کہ حضرت سفینہ ص اپنے لشکر میں پہنچ گئے اور شیر واپس چلا گیا۔
واقعہ نمبر ٥ : امیر المؤمنین حضرت عمر ص کا دریائے نیل کے نام کھلا خط
قصة نیل مصر روینا من طریق ابن لہیعة عن قیس بن الحجاج عن عمن حدثہ قال: لما افتتحت مصر أتی أہلہا عمرو بن العاص حین دخل بؤنة من أشہر العجم فقالوا: أیہا الأمیر لنیلنا ہذا سنة لا یجری لا بہا۔ قال: و ما ذاک: قالوا: ذا کانت اثنتی عشرة لیلة خلت من ہذا الشہر، عمدنا لی جاریة بکر من أبویہا فأرضینا أبویہا، و جعلنا علیہا من الحلی و الثیاب أفضل ما یکون ثم ألقیناہا فی ہذا النیل۔ فقال لہم عمرو: ن ہذا مما لا یکون فی الاسلام، ن الاسلام یہدم ما قبلہ۔ قال: فأقاموا بؤنة و أبیب و مسری، و النیل لا یجری قلیلا و لا کثیرا حتی ہموا بالجلائ، فکتب عمرو لی عمر بن الخطاب بذلک فکتب لیہ: نک قد أصبت بالذی فعلت و نی قد بعثت لیک بطاقة داخل کتابی فألقہا فی النیل۔ فلما قدم کتابہ أخذ عمرو البطاقة فذا فیہا: ''من عبد اللہ عمر أمیر المؤمنین لی نیل أہل مصر أما بعد فن کنت نما تجری من قبلک و من أمرک فلا تجر فلا حاجة لنا فیک و ن کنت نما تجری بأمر اللہ الواحد القہار و ہو الذی یجریک فنسأل اللہ تعالی أن یجریک'' قال: فألقی البطاقة فی النیل فأصبحوا یوم السبت و قد أجری اللہ النیل ستة عشر ذراعا فی لیلة واحدة و قطع اللہ تلک السنة عن أہل مصر لی الیوم۔(البدایة و النھایة )
مصر جب فتح ہوا تو فاتحِ مصر حضرت عمرو بن عاص ص کے پاس وہاں کے لوگ بونہ (مصریوں کے کیلنڈر کے ایک مہینہ کا نام) کے مہینہ میں آئے اور کہنے لگے کہ اے امیر! جب تک ایک خاص کام نہ کیا جائے ہمارا یہ دریائے نیل سارا سال نہیں بہتا، حضرت عمرو بن عاص ص نے پوچھا: بھلا وہ کیا؟ کہنے لگے: جب اس مہینہ کی بارہویں رات آتی ہے تو ہم ایک خوبصورت دوشیزہ تلاش کرتے ہیں اور اس کے والدین کو خوب مال و دولت دے کر راضی کرلیتے ہیں، اور پھر اس دوشیزہ کو بہترین کپڑے پہنا کر خوب زیورات وغیرہ سے سجا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے ہیں تو یہ دریا سارا سال پانی سے بھرا رہتا ہے، سیدنا عمرو بن عاص ص یہ سن کر