Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

8 - 18
تعلیمی سال کے آخر میں طلبائے جامعہ سے خطاب
 ناقل و مرتب:مفتی محمد راشد ڈسکوی، رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

صدر وفاق ، شیخ الحدیث، حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے جامعہ فاروقیہ کراچی میں تعلیمی سال کے اختتام پر تمام طلبا ئے جامعہ سے نہایت گراں قدر نصائح پر مشتمل جامع ومانع بیان فرمایا، جزاھم اللہ خیراً احسن الجزا۔ آں محترم کا یہ قیمتی بیان عنوانات کے اضافے ،آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ کی تخریج کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں حضرت اقدس زید مجدہم کی ہدایات اور نصائح پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائیں، آمین۔ (ادارہ)

الحمد للہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی سید الرسل، و خاتم النبیین، وعلی آلہ، وصحبہ، وأزواجہ، واتباعہ، وأمتہ، وعلی من تبعھم باحسان إلی یوم الدین․
أما بعد، فأعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم ِاللہ الرحمن الرحیم․
﴿لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْن،َ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْنٍ﴾․ (آل عمران: 164)

وقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: ”إن في الجسد مضغة، إذا صلُحت صلُح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وھي القلب“․ أو کما قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم․

صدق اللہ العظیم وصدق رسولہ النبي الکریم، ونحن علی ذٰلک لمن الشاہدین والشاکرین، والحمد للہ رب العالمین․

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے
اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے زبانیں بھی قاصر، دل ودماغ بھی قاصر ہیں کہ اس نے اپنی رحمت سے ہمیں جامعہ فاروقیہ میں تعلیمی، تربیتی سال مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ اس کا احسان ہے، یہ اس کی رحمت ہے اور بلا استحقاق یہ احسان اور یہ رحمت جامعہ کی طرف متوجہ ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح سال مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی، دعا ہے کہ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ ان کوششوں کو ،اِن مساعی کو اپنی بارگا ہ ِاقدس میں حُسنِ قبول عطا فرمائے۔ جن حضرات نے محنت کی ہے، خواہ کسی انداز سے کی اور جامعہ کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے اپنی صلاحیت استعمال کی، اللہ پاک ان کی کوششوں کو قبول فرمائے اور جن طلبا کے لیے اور آنے والے مہمانان ِرسول کے لیے یہ کوشش کی گئی ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ ان تمام طلبا کو اپنی محبت عطا فرمائے، اور ان کے دلوں کی اصلاح فرمائے، ان کے ایمان کو مضبوط فرمائے، ان کے اعمال کو صالحات میں شامل فرمائے، ان کے اخلاق ،ان کے معاملات ان کی معاشرت، سب کو اسلامی احکام کے مطابق بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔

عقیدہ ”حیات النبی صلی الله علیہ وسلم “
یہ تو ابتدائی تمہیدی کلمات تھے، اسکے بعد ایک بات دو ٹوک الفاظ میں اور بہت واضح انداز میں یہ کریں گے، کہ ہمارا جامعہ فاروقیہ اور ہمارا وفاق المدارس قرآن وحدیث کی تشریح کے ذیل میں علمائے دیوبند کے مسلک ومشرب کو عام کرنے کے لیے، علمائے دیوبند کے مسلک اور مشرب کو پھیلانے کے لیے، علمائے دیوبند کے مسلک اور مشرب کوخلقِ خدا تک پہنچانے کے لیے قائم ہوا ۔ علمائے دیوبند نے، جن کی پیروی وفاق کرتا ہے، جن کی پیروی جامعہ فاروقیہ کرتا ہے، بڑے بڑے جبال ِعلم بڑے بڑے نامور علماء، اکابر مفسرین، اکابر محدثین،اکابر فقہاء، اکابر جہاد آزادی اور اکابر صوفیا اور اصحابِ دعوت وارشاد پیدا کیے ہیں اور یہ ایک دو نہیں، دس پانچ نہیں ،بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، ان سب کی خدمات گوشہٴ گمنامی میں نہیں،ان میں سے اکثر کی خدمات پورے عالم میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں ہیں۔ ان کی خدمات کا عمومی طور پر، خصوصی طور پر ،ہر مقام پر، ہرجگہ اکرام و احترام کیا گیا ہے اور ہم صرف تقلیداً ًنہیں، تحقیق پر،عالم کے حالات کا اچھی طرح ،تفصیلی جائزہ لے کر ان کے پیروکار بنے ہوئے ہیں۔ آپ جامعہ فاروقیہ کو رہنے دیجیے، وفاق المدارس اتنا عظیم ادارہ ہے کہ اس کی کوئی مثال کہیں موجود نہیں ہے اور وفاق المدارس مذاہب دینیہ اور مذاہب اسلامیہ اورہمارے ان تمام اداروں کی حفاظت کا ،استحکام کا ،ایک مضبوط اور مستحکم مرکز ہے، جس نے بڑوں بڑوں کو جو دینی تعلیم کی عظمت کے دشمن تھے، اللہ کی مدد سے پسپائی پرمجبور کیا۔ ان کی ناجائز کوششوں کوجو ہمارے مدارس کے خلاف تسلسل کے ساتھ جاری تھیں، ناکام بنایا ۔

