Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

16 - 18
والدین کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کارحیمانہ سلوک
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، انسان کا وجود والدین کے رہین منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے، نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی، والدین کے تئیں آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرامین بھی حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتی الامکان سعی کی، اسی طرح اب بڑھاپے میں بچوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لیے اعزاز قراردیں، اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی۔

والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدین کے ساتھ رحیمانہ معاملہ فرماتے ہوئے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت وفرماں برداری اپنے لیے لازم کرلو، بصورت دیگر والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ شمار کیا، کبیرہ گناہ وہ ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضي الله عنهم سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تم کو کبائر میں سے بڑے کبیرہ کی خبر دوں؟ صحابہ رضي الله عنهم نے عرض کیا، کیوں نہیں یارسول اللہ؟ ضرور ضرور خبردیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہ شرک اور والدین کی نافرمانی ہے۔ (بخاری: 6675، باب الیمین الغموس) یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحمت کا اثر ہی ہے کہ والدین کی نافرمانی کو کبیرہ شمار کیا، یعنی کسی مسلمان سے کبیرہ گناہ کی توقع نہیں ہوسکتی؛ اس لیے کوئی بھی مسلمان کبیرہ کے تصور سے والدین کی نافرمانی سے دور رہے گا، ایک موقعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے اہتمام کرنے والے اور کبائر سے بچنے والے کو جنت کی بشارت دی اور کبائرمیں والدین کی نافرمانی شمار کی۔ (السلسلة الصحیحة: 1432) جن چیزوں کی وجہ سے جنت کا استحقاق ہوتا ہے انہیں میں سے ایک والدین کی نافرمانی سے احتراز بھی ہے، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدین کی اطاعت وفرماں برداری کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا:روز محشر اللہ تعالیٰ تین آدمیوں پر نظر التفات نہ فرمائیں گے، انہیں میں سے ایک والدین کا نافرمان بھی ہے۔ نیز فرمایا: تین لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے، انہیں میں ایک والدین کا نافرمان بھی ہے۔ (الترغیب والترھیب: 3774کتاب البر والصلة،حسن) اس حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے جہاں نافرمان اولاد کو روز محشر رحمت الہیہ سے محروم قرار دیا، وہیں پر نافرمان اولاد سے جنت کا استحقاق بھی ختم کردیا، والدین کی نافرمانی ہی کو کبیرہ نہ شمار کیا؛ بلکہ وہ اسباب جو والدین کی لیے تکلیف دہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ، انہیں بھی کبائر میں شمار کیا، لہٰذا فرمایا: کبائر میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے ، آپ صلی الله علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا: کیا آدمی اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: کسی آدمی کے والدیا والدہ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے والدہ یا والدہ کو گالی دیتا ہے۔(الترغیب والترھیب: 2783کتاب البر والصلة،صحیح)

ماں کا مقام
اولاد کی پیدائش کتنی پریشانیوں کتنی مشقتوں کتنی تکالیف سے ہوتی ہے اس کا احساس والدہ سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدہ کا مقام والد سے زیادہ بیان کیا؛ چناں چہ ایک صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کرنے لگے کہ میرے سب سے زیادہ احسان کے کون مستحق ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین دفعہ ماں کا تذکرہ کیا، چوتھی دفعہ والد کا ذکر کیا۔ (بخاری: 5626، باب من احق الناس بحسن الصحبة) آپ صلی الله علیہ وسلم اکثر وبیشتر دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرماتے، کبھی ایک کی ہی تخصیص فرماتے، ایک دفعہ دیہاتی آکر آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرنے لگے کہ کس کے ساتھ وہ حسن سلوک کریں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے دودفعہ والدہ کا تذکرہ کیا، تیسری دفعہ والدکا ذکر فرمایا۔(بخاری:5971، باب من أحق الناس بحسن الصحبة ) ایک صحابی حارثہ بن نعمان کے سلسلہ میں مشہور تھا کہ وہ والدہ کے بڑے مطیع وفرماں بردارہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں پڑھنے کی آواز سنی تو میں نے پوچھا کون؟ انہوں نے جواب دیا حارثہ بن بن نعمان میں نے کہا، حسنِ سلوک اسی طرح ہونا چاہیے،(للدولابی: 1191 من کنیة ا بوالنضرہ ،مسند الشہاب القضاعی 1/102) ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے والدہ کی اہمیت بیان کی : جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ (الکنی والأسماء) جنت کی تلاش کا آسان راستہ والدہ کی خدمت سے طے ہوتا ہے، جو شخص جنت کا متلاشی ہو وہ فرائض وواجبات کی دائیگی کے ساتھ والدہ کی خدمت کو لازم پکڑے، ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک صحابی نے استفسار کیا کہ میں نے والدہ کی فلاں فلاں خدمت کی کیا والدہ کا حق ادا ہوگیا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا تمہاری پیدائش کے وقت والدہ نے تکلیف سے جو آواز نکالی تھی اس کا بھی حق ادا نہ ہوا۔

باپ کا مقام
ایک باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو؟ اس کا مقام بیان کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے۔(ترمذی: 1900، باب ما جاء من الفضل فی اخا الوالدین، صحیح) ایک موقعہ پر ایک صحابی رسول آکر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں شکایت کرنے لگے کہ میرے والد میرے مال سے خرچ کرنا چاہتے ہیں، ایسے موقع پر میں کیا کروں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے جواب دیا، ”تو او رتیرا مال تیرے والد ہی کے لیے ہے“۔(ابن ماجہ: 2291، باب ما للرجل من مال ولدہ، صحیح) یعنی آپ صلى الله عليه وسلم نے والد کا مقام ومرتبہ بیان کرتے ہوئے اولاد کے مال میں والد کا استحقاق قرار دیا۔

