Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 18
چند غلط فہمیوں کا ازالہ
کیا عمل کے لیے ”صحیح حدیث “ہی ضروری ہے؟
مولانا محمد احمد پڑتا پ گڑھی
کیاہرآدمی کو قرآن وحدیث سے خودمسائل نکالنے چاہییں؟
بعض لوگ یہ نظریہ امت میں بڑے زوروشور سے پھیلارہے ہیں کہ ہر آدمی کو اجتہاد کرنا چاہیے اوراپنے اجتہاد کے مطابق احکام شرع پر عمل پیراہونا چاہیے ،شریعت کسی مجتہدیا فقیہ کے باپ کی جائداد نہیں۔یہ نظریہ بڑا ہی آسان، صاف ستھرا اور بے داغ معلوم ہوتا ہے ۔یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ایک شخص سفر میں جارہا تھا ۔ گھر والوں نے زاد راہ کے لیے ”جو“ اور ”چنا“ وغیرہ کو پیس کر ”ستو “بنایااور اس کے سپر د کردیا کہ راستے میں جب بھوک کا احساس ہو ؛تو ”ستو“ کو پانی میں گیلاکرکے کھالے گا۔ اس کے ہم راہ ایک عیار اورمکارآدمی تھا ،جس کے پاس زادِراہ کے لیے صرف ”جَو“ تھا۔ بھوک محسو س ہوئی؛ تو اس نے دقت محسوس کی ؛چوں کہ ’جو“کو کوٹنا ،صاف کرنااورقابل استعمال بنانا مشکل کام تھا۔ جسے دوران سفر انجام نہیں دیا جا سکتا؛اس لیے اس نے پیٹ بھرنے کے لیے ایک ترکیب کی اوراپنے ساتھی کے پاس آیا اور بڑے ناصحانہ و خیرخواہانہ انداز میں بولا: تمہارے پاس کھانے کے لیے تو” ستو “ ہے؟ اس نے کہا:ہاں!تو اس نے کہا کہ اس کے کھانے میں تو بھائی بہت پریشانی ہے ،ستو !!!لپتو !!! کب کھاؤگے ؟؟؟تو کب چلوگے ؟؟؟۔ اورہمارے پاس تو ”جو“ہے ؛جس کا کھانا بہت ہی آسان ہے۔”جو“ کو کوٹو! کھاؤ! اور چلتابنو۔وہ ”سیدھا سادھاآدمی“ اس عیار شخص کی باتوں میں آگیا اوراس دجال سے ”ستو“کے بدلے میں ”جو“لے لیا،پھر پورے راستے دشواریوں کا سامنا کرتا رہا۔

بعینہ یہی صورت حال ان لوگوں کی اس دعوت کی ہے ؛جو مجتہدین کے معتبر فقہ کوپس پشت ڈالنے اور اجتہادکی دعوت دیتے پھر رہے ہیں،اسلام عام آدمی کو شریعت میں خود برد کرنے کی اجازت نہیں دیتا،ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَاسْئَلُوا أہْلَ الذَِّکْرِ إنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُونَ﴾ ترجمہ :اگر نہیں جانتے ؛تو اہل علم سے معلوم کرلو۔ (القرآن ) رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّمَاشِفَاءُ الْعِیِّ اَلسُّوَالُ ۔ترجمہ:(علمی امور سے)عاجزشخص(کے دینی معاملات ) کاعلاج (جاننے والوں سے )سوال کرنا ہے۔(ترمذی ) ۔ کتاب اللہ ، سنت رسول صلی الله علیہ وسلم اورآثار صحابہ سے ماخوذ معتبر ”فقہ اسلامی“ و”شریعت “ہمارے سامنے” ستو“ کی مانند موجودہے کہ جب بھی ضرورت محسوس ہو ؛ان راجح اور مقبول فتاوی سے امت استفادہ کرے ۔اسے ائمہ مجتہدین ،محدثین عظام اور فقہائے دین متین نے بڑی عرق ریزی اور دیدہ وری سے مرتب کیا ہے ۔اس کے تیارکرنے ، ترتیب دینے ا ور اصلاح وتہذیب میں نہ جانے کتنے علماء اور محدثین نے خون پسینے ایک کئے ہیں اور صدیوں سے اس کی اصلاح ہوتی چلی آرہی ہے۔ مگر یہ لوگ عوام سے کہتے ہیں کہ اگر اس فقہ کے مطابق زندگی گزاروگے تو گم راہ ہوجاؤ گے۔ قرآن وحدیث سے خود مسائل نکالو اور اس پر عمل کرو۔ کسی عالم، کسی فقیہ اور محدث کے اخذکردہ مسائل کے مطابق زندگی مت گزارو۔