الحمدلله یہ اتنی بڑی تعداد صرف ایک مدرسے میں موجود ہے۔ آپ ملک کے کسی علاقے میں چلے جائیں ہم ابھی بلوچستان ہو کر آئے ہیں، جسے لوگ کہتے ہیں کہ پسماندہ علاقہ ہے، ہم نے دیکھا کہ مدارس کے اعتبارسے انتہائی ترقی یافتہ علاقہ ہے۔ اتنے طلبا ، اتنے علماء، اتنے مدارس کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں،جلسہ میں بیٹھ کر بات کرو تو حدِ نگاہ تک آدمی ہی آدمی، یہ ساری کی ساری برکت وفاق کی ہے،اور میں نے آپ کو بتایا تھا کہ جامعہ فاروقیہ اور وفاق علمائے دیوبند کا پیروکار ہے، لہٰذا نہ جامعہ فاروقیہ میں مماتیوں کے لیے کوئی گنجائش ہے اور نہ وفاق میں۔ یہ بات طے شدہ ہے، وفاق کا موقف کمزور نہیں ہے، وفاق کے موقف میں تردد اور شک شامل نہیں ہے، وفاق کا موقف مبنی علی القین ہے اور وفاق اپنے خیالات میں، اپنے عزائم میں مستقل اور مضبوط ہے،تو اس لیے میں اپنے اُن بھائیوں سے، وہ ہمارے بھائی ہیں، یہ گذارش کروں گا کہ وہ حضرات جو مماتی ذہن رکھتے ہیں وہ یہاں (جامعہ فاروقیہ میں) تشریف نہ لایا کریں،آپ سن رہے ہیں یا نہیں؟ سن رہے ہیں؟ بات سمجھ آرہی ہے؟ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم اُن کے دشمن نہیں ہیں، ہم اُن کے بد خواہ نہیں ہیں،ہم اُن کے خیر خواہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حق کے لیے اُن کوشرح صدر نصیب فرمائے، لیکن ہم اپنے مدرسوں کو اِن دوستوں سے محفوظ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔

علمائے دیو بند کا مزاج و مذاق
لوگ کہا کرتے ہیں کہ جودوسرے حیاتی مولوی مماتیوں کے خلاف ہیں،وہ تو اتنے سخت نہیں ہیں، یہ بہت سخت ہے۔ تو میں کہا کرتا ہوں کہ انہوں نے دیوبند دیکھا بھی نہیں، انہوں نے دیوبند میں وقت ہی نہیں گذارا۔اور ایک اور بات ، بہت سے لوگوں نے گذارا ہے مگر فقط ایک سال، دورے کے لیے گئے۔ ایک سال میں دیوبند کا مزاج کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ مگر میں نے وہاں پانچ سال گذارے ہیں ۔اور یہ بھی آپ کو بتا دوں، فخر کے طور پر نہیں میں نے وہاں پانچ سال اِس طرح گذارے ہیں کہ میں وہاں اپنے اساتذہ کی آنکھوں کا تارا تھا، وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔

میں نے پانچ برس دیوبند میں اس طرح گذارے ہیں کہ مجھے حضراتِ اساتذہ کا خصوصی قرب حاصل رہا، تو اس لیے میں جس طرح علمائے دیوبند کے مزاج و مذاق سے واقف ہوں، یہ تو نہیں کہتا کہ اور کوئی واقف نہیں ، نہیں !مجھ سے زیادہ واقفیت رکھنے والے بھی ہوں گے، لیکن یہ جو ایک ایک سال رہ کر وہاں سے آتے ہیں ، ان کو کچھ پتہ نہیں، یہ دیوبند کے مذاق و مزاج سے واقف نہیں ہیں، اور دیوبند کا مزاج مماتیوں کے مطابق ہرگز نہیں ہے۔

اس لیے میری درخواست ہے اپنے اُن دوستوں سے ، کہ وہ مماتیوں ہی کے مدرسے میں جایا کریں ، ہمارے مدرسوں میں نہ آیا کریں، ٹھیک ہے نا؟ میرے مماتی بھائی جتنے یہاں موجود ہیں، ناراض نہ ہوں،میں نے بہت ادب کی رعایت رکھتے ہوئے اُن کا ذکر کیا ہے، لیکن حق حق ہوتا ہے، اُس کو بیان کرنے میں تکلف نہیں ہونا چاہیے، وہ میں نے بیان کردیا۔

اپنی علمی ، عملی اور روحانی ترقی کا خیال رکھیں
یہاں ایک درخواست آپ سے یہ ہے کہ چاہے آپ فارغ ہو گئے ہوں، چاہے آپ کا طلبِ علم کا سلسلہ جاری ہو،آپ کو اپنی علمی ترقی کا خاص خیال رکھنا ہو گا، اپنی قابلیت بڑھانے کی ، اپنی قابلیت بہترسے بہتر بنانے کی اور صرف علمی نہیں ! عملی اور روحانی ترقی کا بھی اہتمام کرنا ہے، ہر آدمی ترقی چاہتا ہے، ہم بھی چاہتے ہیں، آپ بھی چاہتے ہیں، سب چاہتے ہیں، آپ چوں کہ وراثت کی قوت کے حامل بن رہے ہیں تو آپ کی ترقی کا تعلق علم سے، عمل سے، اور روحانیت سے ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو اور نبی صلی الله علیہ وسلم کو علم و عمل اور روحانیت کی ترقی کی معراج عطا کی تھی لہٰذاآپ کو بھی اس کے لیے خوب محنت ، خوب کوشش کرنی چاہیے۔

موجودہ سیاست سے اپنے آپ کو دور رکھیں
دوسری بات یہ ہے کہ یہ جو آج کل کی سیاست ہے نا،آپ اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر دعا کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس سے حفاظت فرمائیں۔کیا سمجھے؟ گذارش یہ ہے کہ میں ہر سیاست کی بات نہیں کر رہا، ہمارے ملک میں جو سیاست رائج ہے، پاکستان کے اندر جو سیاست رائج ہے، اس کے حوالے سے میں آپ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیا کریں کہ اے اللہ ہمیں اس سیاست سے محفوظ فرما۔میں تفصیل میں نہیں جاوٴں گا، آپ عقلاء ہیں، ”وللعاقل تکفیہ الإشارہ“․ عاقل کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، ہماری ،آپ کی، تمام انسانیت کی زندگی کا اصل مقصد اللہ رب العزت ورسول کی رضا ہے۔ اصل مقصد اللہ رب العزت ورسول کی رضا ہے اور اس موجودہ سیاست میں قدم رکھنے سے وہ (اللہ کی رضا)گُم ہوتی ہے، وہ برقرار نہیں رہتی۔ اصل مقصدتو اللہ رب العزت ورسول کی رضا ہے اور موجودہ سیاست میں شامل ہونے کے بعد اللہ ورسول کے رضا کے حاصل ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں، لہٰذا آپ اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کریں۔

جدیدیت کافتنہ
ایسے ہی ایک فتنہ جدیدیت کا ہے۔ بڑے بڑے عالم اور مقتدا ،عوام اِن پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتی ہے،علم و فضل میں ان کا مقام بہت اونچا اور بہت بلند ہے، لیکن ہمارے مشاہدے میں آرہاہے کہ وہ جدیدیت کاشکار ہو گئے اورجدیدیت کا شکار ہونے کے بعد کئی گُل انہوں نے کھلائے اوروہ گل جو انہوں نے کھلائے ہیں، ان سے ایمان کی روشنی کے بجائے، عصیان کا اندھیرا چھا گیا۔

