Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 18
تشبہ بالکفار کی وضاحت اور حکم
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
تشبہ با لکفارکے مفاسد
غیروں کی وضع قطع اور ان جیسا لباس اختیار کرنے میں بہت سے مفاسد ہیں:

1... پہلا نتیجہ تو یہ ہو گا کہ کفر اور اسلام میں ظاہراً کوئی امتیاز نہیں رہے گا اور ملتِ حقہ ، ملتِ باطلہ کے ساتھ ملتبس ہو جائے گی، سچ پوچھیے تو حقیقت یہ ہے کہ ”تشبہ بالنصاریٰ “ (معاذ اللہ) نصرانیت کادروازہ اور دہلیز ہے ۔

2... دوم یہ کہ غیروں کی مشابہت اختیار کرنا غیرت کے بھی خلاف ہے، آخر دینی نشان اور دینی پہچان بھی تو کوئی چیز ہے، جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ شخص فلاں دین کا ہے، پس اگر یہ ضروری ہے تو اس کا طریقہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ کسی دوسری قوم کا لباس نہ پہنیں ؟ جیسے اور قومیں اپنی اپنی وضع کی پابند ہیں، اسی طرح اسلامی غیرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی وضع کے پابند رہیں اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں ہماری خاص پہچان ہو۔

3... کافروں کا معاشرہ ، تمدن اور لباس اختیار کرنا درپردہ ان کی سیادت اور برتری کو تسلیم کرنا ہے، بلکہ اپنی کم تری اور تابع ہونے کا اقرار اور اعلان ہے، جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

4... نیز! اس تشبہ بالکفارکا نتیجہ یہ ہو گا کہ رفتہ رفتہ کافروں سے مشابہت کا دل میں میلان اور داعیہ پیدا ہو گا، جو صراحةً نصِ قرآنی سے ممنوع ہے۔

کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿ولا ترکنوا إلیٰ الذین ظلموا فتمسّکم النار، وما لکم من دون اللہ من أولیاء ثم لا تنصرون﴾․(الھود: 113)

”اور تم ان کی طرف مت جھکو، جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ پکڑ لے اور اللہ کے سوا کوئی تمھارا دوست اور مددگار نہیں، پھر تم کہیں مدد نہ پاوٴگے“۔

بلکہ غیر مسلموں کا لباس اور شعار اختیار کرنا ان کی محبت کی علامت ہے، جو شرعاً ممنوع ہے،

کما قال اللہ تعالیٰ: ﴿یا أیھا الذین اٰمنوا لا تتخذوا الیھود والنصاریٰ أولیاء، بعضھم أولیاء بعض، ومن یتولھم منکم، فإنہ منھم، إن اللہ لا یھدي القوم الظالمین﴾․ (المآئدة:51)

”اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناوٴ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست اور رفیق ہیں، وہ تمھارے دوست نہیں اور تم میں سے جو ان کو دوست بنائے گا، وہ انہی میں سے ہو گا، تحقیق اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا“۔

5... اس کے بعد رفتہ رفتہ اسلامی لباس اور اسلامی تمدن کے استہزا اور تمسخر کی نوبت آئے گی، اسلامی لباس کو حقیر سمجھے گا اور تبعاً اس کے پہننے والوں کوبھی حقیر سمجھے گا، اگر اسلامی لباس کو حقیر نہ سمجھتا تو انگریزی لباس کو کیوں اختیار کرتا؟

6... اسلامی احکام کے اجرا میں دشواری پیش آئے گی، مسلمان اس کافرانہ صورت کو دیکھ کر گمان کریں گے کہ یہ کوئی یہودی یا نصرانی ہے، یا ہندو ہے اور اگر کوئی ایسی لاش مل جائے توتردد ہو گا کہ اس کافر نما مسلمان کی نمازِ جنازہ پڑھیں یا نہیں؟! اور کس قبرستان میں دفن کریں؟

7... جب اسلامی وضع کو چھوڑ کر دوسری قوم کی وضع اختیار کرے گا تو قوم میں اس کی کوئی عزت باقی نہیں رہے گی اور جب قوم ہی نے اس کی عزت نہ کی تو غیروں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اس کی عزت کریں غیر بھی اُسی کی عزت کرتے ہیں جس کی قوم میں عزت ہو۔

