کہ وہ رات بھی نہایت تاریک تھی جب یہ دونوں حضرات اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے نبی کریم ا کے پاس سے اُٹھ کر باہر نکلے تو اس وقت ان دونوں میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں لاٹھی تھی ان دونوں میں سے ایک کی لاٹھی اچانک روشن ہوگئی اور اسکی روشنی میں وہ چلنے لگے یہاں تک کہ جب دونوں کے راستے جدا ہوئے (یعنی اس جگہ پہنچے جہاں سے ہر ایک کے گھر کی طرف الگ الگ راستہ جاتا تھا) تو دوسرے کی لاٹھی بھی روشن ہوگئی اور پھر وہ دونوں اپنی اپنی لاٹھی کی روشنی میں چل کر اپنے اہل و عیال (یعنی اپنے گھروں) تک پہنچ گئے۔
واقعہ نمبر٤ : حضرت سفینہ ص اور شیر کی فرمانبرداری
و عن ابن المکندر أن سفینة مولیٰ رسول اللہ ا اخطأ الجیش بأرض الروم أو أُسر فانطلق ھاربا یلتمس الجیش فاذا ھو بالأسد قال: یا أبا الحارث! أنا مولٰی رسول اللہ ا کان من أمری کیت و کیت فأقبل الأسد لہ بَصْبَصَة حتی قام الی جنبہ کلما سمع صوتا أھوٰی الیہ ثم أقبل یمشی الیٰ جنبہ حتی بلغ الجیش ثم رجع الأسد۔
(رواہ فی شرح السنة،المشکوة ٢/٥٤٥،باب الکرامات)
جلیل القدر تابعی ابن منکدر رحمہ اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم ا کے آزاد کردہ غلام حضرت سفینہ ص رومی علاقہ میںلشکرکا راستہ بھول گئے تھے … یا … دشمن کے ہاتھوںقید کر لیے گئے تھے پھر وہ دشمن کے قبضہ سے نکل بھاگے اور اپنے لشکر کی تلا ش میں لگ گئے اس دوران کسی جنگل میںان کی ملاقات ایک بڑے شیر سے ہوگئی انھوں نے (نہ صرف یہ کہ خطر ناک شیر کو سامنے دیکھ کر اپنے اوسان بحال رکھے بلکہ اس کو اس کی کنیت کے ذریعے مخاطب کر کے) کہا: اے ابو حارث! میں رسول اکرم ا کا آزاد کردہ غلام ہوں اور میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے کہ میںاپنے لشکر سے بھٹک گیا ہوں یا یہ کہ دشمن کے ہاتھوں قید ہو گیا تھا، اب ان کے قبضہ سے نکل بھاگا ہوں اور اپنے لشکر کی تلاش میں سر گرداں ہوں۔ شیر یہ سنتے ہی دم ہلاتا ہوا (جو کہ جانور کے مطیع اور فرمانبردار ہو جانے کی علامت ہے) ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہو گیا، اور پھر کسی طرف سے کوئی خوفناک درندے وغیرہ کی آواز آتی تو شیر (اس کے دفعیہ کے لئے) اس آواز کی طرف لپکتا اور پھر واپس آجاتا اسی طرح وہ شیر (ایک محافظ اور رہبر کی مانند) حضرت سفینہ ص کے پہلو بہ پہلو چلتار ہا یہاں تک