”ألاتسمعون، إن البذاذة من الإیمان،ألا تسمعون، إن البذاذة من الإیمان“․ (رواہ أبو أمامة بن ثعلبة الأنصاري رضي اللّٰہ عنہ، وأخرجہ أبو داوٴد في سننہ، کتاب الترجل، باب، رقم الحدیث: 4161، 4/254، دار ابن حزم)

سادگی ایمان کا حصہ ہے، یہ جو جدیدیت کی بلا ہے، اِس کا ایک سبب مغرب سے مرعوب ہونا ہے۔ لوگ مغرب سے مرعوب ہو کر جدیدیت کا شکار بنے، (اور)ایک سبب اس جدیدیت کا، مفادات کی دوڑ ہے، مفادات حاصل کرنے کے لیے جدیدیت کے ہتھیار کو کام میں لایا جاتا ہے، ہمارے نزدیک مغرب کی مرعوبیت بھی بلا ہے، مغرب کی مرعوبیت بھی مذموم ہے، مغرب کی مرعوبیت بھی نہایت ناپسندیدہ اور نہایت قبیح ہے اورمفادات کی دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کرنا ، یہ بھی تباہی کا راستہ ہے،ہم نہیں چاہتے کہ یہ ہمارے عزیز، ہم نہیں چاہتے یہ ہماری روحانی اولاد، ہم نہیں چاہتے یہ ہمارے پیارے طلبا اِن وباوٴں میں مبتلا ہوں۔ اِن کواِن تمام وباوٴں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

میں ایک بات پوچھتا ہوں، یہ جو میں آپ کو نصیحت کر رہا ہوں ، اپنی غرض سے یا آپ کی غرض سے؟میری اپنی کوئی ذاتی غرض نہیں ، میری اپنی کوئی ذاتی مصلحت اِس میں نہیں ہے۔ آپ ہمارے پاس آئے، ہم نے آپ کی خدمت کو اپنی زندگی کا بہترین عمل سمجھا، ہم رات دن آپ کو تعلیم اور تربیت کی نعمتوں سے آراستہ کرنے میں لگے رہے، کیا یہ حقیقت نہیں ہے؟ یہ حقیقت ہے، لہٰذا ہم اسی جذبہٴ خیر خواہی کی بنا پر آپ سے یہ درخواستیں کر رہے ہیں۔

فراغت کے بعد اہلِ حق علماء سے تعلق رکھیں
اس کے بعد ایک اور بات آپ سے عرض کرنی ہے کہ جب آپ فارغ التحصیل ہو جائیں اورکسی بھی مقام پر چاہے آپ کا اپنا علاقہ ہویا کسی دوسرے کا علاقہ ہو، وہاں جو اہلِ حق علماء ہیں، ان کے پاس جایا کریں۔ دوسری بات یہ کہ وہاں رہتے ہوئے آپ کا کردار، آپ کا عمل، آپ کی روِش، آپ کے معاملات، آپ کے تعلقات اتنے خوبصورت ہوں کہ لوگ اُن پر رشک کرتے ہوں، ظاہر ہے کہ آپ کے معاملات ایسے ہوں گے تو آپ اچھے شُمار ہوں گے نا؟اور جب یہاں اچھے شمار ہوں گے تو اللہ کے یہاں بھی اچھے شمار ہوں گے۔

فراغت کے بعد درسِ قرآن کا اہتمام کریں
اسی طریقے سے ایک گذارش یہ ہے کہ جو حضرات یہاں سے فارغ ہو کر جائیں گے،وہ جہاں بھی ہوں، قرآنِ مجید کے درس کا اہتمام کریں، موقع،محل ،مقام کے اعتبار سے درس ضرور دیا کریں، یعنی قرآن کریم کے ساتھ ان کا رابطہ بشکل ِ درس ضرور ہونا چاہیے، چاہے روزانہ ہو، چاہے ہفتہ واری ہو۔ بہرحال منشاء کیا ہے؟ قرآن سے تعلق ہو،درس سے منشاء قرآن سے تعلق ہے۔

