سَیَہدِینِ ( سورة شعرآء آیت ٦٢)
ترجمہ: پھر جب مقابل ہوئیں دونوں فوجیں، کہنے لگے موسیٰ ( علیہ الصلوة والسلام) کے لوگ ہم تو پکڑے گئے کہا ہرگز نہیں، میرے ساتھ ہے میرا رب وہ مجھ کو راہ بتلائے گا۔
جب بحر قلزم کے کنارہ پر پہنچ کر نبی اسرائیل پار ہونے کی فکر کر رہے تھے کہ پیچھے سے فرعونی لشکر نظر آیا گھبرا کر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ اب ان کے ہاتھ سے کیسے بچیں گے، آگے سمندر حائل اور پیچھے سے دشمن دبائے چلا جا رہا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: گھبرائو نہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر اطمینان رکھو، اس کی حمایت و نصرت میرے ساتھ ہے، وہ یقینا ہمارے لئے کوئی راستہ نکال دے گا، ناممکن ہے کہ دشمن ہم کو پکڑ سکے۔ (تفسیر عثمانی ٤٨١ ط : اردو بازار لاہور)
الغرض اس آیت میں تقویٰ حاصل کرنے والوں کے ساتھ معیت خداوندی کا ذکر ہے۔
(تقویٰ کا چوتھا انعام … اور … واقعات)
واقعہ نمبر ١ : ننانوے قتل کرنے والے کی مغفرت
و عن أبی سعید الخدری قال: قال رسول اللہ ا: کان فی بنی أسرائیل رجل قتل تسعة انسانا ثم خرج یسئل فأتی راھبا فسئالہ فقال: أ لہ توبة؟ قال: لا فقتلہ و جعل یسئل فقال لہ رجل: ائت قریة کذا و کذا، فأدرکہ الموت فناء بصدرہ نحوہا فاختصمت فیہ ملائکة الرحمة و ملائکة العذاب فأوحی اللہ الی ھذہ أن تقربی و الی ھذہ أن تباعدی فقال: قیسوا ما بینھما فوجد الی ھذہ أقرب بشبر فغفرلہ (متفق علیہ، المشکوة ص٢٠٣)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدر ی ص راوی ہیں کہ رسول کریم ا نے فرمایا: بنی اسرائیل (حضرت موسی علیہ السلام کی قوم) میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر (لوگوں سے یہ) پوچھنے نکلا(کہ اگر میں توبہ کرلوں تو وہ توبہ قبول ہوگی یا نہیں ؟) چنانچہ اس سلسلہ میں وہ ایک عابد و زاھد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس (اتنے بڑے گناہ سے یا اس اتنے بڑے گناہ کرنے والے ہی) کے لئے توبہ ہے؟ یعنی کیا اسکی توبہ قبول ہوگی یا نہیں؟ اس عابد و زاھد نے کہا کہ نہیں، اس شخص نے (یہ سنتے ہی) اس عابد و زاہد کو بھی قتل کر