واپس اپنے وطن لوٹ گیا۔
واقعہ نمبر ١٢: دجلہ کے کنارے مسلمانوں کا لشکر
حضرت سعد بن ابی وقاص ص کا لشکر ''نہر شیر'' کے شہر کو فتح کرنے کے بعد جب دجلہ کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ دشمن سب کچھ حتی کہ تمام کشتیوں کو بھی دوسری جانب لے گئے ہیں۔ حضرت سعد ص نے حالات کا جائزہ لینے کے بعد لشکر کے بعض دستوں کو دجلہ میں داخل ہونے کا حکم دیدیا۔
سب سے پہلے داخل ہونے والے دستہ اور جماعت کے امیر عاصم بن عمرو تھے۔ ان کی جماعت کے ایک فرد نے ساتھیوں سے فرمایا : ''أ تخافون من ھذہ النطفة'' کیا تم اس ایک دریا سے ڈرتے ہو؟ پھر اس نے یہ آیت تلاوت فرمائی (و ما کان لنفس أن تموت الا باذن اللّٰہ کتابا مؤجلا) آل عمران آیت : ١٤٥، ''کوئی انسان اپنی مرضی سے نہیں مرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرتا ہے، اور وہ اٹل تقدیر ہے''۔ یہ آیت پڑھ کر اس نے اپنا گھوڑا دجلہ میں ڈال دیا۔ اور دوسرے لوگ بھی دجلہ میں داخل ہوگئے۔
دوسری جانب اسلام کے دشمنوں نے جب یہ منظر دیکھا کہ دریا کے اوپر ایسے دوڑتے ہوئے آرہے ہیں جیسے کوئی زمین پر دوڑتا ہو، تو پکار اٹھے : دیواناً دیواناً، مجانین مجانین، کہ یہ تو دیوانے اور پاگل لوگ معلوم ہوتے ہیں۔ پھر کہنے لگے: ''و اللہ ما تقاتلون انسانا بل تقاتلون جنا''، قسم ہے کہ تمہاری لڑائی انسانوں سے نہیں بلکہ جنات سے ہے۔
اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک جماعت دجلہ میں داخل ہوتی اور سلامتی کے ساتھ گزر جاتی۔ آخر میں امیر لشکر حضرت سعد ص لشکر کے باقی ماندہ افراد کے ساتھ داخل ہوگئے اور دجلہ کو پار کرلیا۔
حضرت سعد ص نے اپنے لشکر کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ دجلہ میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیں:
''نستعین باللّٰہ و نتوکل علیہ حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل و لا حول و لا قوة الا باللّٰہ العلی العظیم''
الحاصل یہ پاک جماعت (جس کے متعلق لکھا گیا ہے : ''لم یکن فی الجیش بغی أو ذنوب تغلب الحسنات'' یعنی اس لشکر میں کوئی بد کار اور ایسا شخص نہیں تھا جس کے گناہ نیکیوں پر غالب ہوں) پانی