تصوف قرآن وسنت کی روشنی میں
ڈاکٹر بشیر احمد رند
برداشت اور رواداری
صوفیائے کرام کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے اور پرائے، نیک اور بد ، موافق اور مخالف سب کے ساتھ برداشت، رواداری اور حسن سلوک کا رویہ رکھتے ہیں اور اپنے معتقدین کو بھی اسی چیزکا درس دیتے ہیں، چناں چہ حضرت بصری کے بارے میں منقول ہے کہ : ” انہیں کچھ لوگوں نے بتایاکہ فلاں شخص آپ کی عیب جوئی کر رہا ہے ،تو آپ نے بجائے اس پر غصہ کرنے یا انتقام لینے کے بطور تحفہ اس کو تازہ کھجوریں بھیج دیں “۔
بندہٴ عشق از خدا گیرد طریق
می شود بر کافر وموٴمن شفیق
” جو بندہ عشقِ الٰہی میں سرشار ہوتا ہے وہ الہٰی راستے پر چلتاہے اور (برداشت اور رواداری سے کام لیتے ہوئے ) سب پر مہربان ہوتاہے“۔
ما قصہٴ سکندر ودارا نہ خواندہ ایم،
از ما بجز حکایتِ مہر ووفا مپرس
” ہم نے سکندر ودارا کے قصے نہیں پڑھے ، ہم سے محبت اور وفاداری کے سوا اور کوئی بات مت پوچھ “ ۔
اس سلسلے میں شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ فرماتے ہیں :
” اے دوست ! اگر کوئی تمہیں برا بھلا کہے تو پلٹ کر اسے جواب نہ دو ( بلکہ برداشت سے کام لو)۔ ایسی باتوں میں جو پہل کرتا ہے وہی خطاکار ہوتاہے ، حسد اور کینہ اندر میں رکھنے والا کچھ حاصل نہیں کرپاتا“۔
شاہ صاحب کا یہ شعر صوفیانہ فلسفے اور رواداری کی کتنی بہترین عکاسی کرتا ہے!
اسی کو تو برداشت اور رواداری کہا جاتا ہے کہ دوسروں کی چڑ دلانے والی باتوں کو برداشت کیا جائے اور بجائے انتقام لینے کے عفو و درگذر سے کام لیا جائے ۔
اسی تعلیم کے بارے میں الله تعالی فرماتا ہے : ﴿والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس والله یحب المحسنین﴾․
” اور(جنت ایسے لوگوں کے لیے تیار ہے) جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر تے ہیں ( اور لوگوں کے ساتھ احسان کا برتاؤ کرتے ہیں) اور خدا احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے “ ۔
جو لوگ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور جاہلانہ رویے سے پیش آتے تھے الله تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو ان کے ساتھ نرمی کرنے ، درگذر کرنے ، رواداری اور برداشت سے پیش آنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ﴿خذ العفووأ مر بالمعروف وأعرض عن الجاھلین﴾․
” عفو و درگذر سے کام لو ، اچھائی کا کہتے رہو اور ان کی جاہلانہ باتوں سے روگردانی کرتے رہو۔ “
آپ صلى الله عليه وسلم نے برداشت اور رواداری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : ”لا تکونوا اِمَعةً ََتقولون: ان أحسن الناس أحسنَّا، وان ظلموا ظلمنا،ولٰکن وطنو ا أنفسکم، ان أحسن الناس أن تحسنوا، وان أساؤا فلا تظلموا “
” انتقام اور بدلہ لینے والا ذہن مت رکھو کہ یوں کہو کہ : اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھائی کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھائی کریں گے اور اگر وہ ہم پر ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پرظلم کریں گے ،بلکہ یہ ذہن بناؤ کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھائی کریں تو تم ان کے ساتھ اچھائی کرو، لیکن اگر وہ تمہارے ساتھ برائی کریں تو تم ان کے ساتھ ظلم مت کرو ( بلکہ عدل و انصاف سے کام لو)“۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا یہ نعرہ کتنا نا پسندیدہ اور بد بودار ہے جو کہتے ہیں :
