پلاننگ او راسلام
مولانا محمد مبین سلیم
کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کا پروگرام بنانا، اہداف ومقاصد طے کرنے کے ساتھ طریقہٴ کار اور وسائل متعین کرنا، اس کے فوائد ونقصانات سے واقفیت ومعرفت کا م کو آسان ، محکم او رکام یاب بنانے میں اہم رو ل ادا کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے پلاننگ ومنصوبہ بندی کی ہر میدان میں بڑی اہمیت ہے ، خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، علمی ہو یا عملی ، دینی ہو یا دنیاوی، انتظامی ہو یا دعوتی۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں نے اسے مستقل بالذات فن کا درجہ عطا کر دیا ہے ، یونیورسٹیوں، مینجمنٹ کے اداروں، سرکاری محکموں میں اس کے نام سے مستقل شعبے قائم ہیں ، یہاں تک کہ پرسنالٹی ڈولپمنٹ وگھریلو زندگی میں بھی اس طریقہٴ کار کی تربیت ضرور سمجھی جاتی ہے۔ نیز یہ ایک با مقصد ترقی یافتہ منظم قوم کا شعار بھی ہے۔
پلاننگ عربی زبان میں
عربی زبان میں پلاننگ کو تخطیط کہا جاتا ہے ، اس کے معنی ہیں ، کسی کام کو انجام دینے کا منصوبہ وخاکہ تیار کرنا۔( ملاحظہ ہو: القاموس المحیط، مجد الدین محمد بن یعقوب( م:817ھ)358/2 دارالفکر، بیروت1983ء)
پلاننگ کی اصطلاحی تعریف
مستقبل میں سوسائٹی یا اس کی کسی ( اکائی) یونٹ کے عمل وسرگرمی کی ترقی کی شکل متعین کرنا اور اس کو انجام دینے کے لیے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کو بروئے کار لانا، مقاصد تک پہنچانے والے ضروری وسائل وذرائع کی تحدید کو منصوبہ بندی ( پلاننگ) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ یا درہے کہ یہ پلاننگ جامع وشامل بھی ہو سکتی ہے او رجزئی بھی ۔( دیکھیے: الصحاح فی اللغة والعلوم، مرتب: مرعشلی: ندیم واسامہ، ص:355، مادة خطط، دارالحضارة العربیة بیروت،1974ء)
یعنی کسی ایک حصہ کی بھی پلاننگ ہو سکتی ہے او رپورے کام کی بھی، اس طرح منصوبہ بندی وپلاننگ زندگی کے ہر پہلو ومرحلہ کے لیے ناگزیر ضرورت ہے۔
پلاننگ اور اسلام
اسلام زندگی کا مکمل نظام، محکم طریقہ، جامع منہج ہے، اس کی ہر تعلیم میں پلاننگ ومنصوبہ بندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے ، چناں چہ اگر خالق کائنات کے نظام کون ومکان پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت رواں دواں ہے ، جس میں نہ کوئی لچک ، نہ کوئی جھول ہے ﴿ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ھل تری من فطور، ثم ارجع البصر کرتین ینقلب إلیک البصر خاسئا وھو حسیر﴾․ (الملک:4,3)
تفسیری ترجمہ:” اے مخاطب! دیکھنے او رغو رکرنے والے ! رحمن کی پیدا کردہ چیز ( آفرینش) میں کوئی بے ضابطگی وفرق نہ دیکھے گا، دوبارہ نظر اٹھا کر دیکھ ، کیا کوئی شگاف ودراڑپاتا ہے!! پھر دوبارہ یکے بعد دیگرے نظر ( غور) کر، (ہر بار) نظر عاجز ہو کر واپس ہو گی ، اسے ( بے ضابطگی) کہیں نہ ملے گی “۔
ربانی منصوبہ
باری تعالیٰ نے خلقِ انسان سے پہلے اس کا منصوبہ تیار کیا اور وہی صحیح انداز سے پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے:﴿وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا﴾ ․
تفسیری ترجمہ:” او راس نے ہر چیز پیدا فرمائی، پھر مکمل منصوبہ بندی فرمائی ، اس طرح کہ ہر چیز کو صحیح انداز پر رکھا اور مقدر فرما دیا۔“﴿ وکان امر الله قدراً مقدوراً﴾․ ( الاحزاب:38) اور الله کا امر باضابطہ مقدر کر دہ ہے، جس میں نہ کو ئی کمی ہے ، نہ ہی کوئی عیب ، ارشاد ربانی ہے : ﴿إنا کل شیء خلقناہ بقدر وما امرنا إلا واحدة کلمح بالبصر﴾․ (القمر:50-49)
”حقیقت میں ہم نے ہر چیز پہلے سے طے شدہ منصوبہ سے پیدا کی ، ہمارا معاملہ وکام تو ایک دم میں پلک جھپکنے کی طرح ہوتا ہے ۔“ یعنی مقررہ منصوبہ وتقدیر کو وجود میں لانا ایک دم کا کام ہے ، جیسے آنکھ جھپکنے میں زیادہ دیر کی ضرورت نہیں ، اسی طرح ہمارے کام میں بھی کسی طرح کی دیر نہیں ہوتی ۔
ذرا چاند وسورج کے نظامِ محکم کا جائزہ لیجیے، یہی کیلنڈر وحساب کا ذریعہ ہے، اسی پر مختلف سائنسی شعبوں کا انحصارہے ، اگر اس محکم الہٰی سسٹم میں استقرار نہ ہوتا تو دنیا اور قوانین عالم کا استحکام کیسے ممکن ہوتا؟!
