ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
زبانی کہنا کیسے کافی ہوسکتا ہے - حق یہ ہے عوام کی قبلی حالت کا اندازہ تو کیا کرتے خود اپنے فعل کا بھی احساس نہیں کہ ہمارے دل میں وجوب ہے - دلیل اس کی یہ ہے کہ حضرت اولا نے کانپور میں ایک مرتبہ علی الاعلان وعظ میں فرمایا - قصہ کانپور متعلق قیام : فرمایا کہ لوگ ہمارے گروہ کو کہتے ہیں کہ قیام کو ہم حرام سمجھتے ہیں اور باوجودیکہ ہم زبان سے ظاہر کرتے ہیں اور علی رؤس الشہاد کہتے ہی کہ ہم حرام نہیں سمجھتے تو کر کے دکھاؤ - اس سے معلوم ہوا کہ قول جب ہی معتبر ہوسکت ہے جبکہ فعل بھی اس کے مطابق ہو یہ انہیں کا مسلم مسئلہ ہوا - اب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ لوگ قیام کو فرض سمجھتے ہیں وہ زبان سے اس کے خلاف کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے اوپپر بہتان ہے - ہم قیام کو فرض نہیں سمجھتے - ہم ان پر انہیں کے مسلم مسئلہ کو پیش کرتے ہیں کہ اس زبانی دعویٰ کو ہم صیحھ جن تسلیم کریں گے جبکہ فعل بھی اس کے مطابق کر کے دیکھائیں - یعنی قیام نہ کریں غرض ان کا دعویٰ ہے کہ ہم قیام کو حرام سمجھتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ قیام کو فرض سمجھتے ہیں اور ہم میں سے ہر اہک دوسرے کے دعویٰ کو اتہام کہتا ہے تو آپ ہی قبول کے بموجب فیصلہ یوں ہو سکتا ہے کہ ہم قیام کر کے دکھاویں اور آپ قیام چھوڑ کو سو جگہ مولود شریف کیجئے اور ہم بھی شریک ہوں اور وہ بھی پچاس جگہ قیام ہو ہم بھی کریں گے اور پچاس جگہ نہ ہو وہ بھی نہ کریں - وضح ہوجائے گا کہ کون کہاں تک اپنے قول میں سچا ہے - اس پو کوئی پکار نہ ہو اور لم تقولون مالا تفعلون کا ظہور ہوگیا - اگر دل میں وجوب نہ ہوتا تو کیوں کے کے نہ دکھادیتے - جب خود اپنی یہ حالت ہے تو دوسرے کے قلبی کی نسبت کیا حکم لگاسکتے ہیں - اگر عوام کو صرف بتادینے سے کام چل جایا کرتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی ترمیم کو قریش کی حدیث العبد بالجاہلیۃ ہونے کے خوف سے ملتوی نہ فرماتے بلکہ اول اعلان فرمادیتے کہ کوئی ایسا خیال نہ کرنا کہ میں کعبہ کو شہید کرتا ہوں بلکہ مقصود ترمیم اور اس ہیئت پر لے آنا ہے جس پر حضرت خیلی اللہ علیہ السلام نے بنایا تھا جو کو قریش نے بوجہ کمی خرچ اختصار کردیا - حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم