سے) ساری ڈھیروں کو محفوظ رکھا اور جس ڈھیری پر نبی کریم ا بیٹھے ہوئے تھے میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو ایسا لگا کہ اس میں سے ایک بھی کھجور کم نہیںہوئی ہے (اور جب اس ڈھیری ہی میں سے کچھ کم نہ ہوا جس میں سے ان قرض خواہوں کو ان کے مطالبہ کے بقدر دیا گیا تھا تو باقی ڈھیریاں بدرجہ اولیٰ محفوظ اور سالم رہیں۔)
واقعہ نمبر٧ : تبوک میں کھانے کی برکت کا معجزہ
و عن أبی ہریرة قال: لما کان یو م غزوة تبوک أصاب الناس مجاعة، فقال عمر: یا رسول اللہ! ادعھم بفضل أزوادھم ثم ادع اللہ لھم علیھا بالبرکة فقال: نعم فدعا بنطع فبسط ثم دعا بفضل أزوادھم فجعل الرجل یجیء بکف ذرة و یجیء الآخر بکف تمر و یحیء الأخر بکسرة حتٰی اجتمع علی النطع شیء یسیر فدعا رسول اللہ ا بالبرکة ثم قال: خذوا فی أوعیتکم فأخذوا فی أوعیتھم حتیٰ ما ترکوا فی العسکر وعاء الا ملأوہ قال: فأکلوا حتی شبعوا و فضلت فضلة فقال رسول اللہ ا: أشھد أن لا الٰہ الا اللہ و أنی رسول اللہ لا یلقی اللہ بھما عبد غیر شاک فیحجب عن الجنة (رواہ مسلم، المشکوة ٢/٥٣٨)
حضرت ابو ہریرہ ص کہتے ہیںکہ غزوہ تبوک کے دن (توشہ کی کمی کے سبب) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر ص نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے اللہ سے برکت کی دعا فرمائیے، آنحضرت ا نے فرمایا: اچھا … اور پھر آپ ا نے چمڑے کا دسترخوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ لانے کے لئے کہا گیا چنانچہ لوگوں نے چیزیں لانا شروع کیں، کوئی مٹھی بھر چنے لے کر آیا، کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا، اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا، اس طرح اس دستر خوان پر کچھ تھوڑی سے چیزیں جمع ہوگئیں تو رسول کریم ا نے نزول برکت کی دعا فرمائی اور پھر (سب لوگوں سے) فرمایا لو (جس کا جتنا جی چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لو) چنانچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو … حضرت ابو ہریرہ ص کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے (جو تقریباً ایک لاکھ مجاہدین پر مشتمل تھا) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور پھر بھی بہت سارا کھانا بچا رہا … اس کے بعد رسول کریم ا نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کے اللہ تعالیٰ