Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

7 - 17
اچھے لوگوں کی صحبت کے اثرات
	

مولانا سید عبدالله حسنی

نیک لوگوں کی صحبت کا اثر، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار کسی زمانے میں کسی سمجھ دار نے نہیں کیا او راگر کوئی شخص اس کا انکار کرے تو اس کی عقل میں فتور اور سمجھ میں کمی کی دلیل ہے ۔

بے عقلی کا دور
آج کل دور بے عقلی کا ہے ، اگر چہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دور عقل کا ہے ،لیکن اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ دور بے عقلی کا ہے ۔ کیوں کہ یہ دور جہالت کا ہے ، بس فرق یہ ہے کہ پہلے زمانے میں جو بے عقل ہوتا تھا وہ بھولا بھالا، سیدھا سادھا ہوتا تھا، جو جاہل ہوتا تھا وہ جاہل ہوتا تھا ،لیکن اس وقت کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ عقل مند ہو کر بے عقل ہے او رپڑھا لکھا ہو کر جاہل۔ یعنی پڑھے لکھے جاہل ، یا یوں کہہ لیجیے کہ جہالت اس زمانے میں پڑھ لکھ گئی ہے ۔ اور پہلے سادگی تھی، جو بیچارہ جاہل ہوتا تھا آپ نے بتا دیا ،معلوم ہو گیا، ماننے والا ہو گیا او راب یہ ہے کہ جانتے ہیں ، بتائیے ، مانتے نہیں تو حقیقةً نہ جانتے ہیں نہ مانتے ہیں، عجیب وغریب صورت حال ہے ، سب کو معلوم ہے کہ سگریٹ نقصان کرتی ہے او راس سے کینسر ہوتا ہے ، بڑی بڑی بیماریاں ہوتی ہیں، پھر بھی سگریٹ پی رہے ہیں، ان سے پوچھیے کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ سگریٹ نقصان کرتی ہے؟ کہیں گے سب معلوم ہے۔

اگر ہمارے اور آپ کے کان ہوں تو اندر سے آواز آتی کہ ہم بے عقل ہیں ، سننے والے کو ہنسی بھی آتی ہے تو ان سے کہیے اپنی بے عقلی دور کر لیجیے ، عقل مندوں کی صحبت میں بیٹھئے۔ تو اکثر لوگ سمجھتے نہیں ، عقل مند وہ ہے جو دین دار ہو ، اس سے زیادہ عقل مند کوئی نہیں ہو گا، جوجتنادین دار ہے وہ اتنا ہی زیادہ عقل مند ہے ، اتنا ہی زیادہ سمجھ والا ہے او راب تو یہ بات عیاں ہوتی جارہی ہے ۔

ایک علاقہ میں جانا ہوا، وہاں کچھ پروفیسروں کے لڑکے حفظ کر رہے تھے ، پوچھا کیوں اپنے لڑکوں کو حفظ کرارہے ہیں ؟ بتایا: حفظ کرنے کے بعد بچے بہت تیز ہو جاتے ہیں ۔ انجینئر بناؤ، ڈاکٹر بناؤ تو بہت اچھے بن جاتے ہیں ۔ قرآن مجید یاد کرنے سے دماغ کھل جاتا ہے ، لیکن یہ لوگ بھی بے عقل ہیں کیوں کہ انہوں نے قرآن کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنا لیا یہ کوئی اچھی بات تھوڑیٴ ہے ، اب حفظ اس لیے کرارہے ہیں کہ بچے کا دماغ اچھا ہو جائے اوراچھا ڈاکٹر، انجینئر بن جائے۔ قرآن مجید کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا مناسب نہیں ، قرآن مجید تو زندگی کے اند رانقلاب برپا کرتا ہے اور انجینئر کو، ڈاکٹر کو، بڑے سے بڑے سائنس داں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے، قرآن مجید پڑھ کر آپ کا بچہ انجینئر ، ڈاکٹر بن رہا ہے، بہت اچھا، میں اس کو منع نہیں کرتا، لیکن قرآن کو سمجھ کر ، سوچ بدل کر اور سوچ سمجھ کر پڑھیں تو اس کا فائدہ ہی کچھ اور ہو۔

