Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

13 - 18
قدیم اور جدید معاشی نظریات کا تعارف
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
اشتراکیت(Socialism)
سوشلزم جسے اردومیں”اشتراکیت“اورعربی میں ”الاشتراکیة“ کہتے ہیں،درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے طور پر وجود میں آیا، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہرہے،اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے کوچیلنج کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکارکیاکہ معیشت کے بنیادی مسائل محض ذاتی منافع کے محرک،شخصی ملکیت اوررسدوطلب کی قوتوں کی بنیادپرحل کیے جاسکتے ہیں۔

اشتراکیت ان تمام خرابیوں کے سدباب کادعوی لے کرمیدان میں آئی،جوسرمایہ دارانہ نظام کے مرہون منت تھے،اشتراکیت نے سرمایہ داریت کے بنیادی فلسفے ”انفرادیت“کوردکرتے ہوئے اجتماعیت اور جماعت کانظریہ پیش کیااورکہاکہ جماعت ہی سب کچھ ہے،فردکچھ نہیں، لہٰذاوسائل پیداوار کو فرد کی ملکیت قرار دینا درست نہیں،بلکہ حکومت ہی تمام وسائل پیداوارکی مالک ہے،اس کویہ علم ہوگاکہ کل وسائل کتنے ہیں؟ معاشرے کی ضروریات کیاکیاہیں؟لہٰذاوہی تمام زرعی،صنعتی اورتجارتی پالیسیاں بنانے اورنافذکرنے کی مجازہے،وہی افرادکے پیشے معین کرنے کاحق رکھتی ہے گویاوسائل کی تخصیص،ترجیحات کاتعین اورترقی کے تینوں کام حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں گے،جہاں تک آمدنی کی تقسیم کامعاملہ ہے،تواشتراکیت کاکہناہے کہ حقیقت میں عامل پیداوارصرف زمین اورمحنت ہیں،زمین انفرادی ملکیت نہیں،بلکہ حکومت کی ملکیت ہے،تواس کالگان دینے کی ضرورت نہیں،رہی محنت تواس کی اجرت کاتعین بھی حکومت اپنی منصوبہ بندی کے تحت کرے گی،گویاان کے نزدیک بھی معاشی مسائل کاایک ہی حل ہے اوروہ حکومتی منصوبہ بندی ہے،اسی وجہ سے اسے منصوبہ بند معیشت (Planned Economy)بھی کہاجاتاہے۔

اشتراکیت سے بحث کرنے والے حضرات نے اس کی تین بڑی قسمیں بیان کی ہیں:
1... قدیم اشتراکی نظریات
2... ارتقائی،یامعاشی اشتراکیت
3... مارکس کی انقلابی اشتراکیت
(یورپ کے تین معاشی نظام،ص:48،اداراة المعارف کراچی)

ہم یہاں ان کی تفصیلات سے تعرض نہیں کریں گے ،البتہ اشتراکیت کے بنیادی اصولوں پرایک نگاہ ضرورڈالیں گے،تاکہ اس کی پوری حقیقت کوسمجھنے میں آسانی ہو۔

اشتراکیت کے بنیادی اصول
اشتراکیت کے فلسفے کاجائزہ لینے سے اس کے مندرجہ ذیل چار بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:

اجتماعی ملکیت(Collective Property)
اس اصل کاحاصل یہ ہے کہ وسائل پیداوارقومی ملکیت میں ہوں گے اورحکومت کی منصوبہ بندی کے تحت استعمال ہوں گے،ذاتی استعمال کے علاوہ وسائل پیداوارپرکوئی ذاتی ملکیت نہیں ہوگی،حکومت وقت ہی قومی نمائندہ کی حیثیت سے ان کی مالک ہوگی۔

منصوبہ بندی(Planning)
اس نقطہ نظرکاخاصہ یہ ہے کہ تمام معاشی مسائل کاحل اورفیصلے حکومتی منصوبہ بندی کے تحت کیے جائیں گے،حکومت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ کون سے وسائل کہاں اورکتنی مقدارمیں لگائے جائیں؟اورمحنت کرنے والوں کی کیااجرت مقررکی جائے؟غرض اس میں ہرمعاشی فیصلہ سرکاری منصوبہ بندی کے تابع ہوتاہے۔

