اس سے اختلاف تھا لیکن چوں کہ پاکستان اب معرضِ وجود میں آگیا ہے لہٰذا اس کی حفاظت اور اس کی ترقی و استحکام کے لئے کوشش کرنا ہم سب کا دینی فریضہ ہے۔(۱۲)اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم قیامِ پاکستان کے حق میں نہ تھے لیکن جب ان کی خواہش کے علی الرغم پاکستان قائم ہو گیاتو انھوں نے فرمایا:  ’’پاکستان ایک تجربہ ہے اسے اب کامیاب ہونا چاہئے‘‘۔ 
غلط فہمی:		یہ قصہ جو غلط فہمی کا پیش خیمہ بنا ،یا بنایاگیا،اصل مقصد ان کا یہ تھا کہ اغیار کو خوش کرنے کے لئے حضرت مدنی ؒ کی کردار کشی  بہاناتھا، آئیے اس کو حقیقی رنگ میںدیکھتے ہیں :
	۸جنوری ۱۹۳۸ء کی شب میں حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒنے صدر بازار دہلی متصل پل بنگش کے ایک جلسے میں تقریر فرمائی جس کا بڑا حصہ ۹جنوری کے روز نامہ ’’تیج ‘‘ اورہفت روزہ ’’انصاری ‘‘دہلی میں شائع ہوا ،چند روز کے بعدہفت روزہ  ’’الامان ‘‘اور’’ وحدت ‘‘دہلی نے سا ری تقریر کو قطع وبرید کے ساتھ اپنے صفحات میں جگہ دی۔ ان پرچوں سے روزنامہ ’’زمیندار‘‘اور ’’انقلاب‘‘لاہور نے اس تقریر کو نقل کیااور یہ جملے حضرتِ اقدس کی طرف منسوب کر دیئے کہ حسین احمد دیوبندی نے مسلمانوں کو یہ مشورہ دیاہے کہ’’ چوں کہ اس زمانے میںقومیں وطن سے بنتی ہیں مذہب سے نہیں بنتیں،اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی اپنی قومیت کی بنیاد وطن کو بنائیں‘‘۔
	جلسے کی روئداد  ہفت روزہ ’’الامان ‘‘کے مدیرِ اعلیٰ مولانا مظہر الدین نے علامہ اقبال کو سنائی۔ جب یہ اطّلاع علامہ اقبال کے کان میں پڑی تو انھوں نے حضرتِ اقدس سے استفسار یا تحقیق کئے بغیر تین اشعارسپرد قلم کر دیئے۔(۱۳)جو آگے آرہے ہیں ۔
	حضرت مولانا سید حسین احمد ؒمسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کو بھی تحریک آزادی کے دھارے میں شامل کرنا چاہتے تھے ۔ان کی یہ کوشش مکمل نیک نیتی پر مبنی تھی ،اس میں ایک حد تک انہیں کامیابی بھی ہوئی تھی۔کیوں کہ حضرت مدنی ؒ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’ہندو ہو یا مسلمان ،دوسرے ملکوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا،ہندوستانی قوم کو ذلیل سمجھا جاتا ہے کہ وہ انگریز کی غلام ہے،آج کل قومیں وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں ‘‘۔مولانا مدنی ؒ کا بیان ایسا ہی تھا جیسے آج پاکستانی قوم کو متحد رکھنے کے لئے کو ئی رہنما یوں کہے’’پاکستانی باشندے مسلمان ہو یا عیسائی ،دوسرے ملکوں میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا،سب انہیں پاکستانی ہی کی حیثیت سے جانتے ہیں ،اس لئے کہ 
Flag Counter