رسول اللہ! و أنا أنفض ما حولک فنام و خرجت أنفض ما حولہ فاذا براع مقبل قلت: أ فی غنمک لبن؟ قال: نعم قلت: أ فتحلب؟ قال: نعم فأخذ شاة فحلب فی قعب کتبة من لبن و معی أداوة حملتھا للنبیا یرتوی فیھا یشرب و یتوضأ فأتیت النبیا فکرھت أن أوقظہ فوافقتہ حتی استیقط فصببت من الماء علیٰ اللبن حتی برد أسفلہ فقلت: اشرب یا رسول اللہ! فشرب حتی رضیت ثم قال: أ لم یان للرحیل؟ قلت: بلی! فارتحلنا بعد ما مالت الشمس و اتبعنا سراقة بن مالک، فقلت: أتینا یا رسول اللہ! فقال: لا تحزن ان اللہ معنا، فدعا علیہ النبی ا فارتطمت بہ فرسہ الی بطنھا فی جلد من الأرض فقال: انی أراکما دعوتما علی فادعوا لی فاللہ لکما ان أرد عنکما الطلب فد عا لہ النبی ا فنجا فحجل لا یلقٰی أحدا الا قال: کفیتم ما ہٰھنا فلا یلقٰی أحدا الا ردہ۔
(متفق علیہ، المشکوة٢/٥٣٠)
حضرت براء بن عازب ص اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ص سے پوچھا کہ اے ابو بکر! ( جب آپ ا نے ہجرت کے ارادہ سے مکہ چھوڑاا ور مدینہ روانہ ہوئے اور) تم نے رات میں رسول کریم اکے ساتھ سفر کیا تو (غار سے نکلنے کے بعد) تمہیں کیا کیا حالات، اور واردات پیش آئے؟ حضرت ابو بکر ص نے فرمایا: (غار سے نکل کر) ہم ساری رات چلتے رہے اور اگلے دن کا کچھ حصہ بھی (یعنی دوپہر تک) سفر میں گزرا، یہاں تک کہ جب ٹھیک دوپہر ہو گئی اور سورج ٹھہر گیا اور راستہ (آنے جانے والوں سے) بالکل خالی ہوگیا تو ہمیں ایک چٹان نظر آئی جس کے نیچے سایہ تھا اور سورج اس پر نہیں آیا تھا (یعنی اس چٹان کے نیچے جو کھوہ یا غار تھا اس میں دھوپ نہیں تھی) چنانچہ ہم اس چٹان کے نیچے اُتر گئے اور میں نے وہاں آپ ا کے لئے ایک جگہ اپنے ہاتھوں سے ہموار اور صاف کی تاکہ آپ ا اس پر سو جائیں پھر میں نے اس جگہ پر پوستین بچھایا اور عر ض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ یہاں سو جائیں، میں آپ ا کے ادھر اُدھر نگرانی رکھوں گا کہ کسی طرف سے دشمن کا کوئی آدمی تو ہماری تلاش میں نہیں ہے، اگر کوئی ادھر آئے گا تو اس کو روکوں گا، رسول کریم ا سو گئے اور میں وہاں سے نکل کر آنحضرت ا کی حفاظت کے لئے چاروں طرف نگرانی رکھے ہوئے تھا کہ اچانک میں نے ایک چرواہے کو دیکھا جو سامنے سے آرہا تھا (جب وہ میرے