Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1434ھ

ہ رسالہ

12 - 18
عصمت انبیا پر استدلال
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ

ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

حضرت داؤد علیہ السلام پر خواہش نفس کی پیروی کا الزام
”حضرت داؤد علیہ السلام کے فعل میں خواہش نفس کا کچھ دخل تھا اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔“(تفہیم القرآن ج 4،سورہ ص،تحت آیة رقم :ص 327 طبع اول)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
حضرت داؤد علیہ اسلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر اور یا سے طلاق کی درخواست کی تھی۔“(تفہیمات ،حصہ دوم ص:42،طبع دوم)

حضرت یونس علیہ السلام پر کوتاہی کا الزام
” حضرت یونس علیہ السلام سے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتا ہیاں ہوگئی تھیں…جب نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا۔“(تفہیم القرآن ،حصہ دوم ،سورة:ص ،تحت آیہ رقم ،98،طبع سوم)

حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کا الزام
حضرت یوسف علیہ السلام کے ارشاد :﴿ اجعلنی علیٰ خزائن الارض﴾(سورة یوسف:55)(مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر)کے بارے میں فرماتے ہیں

”یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسف علیہ السلام کو جو پوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔“(تفہیمات ،ص:122 طبع چہارم)

حضرت یوسف علیہ السلام پر ڈکٹیٹر شپ کے مطالبے کا الزام اور ان کے عدل وانصاف پر مبنی اقتدار کو ایک ظالم اور کافر بدنام زمانہ حاکم مسولینی کے اقتدار سے تشبیہدینا کیا معنیٰ رکھتا ہے؟!

حضرت نوح علیہ السلام پر بشری کمزوری سے مغلوب ہونے کا الزام”بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلی واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے۔“(تفہیم القرآن ،سورة ص:تحت آیہ رقم ۔46 ،حصہ دوم، طبع چہارم)

سید مودودی صاحب کا ”لطیف نکتہ“
”عصمت دراصل انبیائے کے لوازم سے نہیں ہے اور یہ ایک لطیف نکتہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہہر نبی سے کسی نہ کسی وقت حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہو جانے دی ہیں تاکہ لوگ انبیا کو خدانہ سمجھیں اور جان لیں کہ یہ بھی بشر ہیں۔“(تفہیمات ،ج2 ،ص :43 :طبع دوم)

انبیاء کی بشریت جاننے کے لیے اس انوکھے معیار کا انکشاف ہمیں اپنی علمی زندگی میں پہلی بار ہواہے، کیا بشریت کا پتہ لگانے کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ اہل وعیال رکھتے ہیں ؟کھاتے پیتے ہیں؟

الغرض انبیاء علیہم السلام کے متعلق مولانا سید مودودی کے قلم سے نکلنے والے یہ شہ پارے سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اس کا ایک معیار تو بقول حضرت لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کے یہ ہے کہ:

اگر یہی فقرے ،یہی تعبیرات وتمثیلات خود مولانا موصوف کے حق میں استعمال کی جائیں تو وہ سوئے ادب میں شمار ہوں گی یانہیں؟مثلاً اگر کہا جائے کہ مولانا ڈکٹیٹر تھے،اپنے دور کے مسولینی تھے،جذبہ جاہلیت سے مغلوب ہوجاتے تھے۔حاکمانہ اقتدار کا نامناسب استعمال کر جاتے تھے، اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیتے تھے،ان کے کاموں میں خواہش نفس کا بھی کچھ دخل ہوتا تھا۔

یقین جانیے! مولانا کا کوئی مداح اور عقیدت مند یہ الزامات برداشت نہیں کرے گا ۔اگر یہ جملے مولانا کے روبرو دھرائے جاتے تو وہ بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ۔اب آپ ہی انصاف فرمائیں جو الفاظ سید مودودی کی ذات مآب کے لیے تنقیص شان کے آئینہ دار ہوں، وہ انبیا علیہم السلام جیسے مقدس گروہ کے حق میں محترم اور معزز کیسے ہوسکتے ہیں؟اپنی شان تقدیس کے متعلق تو لکھتے ہیں۔

