ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
اشخاص اس کی پابندی کریں کبھی ان میں نا اتفاقی نہیں ہوسکتی اور اتفاق بمرتبہ اکمل قائم رہ سکتا ہے جو اصل ہے حسن معاشرت کی - آداب مجلس اسی میں مندرج ہیں مثلا کوئی شخص دوسرے کے پاس آتا ہے تو اس کا آنا اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ وہ اس تعلق کو جو افراد انسام میں خدائے تعالیٰ طبعا رکھا ہے قائم کرتا ہے اور صاحب خانہ کو اس کا اہل سمجھتا ہے - اکرام مہمان و سلام و جواب : یہ بھی گونہ احسان ہے - لہذا صاحب خانہ کو کو چاہئے کہ اسکی مکافات کرے یعنی اس کو اکرام کے ساتھ بٹھاوے اور جبکہ اس نے زبان سے بھی اس مافی الضمیر کی تصدیق کی یعنی سلام کیا تو یہ بھی حال کے ساتھ قال سے بھی جواب دے اور احسان کی مکافات اچھی جب ہوتی ہے کہ اس احسان سے قدرے زائد ہو - یعنی جواب سلام سے اچھا ہو - اسی واسطے فرمایا گیا ہے - واذ حییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا اوردوھا ترجمہ : اور جب تم کو سلام کیا جاوے تو اس سے اچھا جواب دو یا ویسا ہی دیدو - اگر اس نے السلام علیکم کہا ہے تو یہ وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ کہے بلکہ وبرکاتہ بھی بڑھادے تو اور اچھا ہے اور مزاج پرسی کرے اور یہ سب آداب مقدمات اور ذرائع ہیں اور تعلق انسانی یعنی تمدن اور ایک کی کار براری اور دوسرے سے اصل مقصود ہے لہذا اس پر نظر چاہئے اور اس آنے والے کی حاجت میں بقدر وسع خلوص کے ساتھ امداد دینا چاہئے - کھانا کھلانا : سب سے پہلی حاجت کھانا کھانا ہے اس کو کھانا کھلاوے اور آرام کا موقعہ دے پھر اس کی دیگر حاجات معلوم کر کے شریک ہو اور چونکہ شرکت و شکر دلی معتبر ہے صرف زبانی معتبر نہیں اس واسطے ان سب آداب میں سے وہ باتیں حذف ہو جاوینگی جو محض بناوٹ ہیں جو اودھ کی تہذیب کے جز ہیں جیسے فرشی سلام اور بات پر قیام اور حد سے زیادہ عاجزی کے کلمات اور غیر واقعی تعریفات اور ضرورت سے زیادہ القاب وغیرہ وغیرہ بس وہ تہذیب رہ جاویگی جو مفید اور تمدن کیلئے شرط ہے -