اجتماعی مفاد(Collective interest)
اس نظام میں حکومتی منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفادکومرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

آمدنی کی منصفانہ تقسیم(Equitable Distributian of Income)
امیراورغریب کے درمیان موجودفاصلوں کوکم کرنے کے لیے یہ اصول پیش کیاکہ جوکچھ بھی آمدنی حاصل ہووہ افراد کے درمیان منصفانہ طورپرتقسیم ہو،عملاًایساہوایانہیں؟،یہ ایک الگ بحث ہے،البتہ اشتراکیت میں کم ازکم یہ دعوی ضرورکیاگیاکہ اس نظام میں تنخواہوں اوراجرتوں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہیں ہے۔

اشتراکیت اورمعاشرے پراس کے اثرات
اشتراکیت صرف معاشی یاسیاسی نظام نہیں،بلکہ یہ ایک مستقل فلسفہ، مرتب،مربوط اورتمام مذاہب سے مختلف ایک الگ نظریہ حیا ت ہے، جوسیاست ومعیشت ،اخلاق ومعاشرت،مابعدالطبیعی تخیلات وعقائد اور انسانی زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کامدعی ہے۔

کارل مارکس(Karl Marx)نے، جوایک ٹھیٹھ یہودی خاندان سے تعلق رکھتاتھااورساری عمراحساس محرومی کاشکاررہا،اپنے ساتھی فریڈرک اینجلزکے ساتھ مل کراشتراکیت کے نام سے جوفلسفہ مرتب کیااس میں دوچیزیں نمایاں ہیں:
1... سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت وبغاوت
2... دین ومذہب کی حقارت،بیزاری اورعداوت

اس فلسفے کی روسے”اشتراکی حکومت“ایک ایسی آمریت اور ڈکٹیڑشپ ہے،جونہ خداکے سامنے جواب دہ سمجھی جائے،نہ عوام کے سامنے،جوکسی مذہب کی پابندہونہ اخلاق کی،آئین کی پابندہو نہ قانون کی،اس مطلق العنان ڈکٹیٹرشپ نے فردکے ساتھ وہ سلوک کیاجوکسی مشین کے بے جان پرزے کے ساتھ کیاجاتاہے۔پیشے اوراظہاررائے کی آزادی اورانفرادی ملکیت چھین کراس کواتناگھونٹ دیاکہ اس کی فطری آزادی بھی سلب ہوکررہ گئی۔

رسدوطلب کے قدرتی قوانین کاانکارکرکے اس کی جگہ حکومتی منصوبہ بندی کوہرمرض کاعلاج قراردیا،حالاں کہ انسانی زندگی اورمعاشرے کوسینکڑوں ایسے مسائل درپیش رہتے ہیں،جس میں انسان کی وضع کی ہوئی منصوبہ بندی ناکام ہوجاتی ہے اوراس منصوبہ بندی کے نتیجے میں فردومعاشرہ ایک غیرفطری اورمصنوعی نظام کے جال میں پھنستاچلاجاتاہے اوروسائل چندبرسراقتدارافرادکے قبضے میں چلے جاتے ہیں،ذاتی منافع کے محرک کوختم کردینے سے فکروعمل دونوں میں سستی اورکاہلی کے جراثیم پیداہوجاتے ہیں اورلوگ ظالم وجابرحکومتوں کے ایسے شکنجوں میں پھنستے ہیں جہاں کسی کوپھڑپھڑانے اورچیخنے چلانے کی آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی۔