”خدا کے فضل سے میں نے کوئی کام یا کوئی بات جذبات سے مغلوب ہو کر نہیں کیا اور کہا ،حتی کے ایک ایک لفظ جو میں نے اپنی تقریر میں کہا ہے ،یہ سمجھتے ہوئے کہاہے اس کا حساب مجھے خدا کو دینا ہے، نہ کہ بندوں کو، چناں چہ اپنی جگہ بالکل مطمئن ہوں کہ میں نے کوئی ایک لفظ بھی خلاف حق نہیں کہا“۔(رسائل مسائل حصہ اول ،ص:2،3 طبع دوم)

ایک تقریرمیں فرماتے ہیں:
”میرے رب کی مجھ پر عنایت ہے کہ اس نے میرے دامن کو داغوں سے محفوظ رکھا۔“(تقریر چار روزہ کانفرنس ،جماعت اسلامی بمقام لاہور، 25 تا 28اکتوبر 1963ء ،روزنامہ مشرق لاہور،26اکتوبر)

مولانا غیر معصوم ہوتے ہوئے بھی کبھی جذبات سے مغلوب نہیں ہوئے اور ان کادامن داغوں سے محفوظ رہا۔اور انبیائے کرام کی معصوم جماعت جن کی راہ نمائی کے لیے عرش الہٰی سے وحی اترتی تھی، وہ ان کے خیال کے مطابق کبھی جذبات سے مغلوب ہو جاتی اور کبھی خواہش نفس کا شکار ہو جاتی۔فیاللعجب

اس کا دوسرا معیا ریہ ہے کہ اہل زبان ان فقروں سے کیا تاثر لیتے ہیں۔ان کے عرف میں یہ سوئے ادب میں داخل ہیں یا نہیں ؟اگر ان دونوں معیاروں پر جانچنے کے بعد طے ہو جائے کہ ان جملوں اور فقروں میں سوء ادب کا پہلو نمایاں طور پر پایا جاتا ہے توان کے عقیدت مندو ں کو چاہے وہ ایسی تمام تحریریں جو سوئے ادب پر مبنی ہیں ان کی اشاعت یکسر روک کر اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے خواست گار ہوں، کیوں کہ انبیائے کرام کے حق میں ادنی تنقیص بھی سلب ایمان کی علامت ہے۔

﴿فَتَلَقَّی آدَمُ مِن رَّبِّہِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ إِنَّہُ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ، قُلْنَا اہْبِطُواْ مِنْہَا جَمِیْعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، وَالَّذِیْنَ کَفَرواْ وَکَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا أُولَئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ ﴾․(البقرہ:38-37)

پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے چند باتیں، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا، مہربان ،ہم نے حکم دیا نیچے جاوٴ یہاں سے تم سب ،پھر اگر تم کو پہنچے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلا میری ہدایت پر نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جو لوگ منکرہوئے اور جھٹلایا ہمار ی نشانیوں کو ،وہ ہیں دوزخ میں جانے والے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

ربط…گزشتہ آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش کا ذکر تھا، ان آیات میں ان کی توبہ اور قبول توبہ کا ذکر ہے ۔

تفسیر
﴿فَتَلَقَّی آدَمُ﴾حضرت آدم علیہ السلام سے جب بھولے سے لغزش صادر ہوگئی تو وہ فرط ندامت میں ایک عرصے تک آہ وفغاں میں مصروف رہے۔یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی نے انہیں کچھ ایسے کلمات سکھائے جسے زبان پر لاتے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرماکر اپنی آغوش رحمت میں لے لیا۔وہ کلمات کون سے تھے؟ان میں مختلف روایات ہیں،تاہم قرآن کریم میں یہ الفاظ حضرت آدم وحوا علیہما لسلام کی زبان سے منقول ہیں۔ ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْن﴾(الاعراف:22)

ترجمہ:”بولے وہ دونوں اے رب ہمارے! ظلم کیا ہم نے اپنی جان پر اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے توہم ضرور ہوجائیں گے تباہ“

﴿قُلْنَا اہْبِطُواْ منھا جَمِیْعاً﴾نیچے اترنے کا حکم دوبارہ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر دوبار اترنے کا حکم ہوا، لغزش کے صادر ہونے کے بعد پھر قبول توبہ کے بعد۔پہلا حکم ،حاکمانہ طرز پر تھا اور اس سے اظہار ناراضگی مقصود تھی۔دوسرا حکم حکیمانہ طرز پر اور منصب خلافت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے ہے۔لہٰذا کسی کو تکرار کا شبہ نہ ہونا چاہیے۔ ﴿فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی…﴾جو لوگ دنیا کے ظلمت کدہ میں احکام الہی کی روشنی میں زندگی بسر کریں گے وہ فتنہ محشر کی ہولناکیوں کے خوف،اورحزن وملال کی کسی کیفیت سے دوچار نہ ہوں گے۔