صحبت کااثر
زبان خلق پر یہ بات جاری ہے کہ جیسی صحبت ہو گی ویسا اثر پڑے گا، جس کی صحبت میں رہے گا اس کے اثرات اس میں منتقل ہوں گے اور ماں باپ اپنے بچوں کو روکتے بھی ہیں کہ برے بچوں کے ساتھ مت جانا، کیوں روکتے ہیں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ بروں کے ساتھ جائیں گے تو برے ہو جائیں گے او راگر برے نہ بھی ہوئے تو بری شہرت ہو جائے گی او ربری شہرت بھی بری صحبت کا نتیجہ ہے اور برا ہونا بھی بری صحبت کا نتیجہ ہے ، ایسے ہی اچھوں کی صحبت میں رہے گا تو اچھا ہو جائے گا ،اس لیے صحبت نیک کی تلاش میں رہنا چاہیے او ربغیر صحبت کے آدمی کے اند رکمال بھی نہیں پیدا ہوتا، چاہے دنیا کا معاملہ ہو یا دین کا، کسی بھی فن میں چلے جائیے ۔، ڈاکٹر کو اس وقت تک اجازت نہیں جب تکHouse Job نہ کر لے، ایک سال اس کو ڈاکٹروں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر کی صحبت میں رہو تب جاکر ڈگری ملے گی ، 6 سال پڑھا، ڈگری نہیں ملی ، پہلے مریض دیکھو، ڈاکٹر کی سرپرستی میں تمہاری نگرانی کی جائے گی ۔ غرض کہ صحبت میں رہے تو ملا، دوسری طرف کہتے ہیں کہ صحبت کی ضرورت نہیں اسی لیے تو میں کہتا ہوں کہ بے عقل ہیں۔

صحبت کا مقصد اکثر وبیشتر یہ سمجھا جاتا ہے کہ کسی الله والے کی صحبت میں رہے ،بے شک یہ سب سے اچھی صحبت ہے۔ لیکن صحبت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گھر میں ماں باپ بھی اچھے ہوں او ردوست واحباب بھی اچھے ہوں او رمیاں بیوی بھی ٹھیک ہوں، کیوں کہ صحبت کے معنی ہیں ساتھ رہنا، سب سے زیادہ ساتھ کون رہتا ہے؟ میاں بیوی ساتھ رہتے ہیں اور بے تکلفی کے ساتھ رہتے ہیں تو ہونا یہ چاہیے کہ شوہر بھی اچھا ہو اور بیوی بھی اچھی ہو ۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے، اگر کوئی شادی کرتا ہے اور خود وہ امریکا میں، بیوی ہندوستان میں، نہ ملاقات، نہ صحبت تو اولاد تو نہیں ہو گی ، اس لیے کہ ملنا ضروری ہے ، آپ چاہے کتنا فلسفہ بگھاریں، چاہے کتنی باتیں بنائیں، تنہا محبت سے بھی کام نہیں چلے گا، انٹرنیٹ پر بیٹھ کر گفت گو کر لی اور ایک دوسرے کو دیکھ لیا، اس سے کیا ہو گا ، اولاد کے لیے صحبت ضروری ہے۔