والدین کی خوش نودی اللہ کی خوش نودی
انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیان فرمایا: بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا والدین کی رضا مندی وناراضگی کے ساتھ معلق ہے۔ (الجامع الصغیر: 5820، صحیح)

ایک اور حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:رب کی رضامندی والد کی رضا مندی میں ہے، رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ (الجامع الصغیر: 5819، صحیح) والدین کی رضامندی کو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کتنا اہم قرار دیا کہ ان کی رضامندی پر اپنی رضامندی موقوف کردی، والدین کو ناراض رکھ کر اللہ کو راضی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

جنگ وہجرت پر خدمت کو ترجیح
جنگ کا موقع ہو یا ہجرت کا موقعہ ایسے مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم اپنے صحابہ کرام رضي الله عنهم کو اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ والدین کو راضی کیے بغیر ہجرت نہ کرو، نہ ہی والدین کو راضی کیے بغیر جنگ میں جاوٴ،چناں چہ ایک صحابی نے رسول صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کے عزم کا اظہار کیا، اس سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم سے مشورہ طلب کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے سوال کیا کہ کیا تمہاری والدہ ہیں؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: انہیں لازم پکڑے رہو، آپ صلى الله عليه وسلم نے استفسار کیا کہ کیا تمہارے والدین ہیں؟ انہوں نے مثبت جواب دیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ان میں جہاد کرو۔ (بخاری: 3004، باب الجہاد باذن الوالدین) ایک صحابی جذبہٴ جہاد سے سرشار ہو کر یمن سے تشریف لائے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یمن میں تمہارے کوئی رشتہ داربا حیات ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ والدین زندہ ہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے اجازت کے بارے میں سوال کیا۔“ صحابی رسول نے نفی میں جواب دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جاوٴ ان سے اجازت لو، اگر اجازت نہ ملے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ ہی حسنِ سلوک کرو۔(ابوداوٴد: 2530، باب فی الرجل یغزووابواہ کارھان، صحیح )

ایک صحابی حاضر ہو کر آپ صلى الله عليه وسلم کے دست اقدس پر ہجرت پر بیعت کرنا چاہ رہے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے والدین کے بابت دریافت کیا، انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ہجرت کے ارادے سے نکل رہا تھا تو وہ رورہے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ جاوٴ! جیسے والدین کو رلا کر آئے ہو ویسے ہی انہیں اب خوش کر کے آوٴ۔ (الترغیب والترھیب: 3744، کتاب البر والصلة، صحیح)

یہ والدین کے ساتھ رحیمانہ کر یمانہ سلوک کی تلقین کے کچھ گوشے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کے افراد کو سختی سے اس بات کی تاکید کی کہ والدین کے ساتھ رحیمانہ طرز عمل اپنایاجائے، انہیں اپنی ذات سے کوئی تکلیف وگزند نہ پہنچے ، چوں کہ بنفس نفیس آپ صلی الله علیہ وسلمکو اپنے والدین کی خدمت کا موقع نہ مل سکا، ورنہ عملی طور پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم امت کو اسوہ ونمونہ عطا فرماتے، لیکن اس کے باوجود روایات میں یہ بات موجود ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلمنے ایک موقعہ پر فرمایا: اے کاش! اگر میری والدہ زندہ ہوتی ، اور میں عشاء کے بعد نوافل میں مشغول ہوتا اور میری والدہ مجھے آواز دیتی کہ اے محمد! تو میں نماز چھوڑ کر والدہ کے کام کی جانب متوجہ ہوتا ،ان کی ضرورت کی تکمیل کرتا۔آپ صلی الله علیہ وسلمنے اپنی والدہ کے سلسلے میں (جوکہ بچپن ہی میں انتقال کر گئی تھیں) یہ کلمات کہے ہیں؛ اگر فی الواقع والدہ موجود ہوتیں تو کیا سلوک فرماتے اس کے بیان سے زبان وقلم عاجز ہے، ایک جانب آپ صلی الله علیہ وسلم کی والدین کے تئیں یہ تعلیمات ہیں ، دوسری جانب والدین کی ناقدری وبائی شکل اختیار کرتی جارہی ہے، والدین کی نافرمانی عام سی بات ہوگئی، والدین کے ساتھ بد سلوکی اس حد تک عام ہوگئی کہ والدین کو گھر سے باہر نکالا جارہا ہے ،جس کے اثر سے (اولڈ ہاؤس) کی کثرت ہورہی ہے، الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو علامات قیامت بیان کی تھیں کہ قرب قیامت میں والدین کی نافرمانی عام ہوگی، اس کی عملی تطبیق نظر آرہی ہے، الغرض ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین کے ساتھ نرمی وخیر خواہی کے جس پہلو کی جانب آپ صلی الله علیہ وسلمنے امت کی توجہ مبذول فرمائی ہے، اسے اپنانے کی اور عملی جامہ پہنانے کی سخت ضرورت ہے، ان کی فروگذاشتوں سے صرفِ نظر کیا جائے، ان سے انتقامانہ کارروائی نہ کی جائے، ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو بنظرِ محبت دیکھا جائے، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین!
Flag Counter