گویا کہ اجتہاد کرنا اور قرآن وحدیث سے مسائل نکالنا بچوں کا کھیل ہے ! یہ دعوت اسی مکار اور عیار شخص کی سی ہے ؛جو” ستو“ کے استعمال کو مشکل کہتاہے اور ”جو‘ ‘کے استعمال کو آسان !کیوں کہ قرآن وحدیث سے مسائل نکالنے اور اجتہاد کرنے کے لیے بہت سارے علوم کی ضرورت ہوتی ہے ؛کم از کم اتنا علم تو انتہائی ضروری ہوتا ہے کہ قرآن کی آیاتِ ناسخہ ومنسوخہ،احادیث ِصحیحہ ،ضعیفہ اور سقیمہ، نیز آثارِ صحابہ واقوال ِمحدثین پر آدمی دست گاہ ِتام رکھتا ہو، اصول ِتفسیر وحدیث ،فصاحت، بلاغت ،عروض و قوافی اور نحو وصرف کے ایک معتدبہ حصے پرقدرت ِتام رکھتا ہو؛جو کہ ایک عام آدمی کے بس سے باہر کی چیزیں ہیں ۔

اس دعوت کا مقصد مسلمانوں کو صراط مستقیم پرچلانا نہیں؛بلکہ غلط مقاصد کی تکمیل ہے۔ مقصدیہ ہے کہ خواہش نفس کے مطابق شریعت کی تدوین کی جائے ۔یعنی جو مسئلہ نفس کو بھائے اور اس پر عمل کرنے میں نفس کو راحت ملے ؛اسی کو قرآن وحدیث کا نام دے کر اس پر عمل کیا جائے،بقیہ جو مسائل نفس پر شاق گزریں،یا ان پر عمل کرنے میں تکلیف محسوس ہو ؛ ان کو غلط اور باطل کہہ دیاجائے ۔ آپ کے سامنے اس طرح کے مجتہدین کے دوفتاوے پیش ہیں؛ جن سے ان کے مقاصدکو بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔پچھلے دنوں( ہفت روزہ”نئی دنیا“) نے اس طرح کے ایک مجتہد صاحب(جو سعودی عرب میں رہتے ہیں،ان) کا فتوی شائع کیا تھا ۔اس فتوی کو سن کر عالم اسلام دم بخود رہ گیا، سعودی حکومت ورطہٴ حیرت میں پڑ گئی اوراس نے ان جیسے مجتہدین سے اپنے دامن کو بچانے ہی میں عافیت محسوس کی۔

سعوی عرب میں عورتیں بھی اعلی سرکاری ونیم سرکاری عہدوں پر فائز ہونے لگی ہیں۔ ان کے ماتحت ملازمین ہواکرتے ہیں ۔مسئلہ یہ آیا کہ ان کے پرد ے کا کیا ہو؟چوں کہ پردہ فرض ہے۔ ایک مجتہد صاحب نے اجتہاد کیا اور جھٹ سے اپنا فتوی جاری کردیا۔انھوں نے فتوی دیا کہ ایسی تمام اعلی عہدوں پر فائز عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو چھاتی کا دودھ پلادیں؛تاکہ ماتحت لوگ اس کے بیٹوں کے حکم میں ہو جائیں اور پر دہ کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ ( ہفت روزہ نئی دنیا10ء )

اسی قسم کے ایک اور مجتہد صاحب کا فتوی ابھی تازہ تازہ آیاہے، اخبار لکھتاہے:سوڈان میں خواتین کے حجاب سے متعلق ایک فتوی کے بعد ملک کے مذہبی حلقوں کی جانب سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے (فتوی یہ ہے:) اسلام خواتین کے لیے کسی مخصوص پردہ اور لباس کا حکم نہیں دیتا۔وہ صرف ایک باوقار لباس کی تلقین کرتاہے ۔اور قرآن کریم میں جو حجاب کی اصطلاح ہے؛ وہ صرف ازواج مطہرات کے لیے مخصوص ہے ۔(راشٹریہ سہارا، 22/جنوری 12ء)

