ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
پاس کچھ جواب نہ تھا - کفار کے ساتھ معیت : بعض لوگوں کو اسمیں اشتباہ ہو جاتا ہے کہ نرم زبانی میل جول اور محبت کا شعبہ ہے جسکی کفار سے ممانعت ہے او ر جسکی نسبت ارشاد ہے لا تتخذوا الکافرین اولیاء من دونا لمؤمنین ( ترجمہ مت بناؤ کفار کو دوست مومنین کو چھوڑ کر 12 ) اور المرء مع ان احب وغیرہا من الآیات والا حادیث ( ترجمہ آدمی اس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محبت رکھے - اصل یہ ہے کہ برتاؤ کے دو مرتبے ہیں - اک اتنا تعلق دوسرے سے رکھنا جتنا تمدن کے کئے ضروری ہے کیونکہ انسان متمدن بالطبع یعنی ایک دوسرے کا محتاج ہے اور ایک زائد از ضرورت تعلقات بڑھانا اور اتحاد پیدا کرنا - اول محمود ہے اور دوسرا مذموم - اول کو حسن خلق کہتے ہیں اور دوسرے کو مودۃ اور محبت اور تولی - اول کے بھی بہت مراتب ہیں اور دوسرے کے بھی - اول کے بعض مراتب یہ ہیں - کسی سے تمدنی ( معاشی ) ضرورت میں مدد لینا یا مدد دینا مثلا کفار کو نوکر رکھنا یا ان ان کی نوکری کرنا - ان کو قرض دینا یا ان سے قرض لینا - قال تعالیٰ لا ینھا کم اللہ عن الذین لم یقاتلو کم فی الدین ولم یخرجوکم من دیار کم ان تبرو ھم و تقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین ( ترجمہ ) نہیں منع کرتا اللہ تم کو ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے وطب سے نکالا اس سے کہ انکے ساتھ سلوک کرو اور برابری رکھو - اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے مقسطین کو ) حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے کفار کی یہاں مزدروری کرنا ثابت ہے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار سے قرض لیا اور مثلا مظلوم کی دادرسی کی کہ یہ نہ صرف مباح ہے بکلہ مستحسن اور واجب اور ضروری ہے - قال تعالیٰ واز قلتم فاعدلوا الو کان ذا قربیٰ وقال ولا یجرمنکم شناٰن قوم علی ان لاتعدلوا اعدلو ھو اقرب للتقوی