رمضا ن کے بعد کی زندگی
مولانا محمدحذیفہ وستانوی
اللہ نے زندگی او ر مو ت کو اپنے قبضہٴ قدر ت میں رکھا ہے اور یہ بندوں پر اللہ کا فضل اور رحمت ہے ، ہمیں اللہ کا شکر ادا کر نا چا ہیے کہ رمضا ن جیسا با بر کت مہینہ عطاکیا اور اس کے بعد کی زندگی سے مالا مال کیا، ورنہ کتنے ہی لوگ رمضا ن میں اللہ کو پیا رے ہو گئے ، کتنے ہی ایسے ہیں جو رمضا ن کے بعد چل دیے ، مگر ہم ہیں کہ اللہ نے بغیر کسی استحقا ق کے زندگی عطاکی ۔یہ زندگی عیش وعشرت او ر وقت گز ا ری کے لیے نہیں ہے ، بلکہ یہ زندگی مو ت کے بعد کی زندگی کی تیا ری کے لیے ہے ۔
اب ہمیں غو ر کرنا چا ہیے کہ ہم نے اس ابد الآ با د کی زندگی کے لیے کیا تیار ی کی ہے ؟کیا صر ف رمضا ن المبار ک میں قر آ ن کی کثر ت تلا و ت اور نما ز کا اہتمام ہما ری نجا ت کے لیے کا فی ہے ؟یا اس طویل زندگی کے لیے طویل جدو جہد لا زم ہے ؟اللہ کادستو ر یہ رہا ہے کہ انسا ن جتنی محنت کرے گا اسی کے بقدر اجر حاصل کر ے گا ، مگر افسو س ہم مسلما نوں پر!…دشمنا ن اسلام اوراعدائے دین کے جالوں میں ہم ایسے پھنس گئے کہ الا ما ن و الحفیظ!! دنیا داری اور آخر ت فرامو شی ہما رے معاشر ے میں عا م ہے ۔ غر ض کہ ہمارا معاشرہ سا ل کا اکثر حصہ عبا دا ت اور سنتو ں سے اعراض کے سا تھ گز ارتا ہے ، نہ نما ز ، نہ سنن موٴکدہ کا اہتما م، نہ دیگر شر عی احکاما ت پر عمل در آ مد ۔ البتہ رمضا ن المبارک میں ایک طبقہ قدرے غیررمضا ن کے مقا بلے میں اسلا می احکا ما ت کی طر ف متو جہ ہو تا ہے ، مگر رمضا ن المبارک کے بعد پھر وہی روش، جیسے ہی عید کا چا ند نظر آ تا ہے فوراً شریعت کی مخالفت شرو ع ہو جا تی ہے ، بہت سے وہ لوگ جو رمضا ن میں نما ز کے پا بند تھے عشا کی نما ز ہی سے تر ک صلوٰة کا آغا ز کر دیتے ہیں او ر بس پھر پو چھنا ہی کیا عید کے لیے فضول خرچی اور زیب وزینت کی لیے شرعی احکا ما ت کی پا ما لی تو گویا ہما رے معاشر ہ کا معمو ل بن چکا ہے ۔
اب سو ا ل پیدا ہو تا ہے کہ :
کیا صر ف رمضا ن ہی میں ہم نما ز کے مکلف ہیں ؟ !
کیا صر ف رمضا ن ہی میں ہم اطاعت کے مجا زہیں ؟!
کیا صر ف رمضا ن ہی میں احیا ئے سنت ضر وری ہے ؟!
کیا صر ف رمضا ن ہی میں نیکی کرنے سے کا م بن جائے گا ؟!