ان فتاوی کو ملاحظہ کیجیے! اور بزعم خود ان نئے مجتہدین کی تلذذِطبعی اورتفنن خاطری کو داد ددیجیے۔ کسی حرام(خصوصاً جس میں لذت ہو؛اس) میں اتنی سکت کہاں کہ ان لوگوں کی زد میں آ نے کے بعد اپنی حرمت برقرار رکھ سکے؟ان حضرا ت کے مزاج کی رنگینی اسے کب حرام رہنے دے گی؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ا ن مجتہدین یا اجتہادکی دعوت دینے والوں کے پاس دلائل کی کمی ہے، دلائل تو ابلیس کے پاس بھی تھے ،پھر یہ بے چارے کیوں کر اس دولت بے بہا سے بے بہرہ رہ سکتے ہیں؟دلائل ان کے پاس بہت ہیں اور ایسے ایسے دلائل کہ رات کو دن اوردن کو رات کہنے پر مجبور کردیں ۔ مثلاًان مجتہدین کے اجتہاد کو کسی د ن اگر زیادہ جو ش آگیا ؛تو آیت قرآنیہ :﴿یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُکَارٰی﴾ (اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جا ؤ!)سے استدلال کرتے ہوئے شراب کی حلت کا بھی فتوی دے ماریں گے ۔ کو ن ان سے جاکرپوچھ سکتا ہے کہ بھائی !یہ آیت شراب کی حرمت سے پہلے کی ہے ۔چوں کہ ان کے یہاں اجتہاد کے لیے کسی صلاحیت کی ضرورت ہی نہیں،صرف کسی کتاب میں لکھا ہوا آیت کا یا حدیث کاترجمہ ان کے اجتہاد وفتاوی بازی کے لیے کافی ہے۔ان کو اس سے کیا لینا دینا کہ یہ آیت حرمت شراب سے پہلے کی ہے یہ بعد کی؟ ناسخ ہے یا منسوخ؟مقبول ہے یا مردود؟کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دلائل ان کے یہاں سارے کے سارے قرآن اورحدیث ہی سے ملیں گے ؛ گرچہ اس سے دین و اسلام منہدم ہو کررہ جائے ۔

شریعت کا مقصد ہے کہ انسان ہر معاملے میں اللہ کے احکام کو پیش نظر رکھے ،اگر شریعت کا حکم معلوم نہ ہو تو علمائے حق سے رجوع کرے اور حکم خداوند ی معلوم ہو نے کے بعد ا پنی اطاعت گزاری اور بندگی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر عمل کرے ۔لیکن ان حضرات کا مقصد دوسراہے؛ان کا مقصد ہے کہ اگر کسی کام کے کرنے میں دشواری معلوم ہو اور اس پر عمل نہ کرنا ہو ؛تواس آیت یا حدیث ہی میں نقص نکال دو،مثلاً :کہو کہ یہ حدیث ضعیف ہے ۔یہ بخاری میں نہیں ،مسلم میں نہیں ۔ اگر آپ نے حدیث دکھاہی دی ؛تو کہیں گے : حدیث صحیح مرفوع متصل ان ان الفاظ کے ساتھ دکھاؤ ؛تو ہم مان سکتے ہیں!ورنہ نہیں۔ان کی اصل بیماری تلذذ طبعی اورسہولت پسندی ہے ؛ جس کی باعث یہ لوگ امت کے تمام طبقات سے نالاں ہیں ۔اور بسا اوقات تو خیر القرون سے لے کر اب تک کے تمام اہل حق علماء کو ناحق اور اہل بدعت کہنے سے بھی نہیں کتراتے ۔امت کے اس اجماع سے انہیں بے حد چڑ ہے کہ تقلید صرف ائمہ اربعہ کی ہوگی۔ اور فتاوے صرف انہی مکاتب فکرکے علماء کے چلیں گے۔اللہ سب کی حفاظت فرمائے اور اپنے دین پر قائم ودائم رکھے۔

کیا کسی امام کی تقلید کرنا شرک ہے؟
یاد پڑتاہے کہ بچپن میں ہمارے کچھ ساتھی جب کسی اپنے ہم عمر اورمعاصر لڑکے کے ساتھ مذاق او رتمسخر کاارادہ کرتے؛ تو بطور امتحان اس سے پوچھتے ،بتاؤ : تم زنانی ہوکہ زنانہ؟ اب اگر ساتھی سمجھ دار ا ورہوش مند ہوتا ؛تو کہتا :نہ تو میں زنانی ہوں اور نہ زنانہ(عورت) ؛بلکہ میں تو مردہوں۔لیکن اگر ساتھی نافہم اور بے عقل ہوتا ؛تو تھوڑے سے توقف اورسوچ بچار کے بعد کہہ اٹھتا:میں زنانہ(عورت) ہوں۔اور اس طرح وہ اپنی نادانی اورکم علمی کی وجہ سے ان کے مذاق اور تمسخر کا شکاربن جاتا۔ان کی چال اورجال یہ ہوتی کہ وہ سوال ہی غلط ڈھنگ سے کرتے اور اس کے سامنے ایک چیز کو جو ظاہرمیں الگ الگ (دوچیزیں) معلوم ہوتیں ؛جب کہ حقیقت میں وہ ایک ہی ہوتی ہے؛ اس کو تقسیم کرکے اس کے سامنے پیش کرتے اوراس نادان کو اپنے جال میں پھنسالیتے۔