اشتراکیت نے دنیاکوکیادیا؟
اشتراکیت نے دنیاکوکیادیا؟خوداس کے سب سے بڑے داعی اورمرکزروس، جوسویت یونین کہلاتاتھا،کے خاتمے کے موقع پرروس کے صدریلسن نے کہا:”کاش اشتراکیت (UTOPAIN)نظریے کاتجربہ روس جیسے عظیم ملک میں کرنے کے بجائے افریقہ کے کسی چھوٹے رقبے میں کرلیاگیاہوتا،تاکہ اس کی تباہ کاریوں کوجاننے کے لیے چوہتر (74)سال نہ لگتے۔“اسی طرح مشرقی جرمنی میں لوگوں نے دیواربرلن کوتوڑکراشتراکیت کی ناکامی کاعملاًاعتراف کیا۔

سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات
اشتراکیت کے زوال اورناکامی کے بعدسرمایہ دارممالک نے بڑے شد ومدسے یہ پروپیگنڈاکیاکہ سوشلزم کی ناکامی ان کی کام یابی کی دلیل ہے،جب کہ حقیقت میں اشتراکیت کے زوال کاسبب سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے غلط لائحہ عمل کااختیارکرناتھا،جس پرہم گذشتہ صفحات میں گفتگوکرچکے ہیں۔اب یہاں سرمایہ داریت کے بنیادی اصول ذاتی منافع کے محرک کوکھلی چھوٹ دینے اورخوداس نظام کے نتیجے میں جوخرابیاں سرمایہ دارمعاشرے میں پیداہوئیں اورملک وقوم پراس کے جومہلک اثرات پڑتے ہیں،ان کاخلاصہ پیش خدمت ہے:
1... مذہب کونظام سیاست ومعیشت سے الگ کرکے گرجاؤں، مسجدوں اور خانقاہوں تک محدودکردیاجاتاہے،تاکہ وہ ان کی ناجائزنفع اندوزی میں رکاوٹ نہ بن سکے۔

2... ذاتی منافع کے محرک کو بے لگام چھوڑنے کی وجہ سے یہ اکثرلوگوں کے سفلی جذبات کوہوادے کر،ان کی غلط خواہشات کی تسکین کاسبب بنتاہے،منافع کے حصول کے لیے حلال وحرام میں کوئی تفریق نہ ہونے کی وجہ سے لوگ نفع کمانے کے لیے ایسے ذرائع کواختیارکرتے ہیں، جن سے معاشرے میں اخلاقی بگاڑپھیلتاہے،چناں چہ مغربی ممالک میں عریانی اورفحاشی کاایک اہم سبب یہ بھی ہے۔

3... اس نظام میں تجارت وصنعت اوردولت کی گردش سود، قمار، اورآڑھت کی بنیادوں پرہوتی ہے،حالاں کہ ان کی وجہ سے معیشت کے فطری توازن میں بگاڑپیداہوتاہے، پورے ملک کے وسائل پیداواراوردولت کے تمام خزانے چندساہوکاروں اورسرمایہ داروں کے ہاتھ میں سمٹ کرجمع ہوجاتے ہیں،رسدوطلب کے فطری قوانین مفلوج ہوجاتے ہیں،شخصی اجارہ داریوں کی وجہ سے اشیا کی قیمتوں کانظام متوازن نہیں رہتا اورایک مصنوعی نظام وجودمیں آجاتاہے،جس کے بے رحم شکنجے میں پھنس کرپورامعاشرہ دردناک عذاب میں مبتلاہوجاتاہے۔

4... بڑے سرمایہ داراورتاجرعملاًپورے نظام تجارت پرقابض ہو جاتے ہیں اورچھوٹے چھوٹے تاجروں کواس قابل نہیں چھوڑتے کہ وہ اپنے کاروبارکوترقی دے سکیں،یاباقی رکھ سکیں،چھوٹے پیمانے پرکاروبارکرنے والے روز بروز کم ہوتے جاتے ہیں، یابڑے سرمایہ داروں کی تجارتی پالیسیوں کے تابع محض ہوکرزندگی گزارنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔

5... سرمایہ داروں اورنوکرشاہی کے گٹھ جوڑسے سرمایہ دارانہ حکومتیں اپنے ہی اصول ”عدم مداخلت(Laissez Faint)“سے انحراف کرکے مختلف قوانین اورناجائزٹیکسوں کے ذریعے کسی تجارت کی ہمت افزائی اورکسی کی حوصلہ شکنی کرتی رہتی ہیں، جس کا فائدہ صرف بااثر سرمایہ داروں کو پہنچتاہے۔