﴿ھو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نورا وقدرہ منازل لتعلموا عدد السنین والحساب ما خلق الله ذلک إلا بالحق یفصل الآیات لقوم یعلمون﴾․ ( یونس:5)
”وہی ہے جس نے سورج کو چمک دار اور چاند کو روشن بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ، تاکہ تم سالوں اور برسوں کی گنتی او رحساب کو جانو سمجھو، الله نے ( یہ سب نظام فلکی کو) صرف حق وتدبیر سے وجود بخشا ہے ، وہ سب نشانیاں ودلائل جاننے والے سمجھ دار لوگوں کے لیے تفصیلی طور پر بیان فرماتا ہے۔“
کائنات میں ہر چیز ایک محکم نظام ومنصوبہ بندی سے رواں دواں ہے ، تخلیق انسانی بھی الله تعالیٰ کی مکمل منصوبہ بندی کی علامت ہے ، ایک مؤمن کا ایمان اس وقت تک قابل قبول نہیں یہاں تک کہ وہ الله کی تقدیر پر ایمان لائے ، حدیث جبریل میں یہ الفاظ وارد ہیں ”وتؤمن بالقدر خیرہ وشرہ“․ (صحیح مسلم، کتاب الایمان ، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان)
قضا وقدرِ الہٰی اورانسانی منصوبہ بندی میں موافقت
تقدیر ( الہٰی منصوبہ بندی، ربانی پلان) پر ایمان لانے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انسان الله کی نازل کردہ شریعت ، احکام واعمال سے غفلت برتے، بلکہ اس پر فرض ہے کہ ربانی منصوبہ بندی وپلاننگ کی سنت سے استفادہ کرتے ہوئے اوامرِ الہٰی ، احکام شریعت، اسباب کام یابی کو پوری منصوبہ بندی وپلاننگ سے بخوبی انجام دے ، اخلاص ودلچسپی کا پاس ہو ، عمارت وخلافت ارض کے تمام اعمال ، مدد الہٰی سے منظم ومخطط ہوں ، فرمان نبوی ہے: ”عن علی رضی الله عنہ قال: کنا جلوسا مع النبی صلیی الله علیہ وسلم وممعہ عودینکت فی الارض، وقال: ” ما منکم من احد إلا قدر کتب مقعدہ من النار أو من الجنة․ فقال رجل من القوم : ألا نتکل یا رسول الله ؟ قال : لا، إعملوا، فکل میسر لما خلق لہ“․ (صحیح بخاری ، کتاب القدر، باب ﴿وکان امر الله قدرا مقدرا﴾ حدیث:6596و6605) حضرت علی رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپ کے ساتھ موجود چھڑی سے آپ صلی الله علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جہنم یا جنت کا ٹھکانہ لکھا جا چکا ہے ، ( اس فرمان پر موجود ) حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول الله ! کیا ہم اسی پر تکیہ نہ کر لیں ( پھر کام واسباب عمل کی کیا ضرورت؟ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے) آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں ( ایسا نہ کرو بلکہ) عمل کرو، ہر شخص کو جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے ، اسی پر آسانی مہیا کی جائے گی۔
مسلمان پر فرض ہے کہ وہ کام یابی حاصل کرنے اور نقصان وبرائی سے بچنے کے تمام اسباب واعمال کو اختیار کرے، اسی کے ساتھ اسے اس کا بھی یقین کامل ہوکہ یہ سب صرف الله کے حکم ومشیت سے ہی ممکن ہے ، وہ تو صرف اسباب واحکام شریعت پر عمل کرکے ایک عبادت ورضائے الہٰی کے کام میں مشغول ہے ، کام یابی وناکامی کے اسباب وعلل پر بھی محاسبہ کرتا رہے ، مسلسل کوشش میں لگا رہے ، نئے نئے طریقے او روسائل اختیار کرے، گناہوں ، غلطیوں پر ندامت وتوبہ واستغفار کا سہارا لے کر دوبارہ جستجو کرے او ربہتر سے بہتر منصوبہ تیار کرے، پھر دوبارہ عمل پیہم کو اپنا شیوہ بنائے۔ قاعدہ ہے کہ مصائب پر قضا وقدر سے دلیل وصبر حاصل کیا جاتا ہے ، نہ کے عیوب و گناہوں پر ، بلکہ ان سے تو فوراً توبہ واستغفار کا حکم ہے۔