دعوت و تبلیغ کاکام کریں
اس کے علاوہ ایک بات یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے، اس کے فیوض ، اس کی برکات عام ہیں ، پوری دنیا میں ہیں ۔ کوئی آدمی ان کا انکار کرے تو یا تو وہ تجاہلِ عارفانہ کرتا ہے ، یا عِناد کی وجہ سے انکار کرتا ہے۔سچ بات یہ ہے کہ لاکھوں آدمی ہیں، دعوت و تبلیغ کے کام کے ذریعے سے جن کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے قائم ہوا، وہ نمازپڑھنے لگے ہیں، وہ داڑھیاں رکھنے لگے ہیں،وہ زکاة دینے لگے ہیں، وہ روزہ رکھنے لگے ہیں۔ ان میں کئی دانے کچھ خراب بھی نکل جاتے ہیں، وہ تو مولویوں میں بھی نکل جاتے ہیں ، اگر کسی تبلیغی آدمی کے حوالے سے آپ کے ذہنوں میں کوئی قصہ ہے، تو وہ مولویوں کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔ چندآدمیوں کی بنا پر پوری جماعت کو بدنام نہیں کیا جاتا۔

فتنوں کا تعاقب کریں
اس کے بعد آخری گفتگو، اور وہ آخری گفتگو پوری توجہ سے سننے کی ہے، آپ کو یہ معلوم ہے کہ جب اندھیری رات میں اندھیرا پوری طرح چھا جاتا ہے تو تمام اشیاء نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ایسے ہی آج کل اندھیری رات کی طرح فتنے چھائے ہوئے ہیں ، کتنے فتنے ہیں، کتنے فتنے ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے، آپ غور کریں، کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں، وہ ”عبد الرحمن ، عزیز اللہ، کریم بخش، احمد حسن “ان کے نام ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں لیکن یہ اندر سے مسلمان نہیں ہیں، بہت کم ، اُن کو اسلامی عقائد پر بھی اعتراض ہے، اُن کو اسلامی عبادات پر بھی اعتراض ہے، اُن کو اسلامی تعلیمات پر بھی اعتراض ہے۔

ہم دل کی اصلاح سے غافل ہو چکے ہیں
اور بہت سے ایسے ہیں جن کو اعتراض تو نہیں ہے مگر شک میں مبتلا ہیں کہ یہ ٹھیک بھی ہیں یا ٹھیک نہیں ہیں،ہماری عقل تو اِن کو قبول کرتی نہیں ہے اب ہم اِن کو مانیں یا نہ مانیں ؟؟ بہت سے منکر، بہت سے شک میں مبتلا ہیں ایسے لوگ بے شمار ہیں، نام ان کا عبد الرحمن ، نام ان کا عزیز اللہ، نا م ان کا کریم بخش، نام ان کا احمد حسن ہے۔

علماء موجود ہیں، وعظ بھی ہو رہے ہیں، تلقین بھی ہو رہی ہے، کتابیں بھی لکھی جا رہی ہیں، فتوے بھی صادر ہو رہے ہیں، مدرسے بھی موجود ہیں، دارالافتاء بھی موجود ہیں، دعوت و تبلیغ کا کام بھی ہو رہا ہے۔ ہورہا ہے سب کچھ کہ نہیں ہو رہا؟لیکن ایک کام نہیں ہو رہا، علماء کے مواعظ ہو رہے ہیں، علماء کی تلقینات بھی جاری ہیں، دینی کتابیں بھی چھپ رہی ہیں، بے شمار دینی رسائل شائع ہو رہے ہیں، مدرسوں کی کوئی کمی نہیں ، مولویوں کی کوئی کمی نہیں ، طالب علموں کی کوئی کمی نہیں، دعوت و تبلیغ کا کام دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، یہ سب کچھ ہو رہا ہے، اللہ ان کو قبول فرمائے، ایک کام نہیں ہو رہا، آپ بتاوٴ کیا نہیں ہو رہا؟ ایک کام نہیں ہو رہا، دل کی اصلاح کی طرف کسی کی توجہ نہیں ، کیا فرمایا نبی صلی الله علیہ وسلم نے۔

”إن في الجسد مضغة، إذا صلُحت صلُح الجسدکلہ، وإذا فسدت فسد الجسدکلہ، ألا وھي القلب“ (رواہ النعمان بن بشیر، وأخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب الإیمان، باب فضل من استبرأ لدینہ، رقم الحدیث،52،1/20،دار طوق النجاة)

