Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

14 - 18
حُسن ظن …باہمی تعلقات کو پائیدار بنانے کا اہم ذریعہ
محترم یرید احمد نعمانی

شریعت مطہرہ نے دنیا کے سامنے اسلامی معاشرہ کی جو خوب صورت تصویر پیش کی ،وہ امن،بھائی چارگی،باہمی محبت واخوت اور عدل وانصاف کے رنگوں پر مشتمل ہے۔ قرآن کریم اور احادیث نبویہ مسلمانوں کو جن اوصاف حمیدہ سے آراستہ پیراستہ کرتے ہیں،اس کے نتیجے میں بلاشبہ ایک فلاحی اور مثالی معاشرہ وجود میں آتاہے۔ وہ محلہ ،وہ بستی اور وہ گھرانہ جس میں اہل ایمان بستے ہوں۔وہاں دیانت، حسن سلوک اور اخلاق ومروت کی اعلیٰ مثالیں سننے اوردیکھنے کو ملتی ہیں۔اس ضمن میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ، جو مشکوٰة نبوت سے براہ راست فیض یاب تھے،کے واقعات وحکایات مشعل راہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے موقع بہ موقع حضرات صحابہ کرام  کے کردار وعمل کی تحسین فرمائی اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو اپنی تربیت یافتہ جماعت کے نقش قدم پر چلنے کاحکم فرمایا۔

جس زمانہ میں ہم سانس لے رہے ہیں،اسے گلوبلایزیشن کا دور کہاجاتاہے۔فی الوقت سائنس کی ترقی اور جدت کے گن گائے جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں نقل وحمل،مواصلات و ابلاغ اورباہمی رابطہ اتنا آسان وسہل نہ تھا ،جتنا آج ہے۔لیکن اس ”تیز رفتاری“ نے مسلمانوں پر دین سے دوری اور بُعد کے جو زہریلے اثرات چھوڑے،ان کا انکار بھی کسی طور نہیں کیا جاسکتا۔ اسے المیہ نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدا د دین کے حوالے سے بہت کم آگاہی رکھتی ہے۔ اکثریت کا مبلغ علم اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہی ہے ،جو میڈیا کی اسکرین پر طے شدہ منصوبے کے تحت دکھایا جاتاہے۔ چوں کہ صہیونی منصوبہ سازوں نے امت مسلمہ کے خلاف جنگ کے اصولوں کو یکسر تبدیل کردیاہے۔اس لیے آج عسکری سے زیادہ فکری جنگ پر توجہ دی جارہی ہے۔مسلمانوں کی سوچ وفکرکو بدلنا،یہود ونصاری کی کوششوں کا محور ومرکزہے۔فحاشی کافروغ،خونی رشتوں کی پامالی ، مغربی طرز زندگی کی خوش نمائی ، اسلاف سے ہٹ کر دینی تعلیمات کی من پسند تشریح پیش کرنا ،آج کے یہودی ذرائع ابلاغ کا مقصد اولین ہے۔ مغرب کی اس فکری یلغار نے بہت سے مسلمانوں کے ایمان وعمل کو برباد کرکے رکھ دیا۔مشرقی تہذیب اوراسلامی ثقافت کو گہنا دیا۔

اس تناظر میں ہم اپنے ضمیر سے خود یہ سوال کرسکتے ہیں کہ کیاہمارا معاشرہ،ایک مثالی اور قابل تقلید معاشرہ کہلائے جانے کا مستحق ہے؟کیا ہمارے درمیان الفت ومحبت،مہر ووفا اور ایثار وہم دردی کے وہ جذبات واحساسات کہیں موجود ہیں،جن کی درخشاں مثالیں ہمیں اپنے ماضی قریب میں دیکھنے کو ملتی تھیں؟اگر جواب نفی میں ہے تو سبب اور وجہ کیاہے؟

فی الواقع آج ہم ایک دوسرے کے لیے بد گمانی،سوئے ظن اور برے خیالات رکھتے ہیں۔ایک دوسرے کے لیے عداوت وحسد ،بغض و کینہ پالتے ہیں۔ حالاں کہ یہ تمام صفات مذموم اورقابل ترک ہیں۔ اسلامی تعلیمات کا ابدی ،دائمی اور لازوال حسن ہے کہ وہ انسانی مزاجوں کی اعلیٰ ترین تربیت کرتی ہیں۔ اسلام نے باہمی تعلقات کوقائم ودائم رکھنے اوراسے پائیدار بنانے کے لیے” حسن ظن“ کا حکم دیا ہے۔ متعدد احادیث مبارکہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو حسن ظن کی تلقین فرمائی اور سوئے ظن سے روکاہے۔ چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ۔ کیوں کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہوتی ہے۔(دوسروں کی) باتوں کے پیچھے مت پڑو اور نہ لوگوں کے عیوب ٹٹولو۔“(ابوداؤد)