تو آئیے! ہم اپنی اس غلط ر و ش کی اصلا ح کرتے ہیں ، رمضا نی کے بجا ئے ربانی بننے کی کوشش کر تے ہیں،اللہ ہماری مدد فر مائے اور ہمیشہ نیکی کی تو فیق عطا فر ما ئے ۔ آ مین یا رب العالمین․
جوشخص مو ت کے بعد کی زند گی پر یقین رکھتا ہو اور اس کا ایما ن ہو کہ یہ دنیا دائمی نہیں، بلکہ عا رضی ہے اور آخرت کی تیا ری کے لیے ہے ، یہا ں جیسا بو یا جائے گا ویسا کل قیا مت کے دن کا ٹا جائے گا تو وہ اس کی تیا ری میں مشغول ہو جا تا ہے اور وہ ہمیشہ کی زندگی ہے، لہٰذا اس کی تیار ی بھی ویسی ہی کرنا ہے ۔
”اما م فاکہی “نے” اخبار مکہ “ میں حضرت ابو ذر غفا ری کا ایک نصیحت آ میز خطاب نقل کیا ہے کہ ایک دن آپ کعبہ کے سہا رے کھڑے تھے، لوگو ں نے آ پ کو دیکھ لیا تو آ پ کے ارد گر د جمع ہوگئے ، آپ ان کی طر ف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے اے لوگو ! قر یب ہو جاؤ ایک ایسے مشفق بھا ئی کی طرف ،جو نصیحت کرناچا ہتا ہے۔ تو لوگ آپ کے ارد گر د جمع ہو گئے ، آپ نے ارشا د فرمایا کہ لوگو!کیا تم میں کوئی سفر کا اراداہ کرتا ہے ، تو اپنے سا تھ سفر کے بقدر توشہ کا انتظام نہیں کر تا ؟ اب ذرا غو ر کرو ! ذرا آ خر ت کے سفر پر کہ وہ کتنا طویل ہے؟ لہٰذادنیو ی سفر کی طر ح آخرت کے طویل و مدید سفر کی تیار ی بھی ویسی ہی ہو نی چا ہیے ۔ اہل کوفہ میں سے ایک شخص کھڑ ا ہو ا اور در یا فت کیا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جلیل القدر صحا بی! ہمیں سفر آ خر ت کی تیا ری کیسے کرنی چاہیے ؟ تو گویا ہو ئے :
”بڑ ی بڑی نیکی کا عز م کر و ، کیوں کہ مر نے کے بعد جو امو ر پیش آنے والے ہیں وہ بھی انتہا ئی عظیم و خطیر ہیں ، یو م الحسا ب بہت طویل ہو گا، لہٰذا اس کے لیے شدید گر میو ں کے طویل ایا م میں رو زے رکھو ، را ت کی تاریکی میں کم از کم رو زا نہ دو رکعت ہی پڑھ لیا کرو ،تا کہ قبر کی ظلمت اور تا ریکی سے نجا ت پا سکو ،بھلی با ت کہو اور بری با ت سے اجتنا ب کرو اور مسکین کو صد قہ دو، تاکہ قیامت کی سختی سے خلا صی حاصل کر سکو، دنیا میں صر ف دو کا مو ں میں اپنا وقت صرف کرو، رزق حلا ل کے حصو ل میں او ر آخرت کے لیے نیکی کرنے میں ، اس کے علاو ہ جو وقت بھی فضو ل یا گنا ہ میں خر چ کر و گے اس سے نقصا ن ہی اٹھاؤگے اور ثواب سے محرو م رہوگے ، جو کچھ دنیا میں کماؤ اسے یا تو اپنی اور اپنے اہل وعیا ل کی ضر ورتوں میں خر چ کرو یا صد قہ خیرا ت میں۔ اس کے علاوہ میں خرچ کرو گے تو نقصا ن اٹھا ؤ گے اور نفع سے محر و م رہو گے، اس کے بعدآپ نے ایک لمبی سا نس لی اور در د بھر ی آ و از نکالی تو لو گو ں نے پو چھا یہ کیا ہو گیا؟! تو جواب دیا ہمیں لمبی لمبی آ رزؤو ں نے غار ت کر دیا، دنیا میں انسا ن کے لیے دو ہی زما نے ہیں، زما نہ ٴ ماضی اورزمانہٴ مستقبل ، ماضی تو وہ جو ہاتھ سے نکل گیااور با قی تو وہ تیرے ہاتھ میں ہے، اس میں بھی دھو کہ دہی کے امکا نا ت زیا دہ ہیں ، اگرتو نے اپنے مستقبل کو نیکی میں مشغو ل کیا تو ، توکام یا ب اور بامراد ہوگیا اور اگر تو اس کو برا ئی میں مشغول ہو کر گزا رے گا تو میں نہیں سمجھتا ہو ں کہ تجھ سے زیا دہ محرو م القسمت اور کوئی ہو ، اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نعمتو ں سے مالامال کر ے اور نیکی اور کامیا بی ہمارے لیے مقد ر بنا دے ۔ “