یہ جو دل ہے نا ، یہ ٹھیک ہے تو سب کچھ ٹھیک ہے،اگر اس میں بگاڑ ہے تو ہر چیز میں بگاڑ ہے، اس چیز کی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں ، بڑے بڑے تحقیقی کام ہو رہے ہیں،بڑے بڑے ادارے قائم ہورہے ہیں،بڑے بڑے مولوی ، مصنف پیدا ہو رہے ہیں، مجھے انکار نہیں ہے، ہو رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے، لیکن کوئی بھی دل کے احوال کی طرف متوجہ نہیں ہے ، جب کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دل ٹھیک سب ٹھیک، دل خراب سب خراب“۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟اس مسئلہ کا ”کہ دل ٹھیک ہو جائے، حالات ٹھیک ہو جائیں“، دل کا اعراض ختم ہو جائے، اور دل کا بگاڑ ختم ہو جائے۔

دل کی اصلاح کے لیے دو کام
اس کے لیے دو کام ہیں: ایک صحبتِ اہل اللہ اور دوسرا کثرتِ ذکر اللہ۔آپ کو معلوم ہو گا، آپ خوب جانتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی المرتضیٰ، اور عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر، اصحاب بیعت رضوان، فتح مکہ سے پہلے اسلام لانے والے، فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے ،رضی اللہ عنہم اجمعین یہ سب کون ہیں؟ صحابی ہیں ، ہیں نا؟ یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے مرید تھے یا نہیں ؟یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے شاگرد تھے یا نہیں؟لیکن نہیں کہا گیا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے ارادت مند ہیں۔ نہیں کہا گیاکہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے تلمیذ ہیں شاگرد ہیں۔ کہا گیا تو یہ کہا گیا کہ یہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ یعنی کہ ذکر تلمذ کا نہیں ہے، حالاں کہ تلمیذ تھے۔ ذکر ارادت کا نہیں ہے، حالاں کہ مرید تھے۔ ذکر صحبت کا ہے کہ یہ صحابی ہیں اور اس صحبت ِرسول کی بنا پر اللہ نے اُن کو وہ مقام عطا کیا ہے ، وہ منصب عطا کیا ہے، وہ رِفعت از خود عطا کی ہے کہ اِن کے بعد کائنات میں کسی نبی کی امت کو وہ مقام نہیں ملا۔ یہ عظمت ،یہ رِفعت، صحبت کی وجہ سے ہے کہ اُن کو صحبت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حاصل تھی۔ اب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پردہ فرماگئے ۔ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کس کی صحبت اختیار کی جائے؟ صحابہ کو تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت ملی تھی، اور نبی کی صحبت سے وہ اس مقام پر پہنچے،تو قرآن نے اس کا حل بیان کیا۔

﴿یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ ، وکونوا مع الصادقین﴾ (التوبة:119)

یہ ہے حل ، کیا ؟ کہ ﴿یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ﴾
اے ایمان والو!تقویٰ اختیار کرو، اور صادقین کی معیت اختیار کرو۔ اچھی طرح سمجھ لو کہ تقویٰ اختیار کرو گے تو رِفعت ملے گی، تقویٰ اختیار کرو گے تو عزت ملے گی۔ قرآن کہتا ہے کہ:

﴿ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم﴾ (الحجرات:13)
تقویٰ اختیار کرو، صحابہ کو عزت ملی ، صحابہ کو رفعت ملی، تم عزت و رفعت چاہتے ہو تو تقویٰ اختیار کرو۔

صادقین قیامت تک باقی رہیں گے
اور آگے ہے، ﴿وکونوا مع الصادقین﴾ یہ قرآن کی آیت ہے؟ قیامت تک کے لیے ہے؟یا اُسی زمانے کے لیے تھی؟ اگر قیامت تک کے لیے ہے تو اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صادقین بھی قیامت تک باقی رہیں گے، اگر یہ آیت قیامت تک کے لیے ہے اور یقیناہے اور اس میں اس کا حکم دیا گیا ہے کہ صادقین کی معیت اختیار کرو، تو اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ صادقین کی جماعت بھی قیامت تک باقی رہے گی۔ان صحابہ کی معیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ تھی ، یہاں یہ معیت صادقین کے ساتھ ہے۔

معیت و صحبت کے عجیب اثرات
آپ کو معلوم ہے کہ یہ جو معیت ہوتی ہے اس کے بڑے عجیب اثرات ہوتے ہیں، آپ کو یاد ہو گا ، آپ نے ضرور پڑھا ہے کہ