محبت کرو گے تو محبت کریں گے
نفرت کرو گے تو نفرت کریں گے
ہم بھی تم جیسے انسان ہیں
جو تم کرو گے، وہ ہم کریں گے
قرآن وسنت اور صوفیاء کی تعلیم اس کے بالکل برخلاف ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرامؓ پر اہل مکہ کے مظالم اور ستم رسانیاں سب کو معلوم ہیں، لیکن فتح ِمکہ کے موقع پر ان پرقابو پانے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے جس بردباری اور رواداری کا ثبوت دیا انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت الله کے سامنے کھڑے ہو کر عام معافی کا اعلان کرتے ہو ئے فرمایا :
”لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم الطلقاء “
” تم پر کچھ الزام نہیں، جاؤ! تم سب آزاد ہو۔“
اس سے صاف ظاہر ہے کہ صوفیا کا تحمل اور رواداری کو اپنانا یا اس کی تعلیم دینا سراسر قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔
خدمتِ خلق
اس وقت دنیا میں Give and take ”لو اور دو“ کا اصول عوام الناس کی فطرت کا لازمی حصہ بن چکا ہے ، کوئی شخص کسی کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اسے بدلے میں کیا ملے گا ؟ جب تک یہ امید نہ ہو، اس وقت تک کوئی قدم نیکی کی طرف نہیں اٹھتا اور نہ کسی اور کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے ۔
خود غرضی اور نفس پرستی کے اس جذبے کے برعکس صوفیائے کرام عوام الناس میں یہ روح پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ذاتی مفاد سے بالا تر ہوکرانسانیت کو فائدہ پہنچایا جائے۔ صوفیا کے ہاں خلقِ خدا کی خدمت سے بڑھ کر کوئی نیکی کا عمل نہیں۔
چناں چہ شیخ سعدی فرماتے ہیں:
دل بدست آور کہ حج اکبر است
”لوگوں کو فائدہ پہنچا کر ان کادل خوش کرو کہ یہ حجِ اکبر ہے‘ ‘
طریقت بجز خدمتِ خلق نیست
بتسبیح وسجادہ ودلق نیست
”طریقت خدمتِ خلق کے علاوہ اور کسی چیز کا نام نہیں،تسبیح و جائے نماز اورگُدڑی کا نام نہیں“۔
سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں:
”قیامت کے بازار میں کوئی اسباب اس قدر قیمتی نہ ہوگا جس قدر دلوں کو راحت پہنچانا“۔
اور ان حضرات کے ہاں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی جرم کا عمل نہیں ،چناں چہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں:
مباش در پئے آزار وہرچہ خواہی کن
کہ در طریقت ِ ما بیش ازیں گناہے نیست
”خدا کی مخلوق کی اذیت کے در پئے مت پڑو، باقی جو چاہو کرو ،کیوں کہ ہم صوفیا کے طریقے میں خلق آزاری سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔ “
اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ خلقِ خدا کو خدا کا کنبہ سمجھتے ہیں ، اس لیے خلقِ خدا کی خدمت کو خدا کی خدمت اور خلق خدا کی اذیت کو خدا کو اذیت پہنچانے کے برابر سمجھتے ہیں۔ مولانا حالی کہتے ہیں :
یہ پہلا سبق تھا کتابِ ہدیٰ کا
کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صوفیا حضرات انسانیت سے کتنی محبت کرتے ہیں اور ان کی راحت رسانی کی کتنی فکر کرتے ہیں اور ان کے ہاں خلق آزاری کتنا بڑا جرم ہے!