تقلید سے بے زارکرنے کی مہم اور نظر یہ اسی قبیل کی چیز ہے ۔ یہ لوگ عوام اور کم دینی علم رکھنے والے لوگوں کے پاس جاکرسوال کرتے ہیں کہ بتاؤ:اللہ اوررسول کو مانوگے یاکہ ابوحنیفہ ؛مالک ؛شافعی اوراحمد کو؟ بھلا! ایک مسلمان، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو ؛وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے علاوہ کسی اورکو مانتاہے۔لہذا وہ کہتا ہے کہ میں اللہ کو مانتا ہوں ۔اس کے بعد اگر وہ بھولا بھالا آدمی ان کے جال میں صحیح طور پر پھنس گیا؛تو وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا ؛بلکہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر صحابہ ،ائمہ مجتہدین ا ورسلف صالحین پر لعن طعن کی زبان بھی دراز کرتا ہے ؛لیکن اگر وہی شخص پڑھا لکھا اور علمی میدان کا بالغ آدمی ہوتا ہے؛ تو کہتاہے :میں اللہ اور رسول کو بھی مانتاہوں ؛ابوحنیفہ ،مالک ،شافعی اوراحمد وغیرہ کو بھی مانتاہوں۔ چوں کہ میں اللہ کو رب اور خالق ومالک ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں؛ رسول کو نبی اورپیغام برہونے کی حیثیت سے مانتاہوں اور ائمہ(ابوحنیفہ، مالک ؛شافعی اوراحمد) کو شریعت کی تشریح و توضیح کرنے والا ہونے کی حیثیت سے مانتاہوں ۔اوراس میں کوئی تضاد اوراختلاف بھی نہیں کہ ایک کو ماننے سے دوسرے پر کوئی ضرب پڑتی ہو ؛جیسے ماں ،باپ ،بھائی اوربہن ۔کیا ماں کو ماں کہنے سے باپ پر کوئی اثر پڑتاہے ،یا بہن کو بہن کہنے سے ماں کی حیثیت متاثرہوتی ہے؟لیکن اگر ماننے سے تیری مراد بندگی ہے؛ تو اے دھوکے باز!کان کھول کرسن لے !میں اللہ کے علاوہ کسی کی بھی عبادت نہیں کرتا؛چہ جائے کہ ائمہ ومحدثین عظام وغیرہ!

زمانہ آخری چل رہاہے ،قیامت قریب ہے ، اند راورباہر ہر طرف سے فتنوں کی یلغار ہے اورہر فتنہ ایک جاذب نظر ، خوب صورت اور پرکشش انداز اورٹائٹل میں سامنے آتاہے۔ مثلا یہی فتنہ جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا کہ ائمہ کی تقلید کرنا حرام ہے ۔ یہ کوئی معمولی فتنہ نہیں ہے، اس کے عوامل اوراثرات پر اگر غورکیا جائے ؛تو معلوم ہوگاکہ صرف یہی ایک فتنہ پوری امت کو صراط مستقیم سے ہٹاکر گم راہی اورضلالت کے راستے پرڈالنے کے لیے کافی ہے ۔وجہ اس کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا زمانہ ہم سے بہت دور ہوچکا ہے ؛ نہ ہم حضور صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہے ہیں اور نہ ان کی مجلسوں میں حاضر ہی ہوسکتے ہیں؛ لامحالہ ہمیں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی باتو ں کے لیے ذخیرہ احادیث کی جانب رجوع کرناپڑ ے گا۔ اور حدیث نام ہے تین چیزوں کا:
1... حضور صلی الله علیہ وسلم کی وہ باتیں ؛جو صحابہ نے آپ سے سنیں اور بعد والوں سے روایت کی،
2... حضور صلی الله علیہ وسلم کے وہ کام جو آپ نے صحابہ کے سامنے عملی طور پرکیے،پھر صحابہ نے اپنے اپنے الفاظ میں اسے ادا کیے،
3... رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ذاتی اوصاف ۔مثلاً آپ کے بال کا رنگ ؛چہرہ بشرہ ؛ آپ کی شجاعت اورسخاوت وغیر ہ کے واقعات ۔(جاری)
Flag Counter