جسم سے نسب چلتا ہے روح سے نسبت
ایک انسان کے ساتھ جسم ہے اور روح ہے ، جسم کے ساتھ جسمانی چیزیں وابستہ ہیں اور روح کے ساتھ روحانی چیزیں وابستہ ہیں، جسم سے نسب حاصل ہوتا ہے، روح سے نسبت حاصل ہوتی ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ نسب بھی صحیح ہونا چاہیے اور نسبت بھی ۔ میاں بیوی صحیح رہیں گے تو نسبت صحیح ہو گی لیکن دونوں کے آداب ہیں کہ نکاح صحیح ہو اور نکاح کی جو شرائط ہیں یعنی گواہ کا ہونا، اعلان ہونا وغیرہ، یہ شرائط پوری ہوں اور پھر میاں بیوی صحیح ہوں ، تن درست ہوں، پھر ان شاء الله اولاد ہو گی ، اس سے صحیح نسب چلے گا۔ لیکن اگر نکاح نہ کرے تو ظاہری طور پر سلسلہ تو چل رہا ہے، لیکن نسب منقطع ہو جائے گا۔ ایسے ہی نسبت حاصل کرنے کے لیے صحبت صحیح ہونی چاہیے۔ اور اگر ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اگر مرد صحیح ہے تو اس سے بیوی کو نسب ملے گا او رمرد الله والا ہے تو اس سے بیوی کو نسبت ملے گی، اس طرح دونوں چیزیں جمع ہو جائیں گی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اچھی بیوی لاؤ ،دین دار۔ تو اس سے تمہارا نسب محفوظ رہے گا او رپھر ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہتے ایک دوسرے جیسے ہو جائیں گے ، مرد کا اثر عورت پر آئے گا اور عورت کا اثر مرد پر آئے گا تو معلوم ہوا کہ میاں بیوی کو بھی اچھا ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ماں باپ کو اچھا ہونا چاہیے کہ ان کی صحبت میں بچے رہتے ہیں ، بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو ماں کی گود میں ہوتا ہے اور اس کے بعد باپ کے ساتھ رہنا ہوتا ہے، ماں باپ اچھے ہوں گے تو بچہ اچھا پروان چڑھے گا اس کی صحیح تربیت ہو گی ، باپ کے لیے بچوں کی تربیت کی فکر کو ایک صاع صدقہ کرنے سے بہتر بتایا گیا ہے پھر اگر اچھے دوست ہوں گے تو ان کی اچھائی منتقل ہو گی ۔ جو صحبت میں جتنا کامل ہو گا اس کی نسبت اتنی ہی قوی ہو گی اور تن درستی کے اعتبار سے جو جتنا کامل ہو گا اس کا بچہ اتنا ہیتن درست ہو گا۔ دونوں چیزیں ایسے ہی ساتھ چلتی ہیں ۔ تو روحانی اعتبار سے جو الله کے نیک بندے ہیں اگر آپ ان کی صحبت میں رہیں گے تو ان کی صحبت کے اثرات پڑ کر رہیں گے۔

صحابہ کا مقام صحبت رسول صلی الله علیہ وسلم کا نتیجہ
صحابہٴ کرام کو الله تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کی صحبت میں رکھا جو انسان کامل تھا ، کامل، مکمل او رمتمم اخلاق تھا، دوسروں کو کمالات سے سرفراز کرنے والا او راخلاق کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کرنے والا، اسی صحبت سے صحابہ میں نکھار آیا اور اسی کی برکت سے ان کو امتیازی مقام حاصل ہوا، جو صرف انہیں کے ساتھ خاص ہے ۔ اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ کی صحبت میں رہنے کے بعد اتنا اونچا مقام اس کو ملتا ہے کہ وہ مقام آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کے علاوہ کہیں مل ہی نہیں سکتا ، جیسے مسجد حرام ہے ، مسجد حرام میں جو نماز پڑھے ایک لاکھ کا ثواب ہے ، اسی طرح سے مسجد نبوی میں ، بیت المقدس میں ہزاروں نمازوں کا ثواب ہے ، لیکن اگر آپ اس مسجد میں نماز پڑھیں، یہاں بڑے بڑے مجاہدین او ربڑے بڑے الله کے ولی آئے ہیں، رہے ہیں اور پیدا ہوئے ہیں ، اب اگر آپ ایسا سوچیں کہ اس مسجد میں ہزار نماز کا ثواب مل جائے تو یہ ناممکن ہے او راگر کوئی ایسا کہتا ہے تو وہ جھوٹا ہے ، آج کچھ لوگوں میں ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں کہ فلاں مسجد میں نماز پڑھ لو تو وہ ہو جائے گا ۔ صرف تین مسجدیں ہیں جن میں غیر معمولی ثواب ملتا ہے ، ایسے ہی رمضان میں جو روزہ رکھیں گے، جوتلاوت کریں گے ، نمازیں پڑھیں گے اس میں اس کی بات ہی کچھ اور رہے ، ستر گنایوں ہی مل رہاہے، غیر رمضان میں اتنا نہیں مل سکتا چاہے پورا سال روزہ رکھیں، رمضان کے ایک روزے کے برابر پوری زندگی کا روزہ نہیں ہو سکتا، رمضان، رمضان ہے ، اسی طرح رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کی برابر کسی او رکی صحبت نہیں ہو سکتی، اسی لیے صحابہ کرام کو جو مقام حاصل ہوا ہے ، وہ دنیا میں نہ کسی کو حاصل ہوا ہے نہ ہو گا، ظاہر ہے رسول پاک صلی الله علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہے؟ تو اس کا اثر بھی یہ ہوا کہ ایک نظر میں صحابہٴ کرام کی کایا پلٹ گئی ، ان کی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا او رایمان وہاں پہنچ گیا جہاں بڑے مجاہدوں کے بعد ، بڑی مشقتوں کے بعد اور سیکڑوں رکعتیں نماز پڑھنے کے بعد او رہزاروں روزے رکھنے کے بعد پہنچتا ہے، وہ بھی بمشکل ، صحابہٴ کرام  کو وہ مقام ایک نظر سے مل گیا۔

