واقعہ نمبر٨ : حضرت ساریہ ص کا غیر متوقع طور پر دشمن پر غالب آنا
عن ابن عمر أن عمر بعث جیشا و أمر علیھم رجلا یدعیٰ ساریة فبینما عمر یخطب فجعل یصیح یا ساری: الجبل … فقدم رسول من الجیش فقال: یا أمیر المؤمنین! لقینا عدونا فھذمونا، فاذا بصائح یصیح یا ساریَ الجبل فأسندنا ظھورنا الی الجبل فھزمہم اللہ تعالیٰ (رواہ البیھقی فی دلائل النبوة، المشکوة ٢/٥٤٦)
حضرت ابن عمرص راوی ہیں کہ حضرت عمر فاروق ص نے (ایران کے صوبہ ہمدان کے جنوب میں واقع مقام نہا وند کو) جو لشکر بھیجا تھا اس (کے ایک حصہ) کا سپہ سالار ساریہ نامی شخص کو بنایا تھا (ایک دن) جبکہ فاروقِ اعظم ص (مسجد نبوی) میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے (اور حاضرین میں اکابر صحابہ حضرت عثمان، حضرت علی کے علاوہ دوسرے صحابہ و تابعین ث بھی تھے) تو انھوں نے (دورانِ خطبہ) اچانک چلا چلا کر کہنا شروع کیا کہ ''ساریہ پہاڑ کی طرف جائو'' ( یعنی میدانِ جنگ کا موجودہ مورچہ چھوڑ کر پہاڑ کے دامن میں چلے جائو اور پہاڑ کو پشت باندھ کر کے نیا مورچہ بنا لو) لوگوں کو یہ سن کر بڑا تعجب ہوا اور پھر جب (چند دنوں کے بعد) لشکر سے ایک قاصد آیا اور اس نے (میدان ِ جنگ کے حالات سنا کر) کہاکہ اے امیر المؤمنین! دشمن نے تو ہمیں آلیا تھا اور ہم شکست سے دوچار ہوا ہی چاہتے تھے کہ اچانک (ہمارے کانوں میں ایک شخص کی آواز آئی جو) چلا چلا کر کہہ رہا تھا ساریہ پہاڑ کی طرف جائو چنانچہ (یہ آواز سن کر) ہم نے (اپنا وہ مورچہ چھوڑ دیا اور پہاڑ کی سمت جا کر) پہاڑ کو اپنا پشت بنا لیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے دشمنوں کو شکست دی۔
واقعہ نمبر ٩ : حضرت ابرا ہیم اورحضرت سارہ علیہما السلام کا دشمن سے خلاصی کا قصہ
عن أبی ہریرة قال: قال النبی ا: ہاجر ابراہیم بسارة فد خل بھا قریة فیھا ملک من الملوک أوجبار من الجبابرة فقیل دخل ابراہیم بامرأة ہی من أحسن النساء فأرسل الیہ أن یا ابراہیم! من ہذہ الّتی معک؟ قال: أختی ثم رجع الیھا فقال: لا تکذبی حدیثی، فانی أخبرتھم أنک أختی، و اللہ ان علی الارض من مؤمن غیری و غیرک فأرسل بھا الیہ فقام الیھا فقامت توضأ و تصلی فقالت: اللھم ان کنت أمنت بک و