8... دوسری قوم کا لباس اختیار کرنا اپنی قوم سے لا تعلقی کی دلیل ہے۔

9... افسوس! کہ دعویٰ تو اسلام کا ، مگر لباس، طعام ، معاشرت ، تمدن ، زبان اور طرزِ زندگی سب کا سب اسلام کے دشمنوں جیسا! جب حال یہ ہے تو اسلام کے دعوے ہی کی کیا ضرورت ہے؟! اسلام کو ایسے مسلمانوں کی نہ کوئی حاجت ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ کہ جو اس کے دشمنوں کی مشابہت کو اپنے لیے موجب ِ عزت اور باعث ِ فخر سمجھتے ہوں۔(التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي: 16تا 20)

تشبہ کے فقہی اعتبار سے مراتب
تشبہ کی ممانعت اور مفاسد اچھی طرح ظاہر ہو جانے کے بعد جاننا چاہیے کہ تشبہ بالکفارکے وہ کون سے مراتب ہیں ، جن سے تشبہ کے جواز ، عدمِ جواز ،حرمت و کراہت ، استحسان و عدمِ ستحسان اور امکان و عدمِ امکان کی تفصیلات واضح ہو کر سامنے آ سکیں۔

چناں چہ انسان سے صادرہونے والے افعال و اعمال کی دو ہی قسمیں ہو سکتی ہیں: اضطراری امور اور اختیاری امور۔ ذیل میں ہر دو قسموں پر تفصیلی بحث نقل کی جاتی ہے۔

اضطراری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم
اضطراری امور سے مراد وہ امور ہیں جن کے ایجاد و عدمِ ایجاد میں انسانی اختیارات کو کوئی دخل نہیں ہوتا، مثلاً: انسان کی خلقی اوضاع و اطواراور جبلّی اقتضاء ات، یعنی: اس کے اعضائے بدن ، چہرہ مہرہ، پھر اس کے ذاتی عوارض، مثلاً: بھوک پیاس لگنا، اس اندرونی داعیہ کی بنا پر کھانے پینے پر مجبور ہونا، اپنے بدن کو ڈھانپنا وغیرہ ایسے امور ہیں جو اضطراری ہیں اور وہ نہ بھی چاہے ، تب بھی یہ جذبات اس کے دل پر ہجوم کرتے رہتے ہیں۔

تو ظاہر ہے کہ شریعت ایسے امور میں انسان کو خطاب نہیں کرتی، یہ امور کفار و غیر کفار میں مشترک ہیں، یہ نہیں کہا جائے گا کہ منع تشبہ کی وجہ سے اس اشتراک کو ختم کیا جائے، یعنی: شریعت ان امور میں یہ نہیں کہتی کہ چوں کہ کفار کھانا کھاتے ہیں تو ان کی مشابہت کو ترک کرتے ہوئے تم کھانا نہ کھاوٴ، یا چوں کہ وہ (کفار ) لباس پہنتے ہیں تم ان کی مشابہت سے بچنے کے لیے لباس نہ پہنو،یا چوں کہ ان کے ہاتھ، پیر ، ناک ، کان ہیں تم ان کی مخالفت میں اپنے یہ اعضا کاٹ ڈالو۔

بلکہ شریعت اس بات کا حکم دیتی ہے کہ تم کھانا تو ضرور کھاوٴ، لیکن تم کھانے کے طریقے کو ترکِ تشبہ کے ذریعے ممتاز ضرور بناوٴ، کیوں کہ یہ تمہارا اختیاری فعل ہے ، اضطراری نہیں۔ اسی طرح شریعت یہ نہیں کہتی کہ ترکِ تشبہ کے جوش میں تم لباس پہننا ہی ترک کردو، لیکن یہ ضرور کہتی ہے کہ تم لباس کی وضع قطع کو غیر اقوام کے لباس سے ممتاز اور نمایاں رکھو کہ یہ ضرور تمہارے حدود و اختیا ر میں ہے۔