6... اس نظام میں غریب غریب تراورامیراورسرمایہ دارکی دولت میں بڑہوتری اورروزانہ اضافہ ہونے کی وجہ سے وہ امیرترہوتے جاتے ہیں، معیارزندگی کواتنابلندکردیاجاتاہے کہ متوسط اورسفیدپوش طبقے اس کا ساتھ نہیں دے پاتے،جس سے اَن گنت معاشرتی الجھنیں اوربے شمار معاشی ناہمواریاں پیداہوجاتی ہیں۔

7... سرمایہ دارانہ نظام میں تقسیم دولت کانظام ناہمواری کا شکار ہو جاتاہے،سوداورقمارپرمبنی اس نظام کی وجہ سے ملک کی کل آبادی دوطبقوں میں بٹ جاتی ہے،دولت کے بہاؤکارخ امیروں اورسرمایہ داروں کی طرف رہتاہے،غریبوں اورمزدوروں کی طرف نہیں ہوتا،اسی وجہ سے سرمایہ دار اور مزدورکی طبقاتی کشمکش کاآغازہوتاہے۔

8... ملوں اورفیکڑیوں کی اجارہ داری کی وجہ سے گھریلو صنعتوں اور دست کاریوں سے تیارہونے والامال ان کی پیداواراورسیلنگ ریشو (Saling Ratio)کامقابلہ نہیں کر پاتا، دست کار اپنا پیشہ چھوڑکرمزدوری اورملازمت کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں،جس کی وجہ سے گھریلو صنعتیں اور دست کاریاں زوال پذیرہوجاتی ہیں۔

9... ملازمت اورمزدوری کے طلب گاروں میں روزبروزاضافہ ہوتا جاتاہے،مشینوں کے روزافزوں استعمال کی وجہ سے انسانی کھپت میں کمی آجاتی ہے، جس سے پورے ملک میں بے روزگاری کاطوفان برپا ہو جاتا ہے، نتیجتاًمزدورکم سے کم اجرت پرمشکل اورہرطرح کامحنت طلب کام بھی کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔

10... سرمایہ دارطبقہ اپنے سرمایہ کے زورسے حکومتی پالیسی کواپنی حکمت عملی کے تابع کرلیتاہے ،مارکیٹ میں وہی اشیا لائی جاتی ہیں جن سے سرمایہ دارکازیادہ سے زیادہ نفع ہوتاہے۔ملک وقوم کاکوئی فائدہ ان کے پیش نظرنہیں ہوتا،یہ نظام پوری سوسائٹی اوراس کے تمدن کواپنے رنگ میں رنگ لیتاہے،صرف مال دارہی ہرعزت وشرافت کامعیاربن جاتاہے،علم ،عقل اوراعلی اخلاق کی بجائے انسان کی قدرومنزلت اس کے بینک بیلنس سے پہچانی جاتی ہے،مادیت پرستی اورکمانے کی ایسی دھن لوگوں پر سوار ہو جاتی ہے کہ وہ خودغرضی ،سنگ دلی ،عیاشی اوراخلاقی طورپردیوالیہ پن کاشکارہوجاتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے:”اسلام اور جدید معاشی مسائل اور یورپ کے تین معاشی نظام“)

خلاصہ یہ کہ یہ پورانظام سرمایہ دارکے سرمایہ میں اضافے کاایک آلہ ہے،سودکے اس نظام میں پوری قوم کے سرمائے کوچندبڑے سرمایہ دار اپنے مفادمیں استعمال کرتے ہیں اوراس کے بدلے قوم کوبہت تھوڑا سا حصہ واپس کرتے ہیں اوریہ تھوڑاساحصہ بھی اشیا کی لاگت میں شامل کرکے دوبارہ عام صارفین ہی سے وصول کرلیتے ہیں اوراپنے نقصان کی تلافی بھی عوام کی بچتوں سے کرتے ہیں اوراس طرح سودکامجموعی رخ اس طرف رہتاہے کہ عوام کی بچتوں کااصل کاروباری فائدہ بڑے سرمایہ داروں کو پہنچے اورعوام اس سے کم سے کم مستفیدہوں،اس طرح دولت کے بہاؤ کارخ ہمیشہ اوپرکی طرف رہتاہے۔ (معاشی نظام، ڈاکٹر محمد آدم ایڈوکیٹ،ص:115،ادارہ فروغ ادب کراچی)

