ملفوظات حکیم الامت جلد 29 - یونیکوڈ |
ملفوظات ہفت اختر حضرت گنگوہی شان ( 1 ) رمضان المبارک 133 ھ اثنا درس تکشف میں فرمایا ( پہلے سے اہل حال کا تذکرہ ہو رہا تھا ) کہ حضرت مولانا گنگوہی کے یہاں ایک شخص اثنا ء ذکر میں نہیایت موزوں اور باقاعدہ تالیں بجایا کرتے تھے - ایک مولوی صاحب بہت دلیر تھے اور حضرت ان سے محبت فرماتے تھے - انہوں نے ان ذکر پر اعتراض کیا - حضرت ناراض ہوئے اور فرمایا تم کیا جانو - خواہ مخوا دخل در معقولات دیتے ہو - ایسے ہی ایک اور صاحب تھے جواب خلیفہ ہیں ان پر ضحک کا غلبہ تھا - ہر وقت ہر ساعت نماز میں وضو میں انہیں بس ضحک ہی سے سرو کار تھا ایک صاحب نے انہیں ڈانٹ دیا اور روکنا چاہا حضرت کو خبر ہوئی از حد خفا ہوئے اور دریافت کیا تم نے کیوں منع کیا تم کون ہوتے تھے تم سے کس نے کہا تھا - کہ نماز میں بھی ینستے تھے - فرمایا ان کو نماز ضحک آمیز تمہاری اشک ریز نماز سے بدر جہا بہترو اولیٰ ہے - اھ اس کے بعد فرمایا یہ سب علامات ضعف قلت ضبط ہیں - کمال نہیں البتہ ایک حالت محمدوہ ہے عوام الناس اس کو کمال سمجھتے ہیں اور ظاہری ہو حق کو مقصود و تصور کر کے اس کے درپے اور اس کی تحصیل میں مشغول ہوتے ہیں حضرت گنگوہی نہایت ضابطہ تھے آپ سے ایام ارشد میں تو ایسے حرکات کیسے صادر ہوتے اپ نے تو زنامہ ارادت بھی اس متانت و وقار سے بسر کیا کہ باید اور شاید - ایک مرتبہ یہیں تھانہ بھون میں ایک شخص حضرت حاجی صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے شب کو ذکر میں مشغول تھے اثنا ء ذکر میں ایک ذوقی حالت کے غلبہ سے ان کی ابان سے ایک شعر نکلا عرصہ قلیل کے بعد دوسرا شعر اور ایسے ہی تیسرا - مولانا نے دور ہی فرمایا سیدھی طرح ذکر میں مشغول ہو - یہ ذکر اللہ یا مشاعری فرماتے تھے کہ میں پھر پچھتایا بھی کہ حضرت حاجی صاحب کے سامنے میں نے دخل دیا - یہ شان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی کہ بارگاہ نبوی می رائے دیدیا کرتے تھے پھر افسوس کرتے تھے اور پچھتاتے کہ مجھ سے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وعلیٰ