واضح رہے کہ صدمہ دوطرح کا ہوتاہے، کسی حادثے سے قبل ،یا کسی حادثے کے بعد ،مثلاًمریض کے خدشہ موت سے جوصدمہ لگارہتاہے اسے خوف کہتے ہیں اور مریض کے فوت ہونے کے بعد جوصدمہ لاحق ہوتاہے اسے حزن کہتے ہیں،اولیاء اللہ بروز قیامت ان دونوں سے محفوظ رہیں گے۔

ممکن ہے یہاں کسی کوشبہ ہو کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں توبارہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ اس روز بڑے بڑے مقرب بند ے بھی خوف زدہ ہوں گے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث رسول کریم صلى الله عليه وسلم میں جس خوف کا تذکرہ ہے ،اس سے خوف طبعی مراد ہے، یعنی طبعاًتو وہ بھی خوف زدہ ہوں گے، لیکن کوئی خوف ناک واقعہ ان پر نہیں آئے گا، یہ بالکل ایسا ہے جیسے مجلس عدالت میں وکیل ملزم سے کہہ دے کہ اطمینان رکھو، تمہیں اس مقدمے میں کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ۔اس سے ملزم مطمئن تو ہو جاتا ہے، لیکن طبعاً خوف لگارہتا ہے۔

﴿والذین کفروا....﴾سے دوسرے گروہ کا تذکرہ ہے، جو احکام الہٰی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ان کا انجام یہی ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

﴿یٰبَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَوْفُواْ بِعَہْدِیْ أُوفِ بِعَہْدِکُمْ وَإِیَّایَ فَارْہَبُونِ﴾․(البقرة:40)

اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے وہ احسان جو میں نے تم پر کیے اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمہارا اقرار اور مجھ ہی سے ڈرو۔

تفسیر
بنی اسرائیل کو انسانی تاریخ میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے،کئی سو سالوں تک توحید کا علم ان کے ہاتھوں میں لہراتا رہا ،تقریباًدو ہزار سال تک اس نسل اور قوم سے انبیاء اور رسول پید اہوتے رہے، حضرت داوٴد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام ،جیسے عظیم الشان بادشاہ اور حضرت یوسف علیہ السلام جیسے وزیر باتدبیر اسی قوم سے اٹھے۔قرآن کریم میں سورة بقرة سے سورة الصف تک تقریباًچالیس بار ان کا تذکرہ ہوا ہے۔اس آیت میں انسانیت کے اسی مخصوص طبقے سے خطاب فرماکر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کی یاد دہانی کرائی، شاید شرما حضوری ہی میں ایمان قبول کرلیں۔

بنی اسرائیل کے عروج وزوال کی داستانوں کے ہر موڑ میں عبرت وبصیرت کے کئی سامان اور ہدایت وضلالت کے کئی نشان ہیں،اس اہمیت کے پیش نظر ان کا تفصیلی تعارف بھی کرادیا جاتاہے، تاکہ ان سے متعلقہ مضامین سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔

بنی اسرائیل کا تعارف
حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا اصل وطن ”بَابِل“کا علاقہ تھا،جہاں بت پرست بادشاہ نمرود کی حکومت تھی، آپ نے اسے توحید کی دعوت دی تو بادشاہ اور رعایا نے طیش میں آکر آپ کو آگ کی بھٹی میں جھونک دیا، قدرت حق سے وہ آگ گلزار بن گئی ،پھر آپ بَابِل سے ہجرت فرماکرفلسطین کے علاقے کنعان تشریف لے آئے،آپ نے تین عقد فرمائے، پہلی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام تھیں،دوسری حرم محترمہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام تھیں،تیسر اعقد حضرت سارہ علیہا السلام کی وفات کے بعد حضرت قتورہ علیہاالسلام سے فرمایا۔

حضرت ہاجرہ علیہاالسلام سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے، حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہی تھیں جنہیں آپ مکہ معظمہ کے چٹیل میدانوں میں بحکم خداوندی چھوڑ گئے تھے، اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام گود میں تھے ۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد مکہ معظمہ ہی میں آباد ہوگئی تھی،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جداعلی حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی ہیں۔

