الملک لا شریک لک'' پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منجنیق میں ڈالا گیا اور آگ میں پھینک دیا گیا تو وہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے اور کہا اے ابراہیمً! کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے؟ تو فرمایا آپ کی تو مجھے کچھ حاجت نہیں، جبرئیل علیہ السلام نے کہا تو پھر اپنے رب سے مانگو، فرمایا: مجھے سوال کرنے کی ضرورت ہی نہیں .... میرارب میرے حال کو خوب جانتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی بن جا۔ پھر فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بازو سے پکڑ کر زمین پر بٹھا دیا تو وہ فوراًبیٹھے، ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ اُبل پڑا اور گلاب اور نرگس کے پھول بھی پیدا ہوگئے جس رسی سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو باندھا گیا تھا اس کے علاوہ بال برابر بھی کسی جگہ پر آگ کا اثر نہ ہوا تقریباًچالیس یا پچاس دن آگ میں رہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں میری زندگی کے بہترین دن وہ تھے جو میں نے آگ میں گزارے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صورت ان کا دل بہلانے کے لئے میں سائے کے فرشتہ کو آگ میں بھیج دیا اور جبرئیل علیہ السلام جنت کے ریشم کی ایک قمیص لے کر آئے اور کہا: اے ابراہیم! آپ کے رب فرما رہے ہیں کہ کیا آپ کو معلوم نہیں؟ کہ آگ میرے دوستوں کو کچھ بھی نقصان نہیں دیتی۔ پھر نمروذ نے اپنے محل سے جھانک کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک باغ میں تشریف فرما ہیں اور انہیں کے ہم شکل ایک شخص بھی ان کے پہلو میں بیٹھا ہے تو کہنے لگا کہ آپ اس آگ سے باہر نکلنے کی طاقت رکھتے ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں ! تو اس نے کہا: پھر اٹھو اور نکل آئو، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام اٹھے اور چلتے ہوئے باہر آگئے تو نمروذ نے کہا: آپ کے ساتھ آگ میں جو آپ کا ہم شکل بیٹھا تھا وہ کون تھا؟ فرمایا وہ سائے کا فرشتہ تھا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بھیجا تھا، نمروذ کہنے لگا میں آپ کے رب کے نام کی چار ہزار گائیں ذبح کروں گا کیوں کہ میں نے اس کی قدرت دیکھ لی ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: جب تک تو اپنے دین پرقائم رہے گا اللہ تعالیٰ تیری قربانی قبول نہیں کرے گا، نمروذ بولا: میں اپنا ملک اور بادشاہت تو نہیں چھوڑ سکتا، لیکن گائے ضرور ذبح کروں گا۔ پھر اس نے گائیں ذبح کیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تکلیف دینے سے باز آگیا۔
واقعہ نمبر ١١ : اللہ تعالیٰ نے مقروض کا قرض اس کے قرض خواہ تک پہنچا دیا