انبیا کی صحبت کے لیے ایمان اوراولیا کی صحبت کے لیے اخلاص شرط
صحبت میں شرط ہے کہ اخلاص ہو، اگر اخلاص سے نہیں آئیں گے تو کچھ نہیں ملے گا۔ انبیا کی صحبت میں رہنے والوں کے لیے بس ایمان شرط ہے، آئے او رکہا ہم ایمان لائے الله پر ، آپ پر اور تمام چیزوں پر جن کا حکم دیا گیا ہے ، بس ان کاکام ہو گیا۔ لیکن اولیائے کرام کی صحبت میں رہنے کے لیے اخلاص شرط ہے اگر اخلاص کے ساتھ رہے گا تو فائدہ ہو گا ، اگر اخلاص نہیں تو چاہے ایک ہزار سال رہو تب بھی فائدہ نہیں اور بات یہی ہے کہ ان کی صحبت سے جوبات پیدا ہوتی ہے ، وہ دل اور دماغ کے اندر یقین کی کیفیت کا پیدا ہو جانا ہے ، اس لیے ایک تابعی نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ اگر تم صحابہ کرام  کو دیکھتے تو انہیں مجنون سمجھتے اور صحابہ کرام  تم کو دیکھ لیتے تو بے ایمان سمجھتے اور صحابہ کرام اتنے بے چین رہتے تھے دین کے کام کے لیے، اس پر عمل کرنے کے لیے کہ لوگ سمجھتے تھے کہ کیا ہو گیا ، نہ ان کو کھانے کی پروا ، نہ بیوی کی ، نہ بچوں کی ، نہ کسی چیز کی، بس وہ حکم بردار اور فرائض کی پابندی کرنے والے تھے، اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے تھے ۔ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ نکاح ہوا، بیوی کے پاس رات گزاری کہ جہاد کا اعلان ہو گیا، فوراً جہاد کو چلے گئے اور شہید ہو گئے ، ملائکہ نے انہیں غسل دیا او ران کا نام ”غسیل الملائکة“ پڑ گیا کہ ملائکہ نے آکر غسل دیا ، صحابہ کرام کا جو معاملہ تھا وہ صرف رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کی صحبت کا نتیجہ تھا۔ بہرحال صحبت کا اثر تو پڑتا ہی ہے ، اس لیے ہم کو ، آپ کو کسی کی صحبت میں رہنا ہے، اس کو چیک کرنا پڑے گا کہ وہ کیسا ہے؟