یہ معتدل ومتوازن عقیدہ مایوس کن حالات میں امید کی کرن، مقابلہ کے وقت عزیمت، خطرہ کے وقت بہادری ، پریشانی ومصیبت کے وقت صبر اور دنیاوی عزت میں فرقِ مراتب کے وقت اپنی حالت پر قناعت ورضامندی کے ساتھ نفسیاتی سعادت وسکون کا باعث ہو گا۔
تقدیر پر ایمان او رانسانی اعمال، حضرت عمر کی نظر میں
ذرا فقہ عمر کی گہرائی پر نظر ڈالیے، تقدیر الہٰی ( Inteeligent plan) اور انسانی اعمال کے نظریہ توازن پر غور کیجیے تو یقین ہو گا کہ دونوں ایک ہی سمت کی طرف رواں دواں ، مشیت الہٰی کے ارادوں کی تکمیل کا ذریعہ ہیں، دونوں میں نہ ہی کوئی تعارض ہے ، نہ ہی کوئی ٹکراؤ ، واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنہ ملک شام کے سفر پر تھے ، یہاں تک کہ جب آپ مقام سرغ پہنچے فوجی کمانڈرز ابوعبیدہ اور ان کے ان کے ساتھیوں نے اطلاع دی کہ ملک شام تووبا ( طاعون) سے دو چار ہے ، آپ نے مشورہ کیا کہ ایسی صورت میں کیا کرنا بہتر ہے ؟ مختلف آرا سامنے آئیں ، مہاجرین وانصار میں سے کچھ نے کہا کہ آپ جس مقصد کے وجہ سے آئے ہیں ، ا سے مکمل فرمائیں ، واپس نہ جائیں۔ کچھ نے واپسی کو بہتر بتایا، حضرت عمر نے پھرمہاجرین کے قرشی بزرگوں سے مشورہ کیا، سب نے متفقہ طور پر ایک ہی بات کہی کہ آپ سب لوگوں کے ساتھ واپس تشریف لے جائیں ، انہیں اس وبا میں نہ جانے دیں ، حضرت عمر نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کا اعلان کرادیا، اس پر حضرت ابوعبیدہ رضی الله عنہ نے کہا : ”أفرار من قدر الله؟“ کیا الله کی مقدر کی ہوئی چیز سے بھاگ رہے ہو ؟ اس پر حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا: اے ابوعبیدہ! کاش! یہ بات آپ کے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی ! پھر فرمایا:”نعم نفر من قدر الله إلی قدر الله“․ جی ہاں! ہم الله کی مقدر کردہ چیز سے اس کی ہی مقدر چیزکی طرف بھاگ رہے ہیں ، آپ کیا سمجھتے ہو کہ آپ کے پاس اونٹ ہوں ، پھر آپ ایسی وادی میں جائیں ، جس کے دو حصے یا گوشے ہوں ، ایک بہت سر سبزوشاداب، دوسرا چٹیل ، آپ سرسبز حصے میں چراؤ تو کیا، آپ الله کی قضا وقدر سے نہیں چراتے؟ ( صحیح بخاری، کتاب الطب ، باب مایذکر فی الطاعون)
اسی طرح کا ایک اور واقعہ آپ سے مروی ہے کہ چور نے اپنی چوری کی صحت پر قضا وقدر سے دلیل دی ”سرقت بقضاء الله وقدرہ“ تو آپ نے فرمایا: میں بھی تمہارے ہاتھوں کو قضا وقدر سے ہی کاٹ رہاہوں”وأنا أقطع یدک بقضاء الله وقدرہ“ صحابہ کرام کی یہ صحیح سمجھ، انبیائے کرام علیہم اسلام کی سنت سے ماخوذ ہے۔
تقدیر پر ایمان اورانبیاء علیہم السلام کی منصوبہ بندی
انبیائے کرام علیہم السلام نے تقدیر پر ایمانِ جازم کے ساتھ دعوت وتعلیم ، دینی ودنیاوی سرگرمیوں کو مکمل پلان، منظم منصوبہ بندی سے انجام دیا، آپ ان کے کسی کام میں ہیجانی کیفیت، اضطراب ، بدنظمی نہ پائیں گے، ہر ہر مرحلہ اور ہر ہر شعبہ میں وحی الہٰی کے زیرنگرانی پوری مستعدی ومنصوبہ بندی ان کی سنت وطریقہ تھا، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تک کی سیرت وتاریخ کو پڑھا جائے، کہیں کوئی بات اس کے خلاف نہ پاؤ گے۔