”کُلّ مولودٍ یولَد علی الفطرة، فأبواہ یُھَوِّدانِہ، ویُنصِّرانِہ، ویمجِّسانِہ“،(رواہ أبو ھریرة، وأخرجہ الإمام مسلم في صحیحہ، کتاب القدر، باب معنی کل مولود یولد علی الفطرة وحکم موت أطفال الکفار، رقم الحدیث:6926،دار الجیل، بیروت)

ہر بچہ فطرت ِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ ”کل مولود یولد علی الفطرة“ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے، پھر صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بچہ مجوسی بن جاتا ہے، صحبت کا اثر یہ ہوتا ہے کہ بچہ عیسائی بن جاتا ہے، ماں باپ یہودی ہیں ، ماں باپ عیسائی ہیں ، ماں باپ مجوسی ہیں توفطرتِ اسلام پر پیدا ہونے والا بچہ ان کی صحبت میں رہتا ہے، صحبت میں رہتے رہتے فطرت بدل جاتی ہے اور فطرت کے بدلنے پر وہ بچہ مسلم بننے کی بجائے یہودی، عیسائی اور مجوسی بن جاتا ہے۔

ہم نے بخاری شریف میں پڑھا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایک صحبت ہوتی ہے عطار کی اور ایک صحبت ہوتی ہے لوہار کی، عطار جو ہوتا ہے، اگر آپ اس کے پاس جائیں گے، اگر اس نے خوشبو آپ کونہ دی ، اس نے آپ کے بدن پر، آپ کے کپڑوں پر، آپ کے ہاتھ پر خوشبو نہ لگائی تو کم از کم وہاں بیٹھ کر خوشبو سونگھنے میں توآئے گی،کیا نہیں آئے گی؟ اس سے دل و دماغ کو راحت حاصل ہو گی، اس سے دل و دماغ کو سکون ملے گا، لوہار کے پاس جائیں گے، تو اس کے پاس بھٹی میں آگ لگی ہوئی ہو گی، آپ کے کپڑے اگر نہیں جلیں گے، آپ کا بدن اگر نہیں جلے گا، توکم از کم اس کی بدبو سے دماغ تو خراب ہو گا،یا نہیں ہو گا؟

(رواہ أبو موسیٰ، وأخرجہ البخاري في صحیحہ، کتاب البیوع، باب السھولة والسماحة في الشراء والبیع، رقم الحدیث: 1985، 2/741، دار طوق النجاة)

صحبت کا اثر ہوتا ہے۔نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”المرء علی دین خلیلہ، فلینظر أحدکم مَن یُخالِل“ (رواہ أبو ھریرة رضي اللّٰہ عنہ، وأخرجہ الترمذي في سننہ، کتاب الزھد، باب، رقم الحدیث، 2378، 4/589،مطبعة مصطفیٰ البابي الحلبي)

آدمی اپنے دوست کے طریقے پر ہوتا ہے، تم دیکھو کہ کس کو دوست بناتے ہو۔

صحبت کے یقینی اثرات
تو میرے عزیزو ! اگر یہودیوں کی ،نصرانیوں کی اور مجوسیوں کی صحبت میں بیٹھ کر فطرت اسلام پر پیدا ہونے والے بچے میں تبدیلی آجاتی ہے، تو بتاوٴ خدا کے بندو ! کہ اللہ والوں کی صحبت میں رہو گے تو تمہارے اندرتبدیلی آئے گی یا نہیں آئے گی؟لیکن عمامہ ہے، شاندار جبہ ہے، ٹخنوں سے اونچی شلوار ہے، کندھے پر سفید رومال ہے، بڑی دلکش عصا ہے، تو کیا یہ بن گیا؟ نہیں دوستو نہیں ،اس طرح نہیں ، یہ بننے کے طریقے نہیں ہیں، بننے کاطریقہ کیا ہے؟ مٹا دو اپنے آپ کو ، یہ انا ختم کر دو، یہ دورہ حدیث کے طلبا جانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پکڑ انا پر ہوئی، حضرت بلال حبشی کی گرفت اَنا پر ہو گئی، اب جناب عالی ہم انا کے خول میں دب چکے ہیں ، اس سے نکالو اپنے آپ کو، آپ کا ظاہر کیسا ہے؟ آپ کا باطن کیسا ہے؟ یقینا میں دھوکہ کھا جاوٴں گا،میرے ظاہر اور باطن سے آپ دھوکہ کھا سکتے ہیں، مگر مجھے یہ بتاوٴ کہ اللہ تعالیٰ بھی دھوکہ کھا سکتے ہیں؟اپنے اور اللہ تعالیٰ کے معاملے کو ٹھیک کرو۔یہ آخری بات تھی جو میں نے آپ سے عرض کی کہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرو، وہ موجود ہیں اور رَہیں گے، اس لیے قرآن نے ان کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور قرآن قیامت تک کے لیے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نظر میں وہ قیامت تک باقی رہیں گے۔