بیوی کیسی ہو؟
یہاں ہمارے نوجوان ہیں ،جن کی شادی نہیں ہوئی ہے ، انہیں شادی کرنی ہے ، چوں کہ بیوی کی صحبت میں سب سے زیادہ رہنا ہوتا ہے، اس لیے بیوی دین دار ہونی چاہیے ۔ لوگ شادی کرتے ہیں مال کی وجہ سے ، خوب صورتی کی وجہ سے او ربڑے گھرانے کی وجہ سے اور چوتھے نمبر پر دین دار ، دین دار عورت گھر میں آگئی تو ہر اعتبار سے مزے ہی مزے ہیں ، تم خوش رہو گے ، بچے جو ہوں گے وہ اچھے ہوں گے، اس لیے کہ بچے کو جو پہلے صحبت ملتی ہے وہ ماں کی ، پھر باپ کی ، تو ماں اچھی ہونی چاہیے، پھر باپ اچھا ہونا چاہیے ، ان دونوں کے اندر اگر دین داری ہے تو سب کچھ اچھا ہوجائے گا، پھر معاملہ آتا ہے استاد کا ، استاذ کو اچھا ہونا چاہیے ۔ اب یہ کوئی نہیں دیکھتا ، کوئی نہ بیوی دیکھتا ہے ، نہ کوئی استاذ کو دیکھتا ہے، بس پیسہ، شہرت اور ظاہری رکھ رکھاؤ، نتیجہ کیا ہے؟ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات اور دین دار بیوی کی علامت ہے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے محبت بڑھتی جاتی ہے اور اس کی دین داری کی برکتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔

ہم لوگ صحبت کا مطلب صرف یہ سمجھتے ہیں کہ الله والوں کے پاس چلے جانا، آپ کسی چیز کو اتنا خراب کر دیں، پھر اس کو لے جائیں کسی بڑے کاریگر کے پاس، اس کو ٹھیک کر دیجیے، جو چاہیں گے ملے گا تووہ جھنجلا جائے گا کہ آخر کتنی اصلاح کروں ؟ ٹھیک کرکے لاتے تو تھوڑا سا دیکھ لیتا اور کام ہو جاتا اور وہ چلنے لگتی اور آپ نے اس کو برباد کر دیا ، توڑ مروڑ کر یہاں وہاں ٹہلتے رہے اور غلط دوست بنائے، استاذ کی بے عزتی کی ،حرام مال کھایا، ساری غلطیاں کیں ، برسوں کا بگڑا ہوا دو دن میں کیسے ٹھیک ہو جائے گا؟ اس لیے ہمیں صحبت کا خیال شروع سے کرنا چاہیے ، پہلے بیوی اچھی ہونی چاہیے اور کسی کو اگر ماں باپ اچھے مل جائیں کیا کہنے”نور علیٰ نور“ او رگھر کا ماحول بھی اس کا اچھا ہو اورگھر میں خواتین بھی اچھی ہوں تو پھر کیا کہنے۔

حضرت ابوبکر اور عمررضی الله عنہما رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ایک جگہ افسوس میں بیٹھے تھے، پھر کہا چلو اماں کے پاس چلتے ہیں ،امّ ایمن حضرت رسول پاک صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں رہی ہیں او ربرکتیں حاصل کی ہوئی ہیں او رایسی بابرکت خاتون کہ جب انہوں نے ہجرت کی مکہ سے مدینہ ، اکیلے راستے میں پیاس کی شدت سے تڑپ گئیں، نام بھی ان کا بابرکت اور ہیں بھی برکت والی ، تو الله تعالیٰ نے ڈول آسمان سے بھیجا، لٹک کر نیچے آیا، اس میں سے انہوں نے پانی پیا ، پوری زندگی پھر انہیں پیاس ہی نہیں لگی ، ایسی بابرکت خاتون ہیں، تو دونوں گئے ان کی خدمت میں ، وہ رونے لگیں ، ابوبکر او رعمر نے کہا: اماں! کیوں روتی ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم تو بہت اونچے مقام پر ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو گئے، جنت کے اعلیٰ درجہ میں ہیں ، فرمایا: اس لیے نہیں رو رہی ہوں، پھر کیوں رو رہی ہو؟ میں اس لیے رو رہی ہوں کہ وحی کا سلسلہ بند ہو گیا ، وحی کی قیمت جانتی تھیں وحی کیا چیز ہے ؟ اس وجہ سے وہ حضرت امّ ایمن کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