سرمایہ دارانہ نظام(Capitalism)کی حقیقت
قارئین کرام! یہ ہے وہ سرمایہ دارانہ نظام جس میں Accumulation of wealthدولت کی اس ریل پیل سے معاشرے اورانسانی گروہوں کوکنڑول کیاجاتاہے،جب کہ دولت کابہاؤہرحال میں عوام الناس سے خاص الخواص (سرمایہ داروں)کی جانب ہی رہتاہے، آپ نے دیکھاکہ سب سے نچلی سطح پرعوام الناس اوران کے متعلقین ہیں،خواہ ان کاتعلق زراعت،صنعت وحرفت،تجارت،ٹریڈنگ یاسروس وغیرہ کسی بھی شعبے سے ہو،یہ لوگ ایک ہی لگی بندھی آمدنی کاطبقہ کہلاتے ہیں، اوریہ دولت بصورت جنس یاخدمت کے پیداوارکرکے اپنے سے اوپروالی سطح پرپہنچاتے رہتے ہیں اوران کااپنے معاوضوں پرقطعی کوئی اختیارنہیں ہوتا، بلکہ اوپروالے سرمایہ داران کے لیے جوبھی معاوضہ مقررکریں،یہ اس پراکتفا کرنے پرمجبورہیں۔

اب اوپروالی سطح کے لوگ مختلف ذرائع سے اپنی دولت بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں،سطح درسطح یہ عمل انجام پاتا چلاجاتاہے اورنتیجے میں چند مخصوص اشخاص کی عوام الناس پرکلی طورسے اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے، ان معامالات میں سب سے اہم رول کمپنیوں اور بینکوں کا ہوتاہے،جن کے روح رواں وہ سودی نظامات ہیں،جن کے تحت یہ چلتے ہیں،خواہ ان کانام کچھ بھی ہو، دوسری طرف ریاستی محصولات کی مدمیں ٹیکسوں کاایک ایسانظام enforceکیاجاتاہے، جن کا منتہائے مقصودبینکوں میں رائج سودی نظام کوتقویت دینے کے سوااورکچھ نہیں ہوتا۔

چورمعاشرے کی تشکیل
بہرحال خواہ وہ کمپنیاں ہوں،یابینکاری اورحکومتی ٹیکس ،سب کا مقصدناجائزدولت سمیٹناہوتاہے،اگرچہ ان کے طریقہ واردات میں کچھ فرق ہو،سرمایہ دارعوام الناس سے دولت بٹورتاہے ،جب کہ دوسری طرف حکومت ان سے ناجائزحد تک ٹیکس وصول کرتی ہے،اب سب کے پاس اس نظام کے نتیجے میں ایک ہی راستہ رہ جاتاہے اور وہ ہے چوری کاراستہ۔

ایک عام آدمی سے لے کرسرمایہ داراورسربراہان مملکت تک سب کسی نہ کسی سطح اورصورت میں کمائی کے ناجائز اورچوردروازے تلاش کرتے ہیں،ان ساری تفصیلات کے بعدہم یہ فیصلہ قاری پرچھوڑتے ہیں کہ کیا ایسانہیں کہ اس نظام کاحاصل ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں سودی نظام کے سایہ تلے چوری کاایک خاص امتیازی مقام حاصل ہو؟!!!،اب ایسے نظام میں عدل وانصاف کو تلاش کرنا اوراس کے ذریعے انسانی معاشرے کی تعمیروترقی کے بلند وبانگ دعوے کرنانری حماقت نہیں تواورکیاہے ۔!!! 
Flag Counter