فملأ نا کل قربة معنا و اداوة و ایم اللہ لقد اقلع عنھا و انہ لیخیل الینا أنھا أشد ملئة منھا حین ابتدیٔ (متفق علیہ، المشکوة٢/٥٣٢)
عمران بن حصین ص فرماتے ہیں: ایک سفر میں ہم (کچھ صحابہ ث) نبی کریم ا کے ساتھ تھے، ایک موقع پر لوگوں نے آپ ا سے (پانی نہ ہونے کے سبب) پیاس کی شکایت کی، آپ ا (یہ سن کر) اس جگہ اتر پڑے اور فلاں شخص کو بلایا … نیز آپ ا نے حضرت علی ص کو بھی طلب کیا اور ان دونوں کو حکم دیا کہ جائو پانی تلاش کرو، چنانچہ وہ دونوں (پانی کی تلاش میں ادھر ُادھر پھرنے لگے) انھوں نے ایک جگہ ایک عورت کو دیکھا جو اونٹ پر (لٹکے ہوئے) دو مشکیزوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھی، دونوں حضرات اس عورت کو (اس کے مشکیزے سمیت) نبی کریم ا کی خدمت میں لے آئے اور پھر اس عورت کو ( یا جیسے کہ بعض حضرات نے لکھا ہے اس کے مشکیزے کو) اونٹ سے اتاراگیا، نبی کریم ا نے ایک برتن منگا کر اس میں دونوں مشکیزوں کے دہانوں سے پانی انڈیلنے کا حکم دیا اور پھر لوگوں کو آواز دی گئی کہ آئو پانی پیو اور پلا ئو) اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق لے لو، چنانچہ سب لوگوں نے خوب پانی پیا (اور اپنے اپنے برتنوں میںاچھی طرح بھر دیا) حضرت عمران ص فرماتے ہیں کہ اس وقت ہم لوگ چالیس آدمی تھے جو بری طرح پیاسے تھے ہم سب نے اس برتن میں سے خوب سیر ہو کر پانی پیا بھی اور اپنی اپنی مشکیں اور چھا گلیں، اچھی طرح بھر لیں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم جب ہم لوگوں کو روک دیا گیا (یعنی جب ہم پانی لے لے کر اس برتن کے پاس سے ہٹے) تو ہم نے محسوس کیا کہ چھاگل پہلے سے زیادہ بھری ہوئی ہے۔
واقعہ نمبر ٤ : کپی میں برکت کا قصہ
و عن جابرص قال: ان أم مالک کانت تھدی للنبی ا فی عکة لھا سمنا فیأتیھا بنوھا فیسألون الأدم و لیس عند ھم شیء فتعمد الیٰ الذی کانت تھدی فیہ للنبی ا فتجد فیہ سمنا فما زال یقیم لھا أدم بیتھا حتی عصرتہ فأتت النبی ا،فقال: عصرتیھا قالت: نعم قال: لو ترکتیھا مازال قائما ( رواہ مسلم، المشکوة ٢/٥٣٧)
حضر ت جابر ص فرماتے ہیںکہ (ایک انصاری صحابیہ) حضرت ام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی کریم