ہمارے حضرت مولانا علی میاں ندوی کی والدہ ماجدہ بھی ماشاء الله کیا خاتون تھیں؟ الله تعالیٰ نے ان کو کیسا نوازا تھا؟ پورے گھر کے لوگ ان کے پاس جاکر بیٹھا کرتے تھے ، بیٹھتے ہی نہیں تھے ، ایک روحانی سکون ان کے پاس ملتا تھا ، کیوں کہ الله تعالیٰ نے وہ مقام ان کو عطا فرمایا تھا۔ ڈھائی بجے اٹھ جاتیں ، اشراق تک اپنے مصلے پر بیٹھی رہتی تھیں اور یہ معمول ان کا آخری دور تک 93 سال کی عمر تک تھا۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ وہ الله تعالیٰ کے سامنے روتی تھیں ،گڑ گڑاتی تھیں، خواب میں الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی زیارت ہوئی او ران سے براہ راست بیعت ہوئیں ، تو الله تعالیٰ نے بہت اونچا مقام ان کو عطا فرمایا تھا۔ تو ظاہر ہے کہ ان کے پاس بیٹھنا ، ان کی خدمت میں حاضر ہونا کتنی بڑی بات ہے ، ان کی خدمت میں بیٹھنے سے اثر پڑتا تھا، ہمارے حضرت مولانا  ان ہی کی صحبت میں رہ کر بڑے ہوئے۔

حدیث شریف میں آتا ہے کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ۔ کوئی چاہے مانے یا نہ مانے ، اصل میں یہ بات پوشیدہ ہے ۔ تو دیکھ لینا چاہیے کہ کس سے دوستی کر رہے ہو ، چیک کر لو کہ تمہاری دوستی کا رحجان کدھر، ہے، دل کس سے لگتا ہے ، کون ساتھی تمہارا زیادہ ساتھ دیتا ہے؟ اگر وہ اچھا ہے تو تم اچھے ہو ، اگر وہ برا ہے تو تم برے ہو ، لوگ آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ دوست ہے، مگر اس کے طریقے پر نہیں ہوں ، یہ جھوٹ ہے ، تم بیوقوف خود کو بھی بناتے ہو، دوسرے کو بھی بناتے ہو ۔ صحبت کا اثر تو پڑتا ہی ہے ۔ آدمی کی جیسی طبیعت ہوتی ہے ویسی ہی طبیعت والے سے مانوس ہوتا ہے ۔ جو الٹے سیدھے لوگ ہوتے ہیں، وہ الٹے سیدھے لوگوں کو فوراً پہچان لیتے ہیں، جو نیک لوگ ہوتے ہیں وہ نیک لوگوں کوپہچان لیتے ہیں ، اس لیے کہ جو جیسا ہوتا ہے ، ویسے ہی لوگوں کو ڈھونڈتا ہے۔

آپ چور کے ساتھ رہیں گے تو چوری نہ صحیح، ہیرا پھیری تو کریں گے ہی ، آپ جھوٹے کے ساتھ رہیں گے تو جھوٹ نہ صحیح، مبالغہ تو کریں گے ہی، کتنا ہی اپنے آپ کو بچائیں ، اس لیے اس بات کو طے کرنا چاہیے کہ ہم کو اچھوں کی صحبت اختیار کرنا ہے او راچھے لوگوں سے دوستی کرنا ہے ، علماء کی صحبت میں بیٹھنا ہے اور واقعی جن کے اند رکمال ہے ان کے پاس جاکر بیٹھیں، اب آپ صلی الله علیہ وسلم سے جو جتنا مشابہ ہو گا،جتنا زیادہ متبع سنت ہو گا ، اتباع کرنے والا ہو گا اتنی ہی زیادہ اس کی صحبت کا نفع او ربرکت بڑھتی جائے گی اورخوب سمجھ لیجیے اس کے اند رکرامتیں جتنی بھی ہوں اگر اتباع سنت نہیں ہے ، تو نہ برکت ہو گی ،نہ نفع او رنہ تاثیر۔