یہ تھی حضرت ابو ذر غفا ر ی کی اثر انگیز نصیحت، ایک بار نہیں، بار بار اسے پڑ ھیے اور اپنے حال پر رحم کیجیے اور رمضا ن کے بعد بھی نیکی کے سلسلے کو بدستو ر جا ری رکھیے ۔
امام احمد بن حنبل کی خد مت میں ایک شخص خر ا سا ن سے سفر کر کے پہنچا اور در یافت کیا کہ” اے ابوعبداللہ! میں آپ کی خدمت میں خرا سا ن جیسے دور در ا ز علا قہ سے حاضر خدمت ہو ا ہو ں! محض اس لیے کہ آپ سے ایک سو ال کر و ں تو آپ نے فر ما یا : پو چھو کیا پو چھنا چا ہتے ہو ،تو دریا فت کیا، بندہ را حت کا مزاکب چکھتا ہے؟ تو جوا ب دیا، جب مر نے کے بعد اپنا پہلا قدم جنت میں رکھے گا ۔ “
معلو م ہوا کہ دنیا را حت طلبی اور عیش کوشی کے لیے نہیں، بلکہ مشقت آفر ینی اور سعی پیہم کے لیے ہے ۔
یہاں انسان راحت تلاش نہ کرے آخرت کی راحت کے لیے یہاں قربانیاں دے۔
تو اے میرے دینی بھائیو! صرف رمضان نہیں، ہماری پوری زندگی رمضان کی طرح گذرنی چاہیے۔ذکرو فکر ، دعاو مناجات ،نماز کی پابندی ، فرائض و واجبات کے اہتمام، قرآن کی تلاوت اور اس پر غور وفکر اور عمل کے ساتھ ہر گھڑی گذرنی چاہیے ۔حضرت مکحول فرماتے ہیں :جس میں چار خصلتیں پیدا ہو جائیں وہ کام یاب ہے ۔اور جو تین برائیوں کا عادی بن جائے وہ نا کام او رنا مراد ہے ۔جس کے پاس ایمان ہو اور وہ اللہ کی شکر گذاری کرے ، اس کے سامنے گریا وزاری اور کثرت استغفار کے ساتھ زندگی بسر کرے ،وہ کام یاب ہے ۔اور جس کی طبیعت میں مکرو فریب، بغاوت وسرکشی او راللہ اور بندوں کے ساتھ عہو دکی پامالی رچ بس جائے ،وہ برباد اور ہلاک ہو گیا ۔
عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں :اے لوگو ! تم سے پہلے جو لوگ تھے(صحابہ او ر تابعین )وہ فضول کام کو ناپسند کرتے تھے او روہ قرآن کی تلاوت، امر بالمعروف او رنہی عن المنکر او رکسب حلال ( او روہ بھی بقدر ضرورت) اس کے علاوہ ہر کام کو فضول گردانتے تھے او رکہتے تھے کہ کیا کراما ً کاتبین کے ہوتے ہوئے ہم فضول میں مشغول رہیں گے ۔(شعب الا یما ن بیہقی ، 5080، حلیة الا و لیا ء3/315)
امام اوزاعی فرماتے ہیں : ایک مر تبہ عمربن عبدالعزیز نے ہمارے نام ایک پیغام لکھ کر ارسال کیا ، جس میں لکھا ہو ا تھا ’‘ جو کثرت سے موت کو یاد کرے گا وہ دنیا کے قلیل سازو سامان پر راضی ہو جائے گااور جو سوچ سوچ کر گفتگو کرے گا وہ لا یعنی گفتگو سے محفوظ رہے گااور عمل زیادہ کرے گا۔“(احیا ء علو م الدین 111/3)
ابراہیم بن سلیمان فرماتے ہیں : میں سفیان ثور ی کی مجلس میں تھا کہ اچانک ایک شخص آیا او رآپ کے کپڑے گھور گھور کر دیکھنے لگا او رپھر پوچھنے لگا کہ یہ کپڑا کیسے بنا ہے؟توجضرت سفیان نے کہا کہ صحابہ فضول گفتگو کو ناپسند کرتے تھے۔( حلیة الا و لیا ء 65/7)
