کے عوض مزدوری پر لگایا جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو مطالبہ کیا کہ لائو میری اجرت دو … میں نے اس کی اجرت اس کو پیش کر دی مگر وہ بے نیازی کے ساتھ اس کو چھوڑ کر چلا گیا پھر میں نے ان چاولوں کو اپنی زراعت میں لگا دیا اور کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ انھیں چاولوں کے ذریعے میں نے (خاصی پونجی بنا لی اور اسکے ساتھ میں نے) بیل اور ان بیلوں کے ساتھ کے چرواہے جمع کرلیے پھر ایک بڑے عرصے کے بعد) وہ مزدور میرے پاس آیا اور کہنے لگا اللہ تعالیٰ سے ڈر … مجھ پر ظلم نہ کر میرا حق (جو میں تمھارے پاس چھوڑ گیا تھا) مجھ کو واپس کر دو، میں نے کہا کہ (بے شک تمھار احق مجھ پر واجب ہے) ان بیلوں اور انکے چرواہوں کے پاس جائو (اور ان کو اپنے قبضہ میں کر لو وہ سب تمھارا ہی حق ہے) اس نے (میری بات سن کر بڑی حیرت سے میری طرف دیکھا) اور کہا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میرے ساتھ مزاق نہ کر و … میں نے کہا کہ (میری بات کو جھوٹ نہ سمجھو) میں تم سے مزاق نہیں کر رہا … جاؤ … ان بیلوں اور ان کے چرواہوں کو لے لواس کے بعد اس نے ان سب کو اپنے قبضہ میں کیا اور لے کر چلا گیا پس اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میرا یہ عمل محض تیری رضا و خوشنودی کی طلب میںتھا (اپنے اس عمل کا واسطہ دے کر تجھ سے التجاء کر تا ہوں کہ) تو یہ پتھر جتنا باقی رہ گیا، اس کو بھی سرکا دے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے (اس شخص کی دعا بھی قبول فرمائی) اور غار کے منہ کا باقی حصہ بھی کھول دیا۔
واقعہ نمبر ٣ : لاٹھی میں روشنی پیدا ہوگئی
عن انسص أن أسید بن حضیر و عباد بن بشر ص تحدثا عند النبی ا فی حاجة لھما حتّی ذھب من اللیل ساعة فی لیلةٍ شدیدة الظلمة ثم خرجا من عند رسول اللہ ا ینقلبان و بید کل واحد منھما عُصَیَّة فأضاء ت عصا أحدھما لھما حتی مشیا فی ضوء ھا حتی اذا افترقت بھما الطریق أضاء ت للآخر عصاہ فمشی کل واحد منھما فی ضوء عصاہ حتی بلغ أھلہ (رواہ البخاری، المشکوة ٢/٥٤٤، باب الکرامات)
حضرت انس ص بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن دو جلیل القدر صحابی) حضرت اسید بن حضیر ص اور عباد بن بشر ص نبی کریم ا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے اپنے کسی اہم معاملہ میں گفتکو کر رہے تھے،ا ور وہ گفتگو اتنی طویل ہو گئی تھی کہ اس کا سلسلہ ایک ساعت (یعنی رات کے کافی حصہ گزرنے) تک جاری رہا جب