حد سے زیادہ تاثر اور عقیدت میں غلو باطل ہونے کی علامت
ایک بات او رسمجھ لیں، لوگ کہتے ہیں کہ ایک دم سے بھونچال آجائے، بھونچال کا نام تاثر نہیں ہے ، یہ بہت زیادہ متاثر ہونے کی علامت ہے ، بہت زیادہ اس میں نقص شامل ہوتا ہے ۔ حال یہ ہو گیا ہے کہ جنہوں نے کرامات دکھا دیں اس کے پیچھے چل دیے، انہوں نے یوں کیا تو یوں ہو گئے ، یوں کیا تو یوں۔ بدعتیوں کا یہی حال ہے ، ایک سب سے بڑے بدعتی پیر، جن کی کافی شہرت ہے ، ممبئی میں بیمار ہوئے تو ہسپتال میں بڑے بڑے سیٹھ ملنے آنے لگے ، ایک دن انہوں نے کہا کہ پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی  مجھ سے ملنے آنے والے ہیں میری عیادت کے لیے تو بڑے بڑے پیسے والے سیٹھوں کی عقلیں مار ی جاتی ہیں ، سب نے ہسپتال کی صفائی کروائی، عطر چھڑکے، ڈیکوریٹ کرکے لائن سے کھڑے ہوگئے کہ ابھی حضرت آئیں گے، ایک موٹر آئی، اس میں سے ایک سفید داڑھی، عمامہ باندھے ہوئے ایک صاحب اترے اور سیدھے اندر تشریف لے گئے اور دورازہ بند کر دیا گیا اور اس کے بعد دروازہ کھلا ہی نہیں ، ایک دو گھنٹے بعد خبر آئی کہ حضرت وہیں سے چلے گئے، واپس نہیں آئیں گے ، آپ لوگ جائیے ۔اس لیے کہ وہ داڑھی لگا کر، کاجل لگا کر، خوب فنکاری کرکے آئے تھے او راندر جاکر داڑھی اتار لی، چہرہ صاف کر لیا اور چلے گئے ۔ اور سارے لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے حضرت کا کتنا اونچا مقام ہے ، سجدے پر سجدے ہو رہے ہیں، ہاتھ پہ ہاتھ چومے جارہے ہیں! بس کیا کہنے، اس سے بڑا تو کوئی پیدا ہی نہیں ہوا ۔یہ سب تماشے ہیں ۔ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ تاثیر ہے ، یہ تاثیر نہیں ہے ۔ یہ عقیدت میں غلو اور بے جا غلط تاثر ہے ۔حضرت نے کہہ دیا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ، نماز بھی معاف ، وہ پیر نہیں پَیر ہوتے ہیں۔ اسی لیے سب پریشان ہیں کہ دو منٹ میں کام ہو جائے ، چمتکار دکھائیں، یہ سب کچھ نہیں، ابتاع سنت دیکھیے ،اچھے لوگوں کی صحبت اختیا رکی جائے، کیوں کہ جو جتنا متبع سنت ہو گا اتنی ہی تاثیر ہو گی ۔ ایک بڑے بزرگ عالم ربانی نے لکھا ہے کہ جو جتنا بڑا متبع سنت ہو گا وہ اتنا بڑا عالم بھی ہو گا۔اگر اس کا تعلق وہاں سے ہو گا تو علم کے سوتے پھوٹتے چلے جائیں گے ، وہ علم میں فائق ہوتا چلاجائے گا اور تاثیر بھی بڑھتی چلی جائے گی۔(جاری)
Flag Counter