گویا حضرت سفیان نے اس شخص کے اس سوال کو بھی فضول گرداناکہ آپ کا کپڑا کیسا ہے؟اور ہمارا حال یہ ہی کہ ہر چیز کے بارے میں خواہ مخواہ پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ کا قلم کیسا ہے چپل کیسی ہے؟ وغیرہ ․․․․․․۔
بات در اصل یہی ہے کہ ان کے نزدیک آخرت کی جواب دہی کا تصور قوی تھا ،اس لیے اس سے وہ پوری زندگی معمولی معمولی فضول چیزوں سے بھی مکمل احتراز کرتے تھے اور وہی تصور آخرت آج ہم میں کمزور ہو چکا ہے۔لہٰذا ہم غفلت او رفضول کا ادراک ہی نہیں کرپاتے۔ اللہ ہمیں صحیح ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
حضرت عبد اللہ بن عمر کے تلمیذ خاص حضرت نا فع سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ کے استا ذ محتر م گھر میں کیسے وقت گز ا ر تے تھے ؟ تو نا فع نے کہا یا تو نما ز پڑھتے یا قر آ ن کی تلا و ت میں مشغول رہتے۔(طبقات ابن سعد 70/4) حضرت وکیع بن الجر اح کے بار ے میں ان کے سو ا نح نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ جب تک را ت میں دس پارے قر آ ن کی تلا و ت نہ کرلیتے نہیں سو تے تھے اور پھر را ت کے آ خر ی حصہ میں بیدا ر ہو کر تہجد میں طویل طویل قرأت کر تے ، اور پھر استغفار میں لگ جا تے ، یہاں تک کہ صبح ہو جا تی اور یہ ان کا سال بھر کا معمول تھا ۔(صفة الصفوہ 171/3)
یہ ہے اصل زندگی گز ار نے کا معیا ر کہ صر ف رمضا ن تک ان کی عبادتیں اور معمولا ت محدو د نہیں ہو تے تھے، بلکہ پور ا پور ا سا ل رمضا ن کی طرح گزر تا تھا، اللہ ہمیں بھی ایسی زندگی عطا فر مائے ۔ آ مین
ام المو منین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بلا نا غہ روزا نہ اشرا ق کی آ ٹھ رکعا ت کا اہتمام کر تی تھیں اور کہا کرتی تھیں ،اگر میر ے والدین بھی اشرا ق کے وقت قبر سے زندہ ہو کر آ جا ئیں، تب بھی میں اس کو تر ک نہیں کروں گی۔ (موطا مالک 153/1، الا ستذکا ر151/6 )
حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ما تے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں میا ں بیو ی کو ایک عمل کی نصیحت کی کہ جب تم بستر پر سو نے کے لیے آ ؤ تو 34 مر تبہ اللہ اکبر اور سبحا ن اللہ اور الحمد للہ 33,33 مر تبہ پڑھ لیا کرو ،تو وہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے ۔حضرت علی فر ما تے ہیں کہ جب سے میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن رکھا ہے تب سے آ ج تک (یعنی زندگی کے آخری ایا م تک) کبھی نہیں چھوڑا۔ تو سوال کر نے والے نے سو ا ل کیا کہ جنگ صفین کی را ت بھی ؟کہا ہاں ! اس دن بھی نہیں تر ک کیا ۔(بخار ی 6318، مسلم 2727)
یہ ہے اصل معیا ر زندگی کہ جنگ جیسے ہول نا ک عالم میں بھی اپنے وظیفہ اور معمول کو تر ک نہیں کیا اور ہم تو معمولی عذر کی وجہ سے فر ائض تک کو ترک کردیتے ہیں ۔ اللہ ہمار ی حفا ظت فر مائے ۔آمین