جب کہ مسلم کی روایت میں مزید چند الفاظ کا اضافہ ہے: ”(دنیاوی خواہشات ولذات کے حصول کی خاطر ) ایک دوسرے سے مقابلہ پرمت اترو۔باہم حسد کرو،نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو۔ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو۔ اور اے اللہ کے بندو!آپس میں بھائی بندی کے ساتھ رہو۔“

امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت سفیان  کا قول حدیث مذکورہ کے پہلے جملے کے متعلق نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:”گمان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو گناہ میں داخل ہے اور دوسراوہ جس کاشمار معصیت میں نہیں ہوتا۔ پہلی قسم کا ظن وہ ہے جو انسانی فکر وخیال میںآ ئے اور (آدمی بلا تحقیق)اسے لوگوں کے سامنے بیان کردے۔ جب کہ دوسری قسم کا ظن محض وسوسہ ہو (لوگوں کے سامنے) اس کا اظہار واعلان نہ ہو۔“

یہاں یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ انسان اپنے قول وعمل کو دوسروں کے لیے بدگمانی اور بد خیالی کا ذریعہ نہ بننے دے۔ کوئی بھی ایسا کام جسے دیکھ کر سامنے والا شخص آپ کے متعلق غلط خیال یا فاسد ابہام میں مبتلاہو،شریعت مقدسہ نے اس سے منع فرمایاہے۔ ایسے مواقع پر سنت نبویہ علیٰ صاحبھا الصلوٰة والسلام یہ ہے کہ آدمی فوراً اپنے معاملہ کی وضاحت کر دے، تاکہ دوسرا کسی وسوسہ کا شکارنہ ہو۔ اس بارے میں ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکا واقعہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔

وہ فرماتی ہیں:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں معتکف تھے۔ ایک رات میں آپ علیہ الصلوٰة والسلام کی زیارت کے لیے حاضرخدمت ہوئی۔ بات چیت کے بعد میں جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی میرے ساتھ کھڑے ہوگئے، تاکہ مجھے گھر تک چھوڑ آئیں۔حضرت صفیہ  کی رہائش حضرت اسامہ بن زیدکے گھر میں تھی۔ (اس دوران)دو انصاری صحابی رضی اللہ عنھما کا وہاں سے گزرہوا۔ جب انہوں نے آپ علیہ الصلوٰة والسلام کو دیکھا تو چلنے میں تیزی کی۔ (یہ منظر دیکھ کر)جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”آرام سے چلو (میرے ساتھ موجود خاتون )صفیہ بنت حیّی (ام المومنین) ہیں۔(یہ سن کر) انہوں نے عرض کیا:سبحان اللہ! …اے اللہ کے رسول!(کیاہم آپ کے بارے میں معاذ اللہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوسکتے ہیں؟)

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”بے شک شیطان انسانی جسم میں خون کی مانند دوڑتاہے۔مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی بری بات نہ ڈال دے۔“(ابوداؤد)

جس طرح براخیال دوسروں کے متعلق کسی دلیل اورقرینے کے بغیر باندھنا قابل مذمت ہے،اسی طرح مسلمانوں کے متعلق حسن ظن اور خوش گمانی رکھنا محمود صفت ہے۔آج گھر گھر جو فساد وجدال پھیلا ہواہے ،اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ ہم بہت جلد دوسروں سے بدگمان ہوجاتے ہیں۔ بھولے سے بھی ہمارے اذھان وافکار میں دوسرے کے لیے اچھا خیال جنم نہیں لیتا۔حالاں کہ حسن ظن کو احادیث مبارکہ میں بہترین عبادت کہا گیاہے۔(ابوداؤد)

اہل علم فرماتے ہیں کہ بدگمانی کی بیماری سے بچنے کا ایک موٴثر علاج یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں دل میں کوئی برا خیال پیداہو، اس کے ساتھ حسن سلوک اور دعائے خیر میں اضافہ کردیا جائے۔ یہ رویہ شیطان کو غیظ وغضب میں مبتلا کردے گااور وہ آئندہ برے گمان پیدا کرنے سے باز آجائے گا۔

اگرہم صدق دل سے اس نسخے پر عمل پیرا ہوجائیں تو نفرتوں، کدورتوں اور رنجشوں کی دیوار آن واحد میں زمین بوس ہوجائے ۔ ہمارا معاشرتی انتشار،خاندانی خلفشار اوراجتماعی اضطراب ختم ہوجائے۔ محبتوں اور الفتوں کے سوتے ہر سو پھوٹ پڑیں ۔ایک بار پھرہم اپنے گم گشتہ ماضی کو پالیں ۔ اللہ رب العزت ہمیں سوئے ظن سے بچاکر حسن ظن کی دولت سے مالامال فرمائیں۔ آمین!
Flag Counter