ذکر اللہ کی کثرت کریں
دوسری بات ہم نے آپ سے عرض کی تھی، ذکر اللہ ، ذکر اللہ کا اہتمام کریں ، ذکر اللہ کے حوالے سے آپ علماء کے بڑے قیمتی بیانات سنیں گے، بڑی بڑی قیمتی باتیں آپ کو سننے میں ملیں گی، میں بھی کئی کئی مرتبہ اس عنوان پر کئی اعتبار سے بیان کیا کرتاہوں ، لیکن آج میں آپ سے ایک اور عنوان سے بات کرتا ہوں۔ قرآن نے کہا ہے۔

ولذکر اللہ اکبر (العنکبوت:45)
اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل کائنات، یہ پوری کی پوری دنیا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کے میدان، اس کے کوہسار، اس کے درخت، اس کے کھیت،اس کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے،ایک میں نہیں کر رہااور آپ نہیں کر رہے اور جب تک یہ ذکر رہے گا یہ دنیا رہے گی اور جب یہ ذکر نہیں رہے گا یہ دنیا نہیں رہے گی۔

قیامت تک اللہ کا نام لیاجاتا رہے گا
حدیث میں ہے:
”لا تقوم الساعة، حتی لا یقال في الأرض، اللہ اللہ“ (رواہ أنس رضي اللّٰہ عنہ، وأخرجہ الإمام مسلم في صحیحہ، کتاب الإیمان، باب ذھاب الإیمان آخر الزمان، رقم الحدیث: 392، /94، دار الجیل)

جب اللہ اللہ بند ہو جائے گا قیامت آجائے گی، ”لا تقوم الساعة ، حتی لا یقال في الأرض، اللہ اللہ “قیامت قائم نہیں ہو گی ، یہاں تک کہ اللہ اللہ کا ذکر نہ بند ہو جائے، اب میں کہہ رہا ہوں کہ ہر چیز اللہ کا ذکر کرتی ہے، قرآن نے فرمایا ہے۔

ان من شییٴ إلا یسبح بحمدہ ولٰکن لاتفقھون (الاسراء:44)

ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے لیکنتم ان کی زبان جانتے نہیں ہو، ان من شییٴ إلا یسبح بحمدہ ولٰکن لاتفقھون۔ آپ کو نہیں معلوم، درخت ہوتا ہے ، سرسبز شاخیں ہوتی ہیں،وہ اللہ کا ذکر کرتی رہتی ہیں اورجب اللہ کا ذکر بند ہو جاتا ہے تو وہ شاخیں سوکھ جاتی ہیں، ان کے پتے ٹوٹ کر نیچے زمین پر گر جاتے ہیں، تو یہ کہنا اپنی جگہ پر بالکل حق ، صحیح اوردرست ہے کہ کائنات پوری کی پوری اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کی زبان ہم نہیں جانتے،ان کے ذکر کا ہمیں علم نہیں ہے۔ لیکن قرآن اعلان کر رہا ہے: وان من شییٴ إلا یسبح بحمدہ ولٰکن لاتفقھون․

میری بات کا مقصد
تواس لیے میں یہ آخری بات آپ حضرات سے اس امید پر کہ شاید کوئی ایک دانہ آپ میں سے ایسا نکل آئے جو سیدھا ہو ۔ اہل اللہ کی صحبت کو لازم پکڑو ،اللہ تعالیٰ کے ذکر کی کثرت کرو ، تمہار ادل ٹھیک ہو جائیگا،تمام احوال صحیح ہو جائیں گے، اور اگر ایسانہ کیا گیا تو نقصان ہو گا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت کرے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین․ 
Flag Counter