ام المو منین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فر ما تی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشا د سناکہ ”جو شخص دن را ت میں بار ہ رکعت کا اہتما م کرلے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کرتے ہیں۔ “تو فر ما تی ہیں کہ جب سے میں نے سنا ہے آ ج تک کبھی اسے تر ک نہیں کیا ۔ اس روایت کے را و ی حضرت عتبہ فر ما تے ہیں کہ جب میں نے حضر ت ام حبیبہ سے سنا آج تک کبھی نہیں تر ک کیا ۔ اور حضرت عمر و ابن اوس فر ما تے ہیں: میں نے بھی جب سے حضرت عتبہ سے سنا ہے کبھی تر ک نہیں کیا اور نعما ن بن سالم فر ما تے ہیں: میں نے جب سے عمر و بن او س سے سنا ہے کبھی نہیں تر ک کیا ۔ (مسلم 728)
اے میر ے مسلما ن بھائیو! ذرا غو ر کیجیے، ان کے یہا ں معمو لا ت اور وظا ئف کا کتنا اہتما م تھا کہ ایک چیز کسی سے سن لیتے تو پوری زندگی اس پر عمل کرتے ہمار ی طرح صر ف رمضا نی عبا دت نہیں کر تے تھے ، ہمیں بھی ایسا ہی کر نا چا ہیے ۔ اللہ ہما ری مدد کر ے او رتوفیق سے نوا زے ۔
سلف صا لحین میں سے کسی نے اپنی با ند ی فر و خت کر دی تو با ند ی نے دیکھا کہ جب رمضا ن قر یب آ یا تو وہ تیار ی کر نے لگے تو با ندی نے دریافت کیا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ انہو ں نے کہا رمضا ن کی تیار ی ۔ با ندی نے کہا کیا تم صر ف رمضا ن میں رو زے رکھتے ہو ؟ افسو س ہے میں ایسے لو گو ں کے پاس تھی جن کا پور ا سال رمضا ن کے طر ح گز رتا تھا ۔ مجھے ان ہی کے پاس لوٹا دو ۔ (لطا ئف المعارف ابن رجب ص378)
بعض اسلا ف کہا کر تے تھے پور ی زندگی رو زہ رکھو اور جب مو ت آ ئے تب افطا ر کرو ، دنیا و ی زندگی متقی کے لیے پورا رمضا ن ہے کہ وہ زندگی بھر خوا ہشا ت اور گنا ہو ں سے رو زہ رکھے، یعنی اجتنا ب کر ے اور جب مو ت آئے تو افطار کر ے، یعنی نیکی کے سا تھ رخصت ہو جا ئے ۔ (ایضا ً )
خلا صہ یہ کہ حضرا ت صحا بہ اور سلف صا لحین نے اسلا می تعلیما ت پر عمل کر نے میں صر ف رمضان پر اکتفا نہیں کیا ، بلکہ پا بندی اور مو اظبت کے ساتھ عمل در آ مد کیا۔ ہمیں بھی اگر واقعة ً آ خر ت کی فکر ہے اور اس با ت پر ایمان ہے کہ تمام تر کام یا بی کا مدا ر ﴿ادخلو ا فی السلم کا فة ً﴾پر عمل کرنے میں ہے یعنی مکمل طور پر بغیر کسی بیجا تا و یل اور بہا نہ باز ی کے اسلامی تعلیمات کو بجا لا نے میں ہے تو انہیں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا ، حضرت مالک بن انس کا ارشاد گرامی:”لن یصلح آخر ہذہ الامةالا بما صلح بہ اولہا․“کہ اس امت کے آخری دور کے لو گ بھی کام یاب و کا مر ا ن نہیں ہو سکیں گے مگر اسی طرز عمل سے ،جس سے پہلے (یعنی صحا بہ اور تابعین وغیر ہ ) کا م یا ب ہوئے ۔ حضرت مالک کا یہ قو ل بڑ ا معنی خیز ہے ،اس میں آ پ نے گو یا اشا رہ دیا کہ جس طرح دو ر جاہلیت گم راہی کے دلدل میں پھنسا ہو ا تھا اور اسلا می تعلیما ت پر خلوص و للہیت کے ساتھ عمل کر نے کی و جہ سے کام یاب ہو ا، بالکل ایسا ہی آخری دو ر میں بھی ہو گا کہ گم را ہی کا دور دورہ ہو گا اور جا ہلیت اپنے نئے روپ میں نمو دار ہو گی۔ جیسے اس دور میں جوا ، زنا ، شرا ب نوشی ، قتل و غا ر ت گری ، بداخلاقی ، نا انصا فی ، بے اعتدا لی ، دختر کشی ، کبر و عناد ، فسا د وسو د خو ری ، ما دیت پر ستی ۔ آج وہی چیز یں نئے لیبل اور نئے نئے نام سے عا م ہیں ، فیملی پلا ننگ اور سونوگرا فی کے بعد لڑ کی کی صور ت میں اسقا ط حمل گویا دختر کشی اور قتل اولا د کی نئی صور ت اور نیا نام ہے۔ انشو ر نش اور ملٹی لیو ل مار کیٹنگ ، نیٹ و ر ک ما رکٹینگ،لا ٹر ی وغیر ہ جوا کی نئی صورت اور نئے نا م ہیں۔ بینکنگ سو د کی نئی صور ت ، کمرشل انٹرسٹ وغیرہ سود کے نئے نام ہیں ۔دہشت گردی کے الزامات اور نیوکلر ہتھیار سے پاک دنیا کے بہا نہ، مختلف ممالک پر حملے ، قتل وغارت گری کی نئی صورت ہے۔
ماڈلنگ ، چیئر گرل وغیرہ زنا کی نئی صورتیں اور نئے نام ہیں۔ غرضیکہ عصر حاضرمیں دور جاہلیت کی تمام رسومات ِبد کا گویا احیا ہو چکا ہے ۔تو آپ نے فرمایا کہ تمہارے لیے کام یابی اسی میں ہے کہ تم صحابہ کے نقش قدم پر چلو ۔ اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہر طرح کے شرور و فتن سے ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں رسول اللہ اورصحابہ وسلف صالحین کے طرز عمل کو اختیارکرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اسلاف نے اپنے تجربات اورقرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات کہی ہے کہ ایک عمل صالح کے بعد دوسرے عمل صالح کی توفیق پہلے عمل صالح کی مقبولیت کی علامت ہے۔ تو گویا جو لوگ رمضان کے بعد بھی نماز ، تلاوت، ذکرواذکار اوراستغفار کرتے رہتے ہیں، ان کی رمضان کی عبادت عنداللہ مقبول ہو چکی اور جوسب کچھ ترک کر دے گویا اس کی مقبولیت مشکوک ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رمضان کے بعد بھی اعمال صالحہ پر استمراررہے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے ، تو سلف صالحین کے بیان کے مطابق:تجدید توبہہمیشہ استغفار اپنی طبیعت کے مطابق کسی نیک کام پر مداومت دعا کا التزام، خاص طور پر یہ دعا”اللہم اعنِّی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک “ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کو بھی ہمیشہ اس دعا کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھنے کی وصیت کی ہے۔سلف صالحین کے حالات ِ زندگی کا مطالعہ، جیسا کہ چند واقعات اوپر بھی بیان کیے گئے ۔ صالحین کی صحبت اختیار کر یں۔
اے میرے مسلمان بھائیو !کیا تم نے ”لیلةالقدر“کو نہیں پایااور تم اس میں اللہ کے سامنے روئے نہیں ؟ کیا تم نے رمضان میں قرآن کی تلاوت اور نماز کا اہتمام نہیں کیا ؟اب کیوں تم دوبارہ معاصی والی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہو؟ خدا را!اپنے اوپر رحم کرو اور معصیت سے اجتناب کرکے رمضان میں جیسی زندگی گذاری ویسی ہی زندگی گذارنے کی مکمل کوشش کرو ۔اللہ ہماری حفاظت فرمائے او راپنی پناہ میں لے لے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو صرف رمضان میں اللہ کی عبادت اور گیارہ ماہ اللہ کی نا فرمانی میں گذارتے ہیں۔آمین یا رب العالمین․