اے جریج! تو جریج نے کہا: اے میرے رب! ایک طرف میری ماں بلا رہی ہے اور دوسری طرف میری نماز ہے (کس کو چھوڑوں اور کس کی طرف جائوں؟) جریج نماز ہی کی طرف متوجہ رہے، ان کی ماں واپس چلی گئی، دوسرے دن پھر ان کی ماں آئی اور وہ نماز پڑھ رہے تھے، ماں نے آواز دی: اے جریج!… جریج نے پھر وہی کہا، اے میرے رب! ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف نماز ہے، یہ کہہ کر پھر نماز کی طرف متوجہ رہے تو ان کی ماں نے ان کو بد دعا دی، کہا کہ اے میرے اللہ! جریج کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک کہ یہ فاحشہ عورتوں کے کے منہ نہ دیکھ لے (یعنی رسوا ہو جائے)
تو بنی اسرائیل نے آپس میں جریج اور ان کی عبادت کا تذکرہ کیا(کہ دیکھو! اتنا عبادت گزار ہے اسکو ماں کی بد دعا لگتی ہے یا نہیں) اور ایک عورت تھی جو اپنے حسن میں ضرب المثل تھی اس نے کہا اگر تم چاہو تو میں تمہارے لئے جریج کو فتنے میں مبتلا کر دوں، چنانچہ وہ عورت جریج کے پاس آئی (اور بے حیائی کی دعوت دینے لگی) لیکن جریج نے اس کی طرف ذرا بھی التفات نہ کیا تو وہ عورت ایک چرواہے کے پاس آئی، جو حضرت جریج کے عبادت خانے کے پاس ہی رہا کرتا تھا،اس کو اپنے نفس پر قدرت دی چنانچہ چرواہے نے اس عورت کے ساتھ منہ کالا کیااور وہ عورت حاملہ ہوگئی، جب اس کا بچہ پیدا ہوا تو کہنے لگی: یہ بچہ جریج سے ہے، یہ سن کر لوگ جریج کے پاس آئے، ان کو عبادت خانے سے نیچے اتارا اور عبادت خانہ گرا دیا اور حضرت جریج کو مارنا پیٹنا شروع کردیا تو جریج نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ مجھے کیوں مارتے ہو؟ انہوں نے کہا: تو نے اس فاحشہ عورت سے زنا کیا ہے اور اس کو بچہ تجھ سے پیدا ہوا ہے، تو حضرت جریج نے کہا:بچہ کہاں ہے؟ چنانچہ وہ لوگ بچہ ان کے پاس لے آئے، تو حضرت جریج نے کہا مجھے نماز پڑھ لینے دو، پس انہوں نے نماز پڑھی اور پھر بچے کے پاس آئے اور اسکے پیٹ میں انگلی چبھوئی اور کہا کہ اے لڑکے! تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا: فلاں چرواہا میرا باپ ہے، (لوگوں نے جب یہ کرامت دیکھی) تو حضرت جریج پر ٹو ٹ پڑے اور ان کو چومنے لگے اور ان کو تبرکاً چھونے لگے، اور کہنے لگے کہ ہم آپ کا عبادت خانہ سونے سے بنا کر دیں گے تو انہوں نے کہا کہ مجھے سونے کی ضرورت نہیں ہے بس جیسے پہلے مٹی سے بنا ہوا تھا اُسی طرح بنا کر دے دو۔ چنانچہ لوگوں نے دوبارہ مٹی سے بنا کر دے دیا۔