شریعت کبھی یہ نہیں کہے گی کہ اپنے اعضائے بدن کاٹ ڈالو کہ یہ تمہارے اعضائے جوارح غیر مسلم اقوام کی طرح ہیں ، اس لیے بوجہ مشابہت یہ نہیں ہونے چاہییں، ہاں یہ ضرور کہے گی کہ ٹھیک ہے کہ ان کا وجود میں آنا تمہارے اختیار یا ایجاد سے نہیں ہوا، لیکن تمہارے ان اعضا کی تزیین اور بناوٴ سنگھار کا غیر اقوام سے ممتاز اور نمایاں ہونا تو تمہارے اختیار کا ہی فعل ہے نا، وہ چھوٹنے نہ پائے۔

اختیاری امور میں تشبہ اختیار کرنے کا حکم
اس کے بعد انسان سے صادرہونے والے افعال اختیاری طور پرصادرہوتے ہیں ، ان اختیاری امور کی دو قسمیں ہیں: مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔

مذہبی امور میں تشبہ کا حکم
مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہو، یعنی: ان افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر کیا جاتا ہو ، جیسے: نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندووٴں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔

معاشرت و عادی امور میں تشبہ کا حکم
معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ، ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی : وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے؛ دوسرے: وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی :وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا، لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔

قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے : ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے: بتوں کے آگے جھکنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آ ئی ہے۔

مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم
اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں ، بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں، ایک: وہ امور جو کسی غیر قوم کا شعار (یعنی: علامتی وشناختی علامت) ہوں، دوسرے: وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں، ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے:

غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم
اگر تو وہ (مباح بالذات ) امور غیر مسلم اقوام کے شعار (یعنی: علامتی و شناختی علامت)میں سے ہوں تو بھی ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً: غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے : ہمارے زمانے اور علاقوں میں ماہِ محرم میں خصوصاً اور باقی دنوں میں عموماً سیاہ لباس یا فقط سیاہ قمیص اہل ِ روافض کا شعار ہے اور اسی طرح اس دور میں سبز عمامہ اور گہری براوٴن رنگ کی چادر ایک خاص بدعتی گروہ کاشعار بن چکا ہے۔

مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم
اور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے، ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

ذی بدل اشیا میں غیروں کی مشابہت کا حکم
اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور پر ایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیا کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلا ضرورت خوا ہ مخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔

جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان (یعنی : ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان) دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ ”یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھینک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا“۔

ملاحظہ ہو: عن علي رضي اللہ عنہ قال: ”کانت بید رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم قوس عربیة، فرأیٰ رجلاً بیدہ قوس فارسیة، فقال:”ما ہٰذہ؟ ألقھا؛ وعلیکم بھٰذہ و أشباھھا ورماح القناء، فإن اللہ یزید اللہ لکم بھما في الدین، ویمکن لکم في البلاد“․ (سنن ابن ماجة، باب السلاح، رقم الحدیث: 2810)

چوں کہ فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھی، اس لیے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا، تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن سے ممکن امتیاز پیدا ہو سکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔

غیر ذی بدل اشیا میں غیروں کی مشابہت کا حکم
اور اگر غیر اقوام کی اشیا ایسی ہوں کہ ان کو کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، تو اس کی پھر دو صورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ تشبہ بالکفار کو نیّةً و ارادةً مقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا اور کفار کی طرف میلان یقیناً اسلام کی چیز نہیں ہے، بلکہ اسلام سے نکال دینے والی چیز ہے، قرآنِ حکیم نے تو صاف اعلان کر دیا ہے : ﴿ولا ترکنوا إلیٰ الذین ظلموا فتمسکم النار﴾ (الھود: 113) ”اور نہ جھکوان کی طرف جو ظالم ہیں، مبادا ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے تم کو آگ چھو لے“۔

نیز! غیر مسلموں کی تقلید کسی مسلم کو بامِ عروج پر نہیں پہنچا سکتی، جیسا کہ ظلمت کی تقلید نور کی چمک میں، مرض کی تقلید صحت میں اور کسی ضد کی تقلید دوسری ضد میں کوئی اضافہ و قوت پیدا نہیں کر سکتی، ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو ، بلکہ اتفاقی طور پر یا ضرورت کے طور پراستعمال میں آ رہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن : 5/ 128۔-133، التنبہ علی ما في التشبہ للکاندھلوي، ص: 12-8 ، فیض الباری:2/15، انوار الباری: 11/ 105، 106) (جاری)
Flag Counter