فأخبرتہ فقال ابو طلحة: یاام سلیم! قد جآء رسول اللہ ا بالناس و لیس عندنا ما نطعمھم فقالت: اللہ و رسولہ أعلم، فانطلق أبو طلحة حتی لقی رسول اللہ ا فأقبل رسول اللہ ا وأبو طلحة معہ فقال رسول اللہ ا: ھَلُمّی یا أم سلیم! ما عندک؟ فأتت بذلک الخبز فأمربہ رسول اللہ ا فَفُتَّ و عصرت أم سلیم عکة فأدمتہ ثم قال رسول اللہ ا فیہ ما شاء اللہ أن یقول، ثم قال: ائذن لعشرة فأذن لھم فاکلوا حتی شبعوا ثم خرجوا ثم قال ائذن لعشرة ثم لعشرة فاکل القوم کلھم و شبعوا والقوم سبعون أوثمانون رجلا (متفق علیہ، المشکوة ٢/٥٣٧)
حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ابو طلحہ انصاری جو میرے سوتیلے باپ تھے، گھر میں آکر میری ماں ام سلیم سے کہنے لگے، کہ (آج) میں نے رسول کریم ا کی آواز میں بڑی کمزوری محسوس کی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ بھوکے ہیں، کیا تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ ام سلیم نے جواب دیا کہ ہاں کچھ ہے، اور پھر انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، اور پھر اپنی اوڑھنی لی اور اس کے ایک حصہ میں تو روٹیوں کو لپیٹا اور ایک حصہ سے میرے سر کو لپیٹ دیا اور پھر اوڑھنی میں لپٹی ہوئی ان روٹیوں کو میرے ہاتھ کے نیچے چھپایا اور مجھے رسول کریم ا کے پا س بھیجا۔ میں وہ روٹیاں لے کر پہنچا تو رسول اللہ ا اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے اور بہت سارے لوگ (جن کی تعداد اسی٨٠ تھی) آپ ا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، میں نے سب کو سلام کیا رسول کریم ا نے (سلام کا جواب دینے کے بعد) مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیںابو طلحہ ص نے بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں! پھر رسول کریم ص نے کھانے کے ساتھ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، میرا جواب (سنکر) آپ ا نے ان لوگوں سے جو آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، فرمایا کہ اٹھو (ابو طلحہص کے گھر چلو) اس کے بعد آنحضرت ا اور وہ تمام لوگ (ابو طلحہ ا کے گھر کی طرف) روانہ ہوئے اور میں بھی آپ ا کے آگے چل پڑا (جیسا کہ خادم اور میزبان آگے آگے چلتے ہیں، یا اس خیال سے آگے چلا کہ پہلے پہنچ کر ابو طلحہ ص کو آنحضرت ا کے تشریف لا نے کی اطلاع کردوں) چنانچہ ابو طلحہ ص کے پاس پہنچ کر ان کو (آپ ا کی تشریف آوری کی) خبر دی، ابو طلحہ ص نے (آنحضرت ا کے ساتھ اتنے زیادہ آدمیوں کے آنے کی خبر سنی تو) بولے کہ ام سلیم ص! رسول کریم ا تشریف لا رہے ہیں،ا ور آپ ا کے