اب ہم قرآن وسنت کی روشنی میں خدمت ِخلق کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں: قرآن مجید موٴمنین کی خصوصی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:﴿ ویوٴثرون علیٰ انفسہم ولوکان بھم خصاصة﴾
” وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ وہ خود حاجت مند ہوتے ہیں“۔
دوسری جگہ پر ارشاد باری ہے :﴿ویطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینًا ویتیمًا و اسیرًا انما نطعمکم لو جہ الله لانرید منکم جزاءََ ا ولا شکورًا ﴾
”وہ خداکی محبت کی خاطرمسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلا تے ہیں ،( اور کہتے ہیں )ہم تو تم کو بس الله کی رضا کی خاطرکھانا کھلاتے ہیں، اورنہ تم سے اس کا عوض چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۔“
مطلب کہ موٴمنین کسی کے ساتھ بھلائی کرتے وقت یہ نہیں دیکھتے کہ انہیں بدلے میں کیا ملے گا ، وہ تو صرف خدا کی رضا کی خاطر خدا کی مخلوق کی خدمت کرتے ہیں۔
آپ صلى الله عليه وسلم نے خلق ِخدا کی خدمت پر ابھارنے کے لیے مختلف طریقوں سے ترغیب دی ہے ، ایک موقعے پر فرمایا: ”الساعی علیٰ الارملة والمسکین کالساعی فی سبیل الله ، احسبہ قال: کالقائم لا یفتر، وکالصائم لایفطر “
” بیواؤں اوریتیموں کی مدد کرنے والا( خدا کے ہاں) ایسا ہے جیسے مجاھدفی سبیل لله اور یہ بھی فرمایاکہ اس کو وہ اجر ملے گا جو ساری رات جاگ کر عبادت کرتاہو اور جو ہمیشہ روزے رکھتا ہو۔“
ایک اور موقعے پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :
”تریٰ الموٴمنین فی تراحمھم وتوادہم وتعاطفھم کمثل الجسد، اذا اشتکیٰ عضو تداعیٰ لہ سائر الجسد بالسھر والحمیٰ“
” ایک دوسرے کے ساتھ رحم ، محبت اورنرمی کرنے کے لحاظ سے تم دیکھو گے کہ موٴمن ایک جسم کی طرح ہیں ،جسم کا جب کوئی ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔“
ایک اور روایت میں فرمایا:”والذی نفسی بیدہ لایوٴمن عبد حتیٰ یحب لا خیہ ما یحب لنفسہ“
” اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے ! کوئی بندہ اس وقت تک کامل موٴمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔ “
ظاہر ہے کہ ہر کوئی اپنے ساتھ اچھائی اور نیکی چاہتاہے اور اپنے ساتھ کبھی بھی برائی یا بدسلوکی پسند نہیں کرتا، اسی طرح ایک موٴمن سب کی بھلائی چاہتا ہے اور کسی کی برائی نہیں چاہتا ۔
مذکورہ بحث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تصوف اور صوفیا حضرات کی تعلیم در اصل قرآن و سنت کا نچوڑ اور اس کی عملی صورت ہے۔
خلاصہ/ نتائج
مذکورہ بالا بحث سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:
1... تصوف عشق اور محبتِ خداوندی کا درس دیتا ہے۔
2... تصوف اطاعتِ رسول صلی الله علیہ وسلم پر ابھارتا ہے اور تصوف کی نظر میں اطاعتِ رسول کے بغیر خدا کی رضا کا حصول ناممکن ہے۔
3... تصوف اپنے آپ کو فضائلِ اخلاق سے مزین کرنے اور رذائلِ اخلاق سے پاک کرنے کا درس دیتا ہے۔
4... تصوف خلقِ خدا کی محبت اور اس کی خدمت کی تلقین کرتا ہے اور مخلوق کی کمی کوتاہیوں کو درگذر کرنے اور ان سے حسنِ خلق رکھنے کا سبق دیتا ہے اور صوفیا کی نظر میں خلق آزاری سے بڑا کوئی گناہ نہیں۔
5... تصوف دوست اور دشمن، اپنے اور پرائے کے فرق کے بغیر سب کے ساتھ روداری اور برداشت کا درس دیتا ہے۔
6... اسلامی تصوف در اصل قرآن وسنت کا نچوڑ اور اسلامی تعلیمات کی روح اور اس کی عملی صورت کا نام ہے۔