حضرت سارہ علیہا السلام کے بطن مبارک سے حضرت اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے ان کی اولاد کنعان ہی میں مقیم تھی، حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند یعقوب علیہ السلام تھے، جن کا لقب اسرائیل تھا، اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ہے ”الله کا برگزیدہ بندہ“ یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ آپ کے بارہ بیٹے تھے، جب آپ کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں زمام اقتدار سنبھالی تو سب بھائی کنعان سے مصر چلے آئے اور حضرت یوسف کی وفات کے بعد بھی وہیں آباد رہے، اگرچہ انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا، پشتہاپشت وہاں رہنے سے بارہ بھائیوں کی اولاد بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو چکی تھی، ان کی تعداد چھے لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔

چوں کہ یہ لوگ مصر کے اصل باشندے نہیں تھے، اس لیے وہاں کے مقامی باشندے ”قبطیوں“ نے انہیں بری طرح غلام بنا رکھا تھا، بیگار میں پکڑ لیتے، ظلم وستم کا پہاڑ توڑتے، حتی کہ ان کے لڑکوں کو ذبح کر دیتے، بنی اسرائیل کے پاس ان مظالم کا جواب سوائے رونے دھونے کے کچھ نہ تھا۔

حضرت موسی علیہ السلام کی بعثت اور دعوت
ان حالات میں الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان فرماتے ہوئے ان میں حضرت موسی علیہ السلام کو رسول بنا کر مبعوث فرمایا، جنہوں نے فرعون کو توحید کی دعوت پیش کی اور بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے سے روکا، فرعون لسانِ نبوت پر کان دھرنے کے بجائے مخالفت پر اتر آیا۔

بالآخر حضرت موسی علیہ السلام راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر مملکت فرعون سے نکلنے کی غرض سے چل کھڑے ہوئے ، فرعون کو خبر ہوئی تو وہ بھی لشکر لے کر آپ کے تعاقب میں چل پڑا۔ اتنے میں بنی اسرائیل ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سمندر تھا، دھول اڑاتا ہوا فرعونی لشکر تھا۔

الله تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی عصا مبارک سمندر پر ماری جس سے سمندر پھٹا اور مختلف راستے بن گئے ، بنی اسرائیل ان راستوں پر چل کر بسلامت گزر گئے، ان کے دیکھا دیکھی فرعون نے بھی اپنا لشکر سمندر میں اتار دیا، جب درمیان میں پہنچا تو سمندر مل گیا اور فرعون اپنے لشکریوں سمیت غرق آب ہو گیا۔

بنی اسرائیل وادی تیہ میں
سمندر پار کرنے کے بعد اپنے آبائی علاقے میں جانے کے لیے رختِ سفر باندھا ،آبائی علاقہ زیادہ دور نہیں تھا، لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو ستانے اور اذیت دینے کی وجہ سے چالیس سال یہ وادی تیہ میں صحرائی بگولوں کی طرح سرگرداں رہے ( صبح کو جہاں سے چلتے شام کو وہیں پہنچ جاتے)، جب موسی علیہ السلام جبل طور پر توریت شریف لینے گئے تو انہوں نے پیچھے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی، علاوہ ازیں عجیب وغریب مطالبے شروع کر دیے مثلاً الله تعالیٰ کو اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ نہ لیں۔ الله تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی غذا من وسلوی کے متعلق کہنے لگے کہ ہم ایک ہی چیز پر صبر نہیں کرسکتے ہمیں سبزی ، پیاز ، کھیرا چاہیے۔ اسی طرح کے مختلف واقعات اسی وادی میں پیش آئے، حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کے زمانہ میں ان کا علاقہ فتح ہوا اور بیت المقدس میں داخلہ نصیب ہوا۔ واضح رہے کہ بنی اسرائیل کو یہودی بھی کہا جاتا ہے۔

یہودی مدینہ میں کب آئے
اس بارے میں مؤرخین کی رائے یہ ہے کہ جب بخت نصر ظالم اورکافر بادشاہ نے بیت المقدس پر حملہ کرکے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو یہودیوں کی ایک جماعت نے حجاز کا رخ کرکے وادی القری اور تیماء اورمدینہ منورہ میں ڈیرہ ڈال دیا، یہاں پہلے سے بنی جرہم اور عمالقہ کے کچھ لوگ آباد تھے، جنہوں نے کھجوروں کے باغ اور زراعت کا پیشہ اپنا رکھا تھا، یہودی ان کے ساتھ گھل مل کے رہنے لگے، جب آبادی بڑھی اور غلبہ حاصل ہوا تو مقامی آبادی کو باہر نکال کر ان کی املاک اپنے زیر تسلط کر لیں، اسی حال میں یہ لوگ مدینہ منورہ میں مقیم رہے۔ ( فتوح البلدان للبلاذری،ص:229)

بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھاہے کہ یہودی علماء نے توریت شریف میں حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے متعلق پڑھ رکھا تھا کہ آپ ایسے شہر کی طرف ہجرت فرمائیں گے جہاں بکثرت کھجوروں کے باغ ہوں گے اور وہ شہر دو پتھریلی زمینوں کے درمیان ہو گا چناں چہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت اس شہر کی تلاش میں نکلی مدینہ منورہ پہنچ کر جب اس کی جغرافیائی کیفیت دیکھی تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہی وہ شہر ہے جہاں آپ صلى الله عليه وسلم ہجرت فرمائیں گے ۔ (معجم البلدان للحموی:5/82)

واضح رہے کہ ہجرت سے قبل مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا، بعد میں مدینة الرسول ، طیبہ وغیرہ کے ناموں سے معروف ہوا۔

اوس وخزرج مدینہ میں
یہودیوں کے بسنے کے سالہا سال بعد یمن کے دو بت پرست قبیلے ”اوس“ و”خزرج“ بھی وہیں آکر آباد ہو گئے، جب آپ صلی الله علیہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تومجموعی طور پر وہاں تین قبیلے یہودیوں کے یعنی۔ ۱ بنی نضیر،۲۔ بنی قریظہ۳۔ بنیقینقاع اور دو قبیلے یمن کے ”اوس“ و”خزرج“ آباد تھے، انہوں نے تو اسلام قبول کر لیا اور انصار مدینہکے نام سے معروف ہوئے ، لیکن یہودیوں نے من حیث المجموع اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آگے آنے والی آیات میں انہیں کو دعوت حق دی گئی ہے۔

ایک شبہ او ر اس کا ازالہ
ممکن ہے یہاں کسی کو شبہ ہو کہ ان آیات میں مخاطب تو وہ لوگ ہیں جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے، لیکن و اقعات وہ بیان کیے جارہے ہیں جو سینکڑوں اور ہزاروں بر س قبل ہوئے تھے، مثلاً تم نے بچھڑا بنایا، ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کیا۔ کیوں کر درست ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کہ خطاب کبھی شخصی حیثیت سے ہوتا ہے اور کبھی قومی حیثیت سے ان مقامات میں خطاب شخصی حیثیت سے نہیں بلکہ قومی حیثیت سے کیا جارہا ہے لہٰذا اس طرح کے خطاب میں کچھ شبہ نہ ہونا چاہیے۔

ایک قادیانی کا فریب استدلال
حضرت مولانا حبیب احمد کیرانوی رحمہ الله تعالیٰ ایک قادیانی کے فریب استدلال کا پردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جب غلام احمد قادیانی مدعی نبوت نے اپنے یہ جھوٹے الہامات شائع کیے کہ خدا نے محمدی بیگم سے میری شادی کر دی ہے اور وہ ہر مانع کو دور کرکے میرے نکاح میں آوے گی اور ناممکن ہے کہ خدا کا وعدہ ٹل جاوے وغیرہ وغیرہ اور نتیجہ یہ ہوا کہ غلام احمد مر گیا اور محمدی بیگم کی صورت بھی نصیب نہ ہوئی، نکاح میں آنا تو درکنار ۔ تو مسلمانوں کی طرف سے قادیانیوں پر اعتراض کیا گیا کہ اگر تمہارے نبی سچے تھے تو یہ الہامات جھوٹے کیوں ہوئے؟ اس کے جواب میں خلیفہ نور الدین نے اپنی خلافت کا حق ادا کرتے ہوئے یہ کہا کہ بسا اوقات خطاب ایک شخص کو ہوتا ہے اور مراد دوسرا ہوتا ہے … جیسا کہ یا بنی اسرائیل میں خطاب ان بنی سرائیل کو ہے جو جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اورمراد ان سے اگلے آباؤ اجداد ہیں ، اس طرح جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں۔ حالاں کہ فارس وروم خلافت حضرت عمر رضی الله عنہ میں فتح ہوئے، پس ان الہامات میں مرزا غلام احمد قادیانی سے ان کی اولاد مراد ہے او رمحمدی بیگم سے خود محمدی بیگم یا اس کی کوئی اولاد مراد ہے ۔ اور مطلب یہ تھاکہ تمہاری اولاد سے محمدی بیگم یا اس کی کسی اولاد کی شادی ہوئی، لہٰذا یہ الہامات جھوٹے نہیں۔

لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے یہ جواب محض لغو ہے، کیوں کہ اول تو یہ مجاز ہے او رمجاز کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے ، قرآن وحدیث میں قرائن موجود ہیں اور مرزا کی وحی میں اس مجاز کا کوئی قرینہ نہیں تھا، کیوں کہ مرزا عمر بھی یہی سمجھتا رہا کہ خود میری شادی خاص محمدی بیگم سے ہو گی اور وہ اسی تمنامیں مر گیا۔

دوسرا یہ کہ یہ قاعدہ ہر فعل میں صحیح نہیں کہ یوں کہا جائے کہ میری فلاں عورت سے شادی ہوئی اور مراد لیا جائے کہ میرے بیٹے کی اس کی بیٹی سے شادی ہوئی، اس کینظیر کسی جگہ ہو تو دکھلائی جاوے او راگر اس قاعدے کو کلیہ تسلیم کیا جاوے تو پھر قادیانیوں پر یہ اشکال ہو گا کہ جن الہامات میں مرزا کو نبی یا رسول، یا چنیں وچناں کہا گیا ہے، ان میں اس کی کیا دلیل ہے کہ خود مرزا مراد ہے، شاید وہاں بھی اس کی کوئی اولاد مراد ہو ۔ اگر اس کا وہ جواب دیں کہ مرزا نے ان سے ایسا ہی سمجھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا نے نکاح کے متعلق بھی یہی سمجھا کہ خود میرا نکاح ہو گا، نہ کہ میری اولاد کا، اگر وہاں فہم مرزا حجت ہے تو یہاں بھی ہونی چاہیے او راگر یہاں حجت نہیں تو وہاں بھی نہ ہونی چاہیے۔ آخر وجہ فرق کیا ہے ؟

اگر ان اعتراضات کا جواب کسی قادیانی کے پاس ہو تو ہم سننا چاہتے ہیں۔“ (حل القرآن، البقرہ، تحت آیہ:47)

﴿وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآیَاتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً وَإِیَّایَ فَاتَّقُونِ، وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون﴾․(سورہ البقرہ: 41 تا42)

ترجمہ:” اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے، سچ بتانے والی ہے، اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے او رمت ہو سب میں اوّل منکر اس کے اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا اور مجھ ہی سے بچتے رہو اور مت ملاؤ صحیح میں غلط او رمت چھپاؤ سچ کو جان بوجھ کر“۔

تفسیر
﴿وَلاَ تَکُونُواْ أَوَّلَ کَافِرٍ بِہ﴾… اس آیت کی تفسیر سمجھنے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ یہودی اہل کتاب تھے او ران کے علمی رعب کی دھاک پورے بلاد عرب میں چھائی ہوئی تھی ، انہوں نے توریت میں موجود آپ صلى الله عليه وسلم کی صفات مبارکہ کی بدولت آپ صلى الله عليه وسلم کی شخصیت ورسالت سے اچھی طرح واقفیت حاصل کر لی تھی، ان کے مقابلے میں نصاری بھی اہل کتاب تھے، لیکن تا حال ان تک دعوت حق نہیں پہنچی تھی، اس لیے یہودیوں کے لیے یہ بہترین موقع تھا کہ ایمان کی دولت سے دامن سمیٹ کرالسابقین الأولین کی صف میں کھڑے ہو جاتے، لیکن ان کی کج فطری کی انتہا دیکھیے کہ انہوں نے کافرانہ روش میں پہل کر کے اپنی بدنصیبی کے سارے دروازے کھول لیے، اس آیت میں ان کی اس روش پر تنبیہ کی گئی ہے۔ (جاری)
Flag Counter