یہ نوح علیہ السلام ہیں، ان کی دعوت وصبر، مخالفوں سے مکالمات وگفت گو، کشتی کی صناعت، طوفانی موجوں پر سواروں کی تنظیم، سب پلاننگ ومنصوبہ بندی کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں ایک بہترین صبر وشکر کی مثال ہے ۔
ابراہیم علیہ السلام نے کس طرح پلاننگ ومنصوبہ بند طریقہ سے دعوتی فرائض انجام دیے ، پھر بتوں کو توڑنے ، مخالفوں سے بحث ومباحثہ میں اس کو کس حسن وخوبی سے عملی جامہ پہنایا؟ یہ وہ ہنر ابراہیمی ہے ، اس کا انکار مخالف کے پاس بھی نہیں !!
حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون جیسے ظالم وجابر بادشاہ کے نقشوں کو خاک میں ملا دیا، کیا الله پر بھروسہ، وحی کی نگرانی میں ایک بہتر منصوبہ وپلان کے بغیر یہ ممکن ہو سکا؟!
حضرت یوسف علیہ السلام کا سات سالہ اقتصادی پلان کسی سے مخفی نہیں ، پھر نظام امور خزانہ، بچپن کے خواب کی تعبیر کا منظرخود ایک اعلیٰ انتظامی صلاحیت او رمعیاری منصوبہ بندی کا واضح نمونہ ہے۔
آخری نبی، رحمت عالمین ، سید مرسلین، محمد صلی الله علیہ وسلم کی جامع، کامل ، تاریخی سیرت، تمام دعوتی، تعلیمی ، سیاسی ، اجتماعی ، اخلاقی سرگرمیاں منصوبہ بندی کی اعلیٰ معیاری مثالیں ہیں ۔ سری دعوت کے ابتدائی مراحل سے لے کر جہری دعوت کے تمام مراحل میں اس سنت الہٰی کا مکمل پاس ولحاظ ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو : السیرة النبویة، عرض وقائع وتحلیل واحداث ، از ڈاکٹر علی محمد صلابی، ج1، ص:100 تا319، دارالتوزیع والنشر الاسلامیة، القاھرة،الطبعة الاولی2001۔ السیرة النبویة فی ضوء القرآن والسنة، از محمد شھبہ، ج1، ص:291-283)
یہ منصوبہ بندی ایک ایسا نبوی عمل ہے جو زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے ۔ ہجرت نبی کی منصوبہ بندی خود ایک معجزہ سے کم نہیں ، اس پروجیکٹ کو آخری انجام تک پہنچانا، اسی طرح مدینہ پہنچ کر اعتقادی ودعوتی امور کے ساتھ قانونی وسیاسی منصوبہ بندی رہتی دنیا تک کے لیے نمونہٴ پلاننگ ہے۔ ﴿ لقد کان لکم فی رسول الله أسوة حسنة﴾ ( الاحزاب:21) ”الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم تم سب کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔“
ذرا دیکھیے کہ مہاجرین کے مسئلہ کو اقتصادی واجتماعی، رہائشی ومعاشی منصوبہ بندی ، اخوت کے ذریعہ کیسے بہ حسن وخوبی انجام دیا؟ ( سیرت ابن ھشام، ج1، ص:269) اور آج پوری دنیا میں مہاجرین کے مسائل کا جائرہ لیجیے !!
ایک ہی ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب وقبائل کے افراد کے درمیان امن وسلامتی ساتھ خوش گوار زندگی کا منصوبہ ، میثاق مدینہ کے ذریعہ کیسے مکمل فرمایا؟ ( ابن ھشام: ج1 ، ص:367)
مجموعی طور پر محمد صلی الله علیہ وسلم نے پختہ نبوی منصوبہ بندی کے ذریعہ فرد انسانی سے لے کر خاندان اور پوری سوسائٹی کو تبدیلی امم کے قوانین کی رعایت کے ساتھ جاہلیت سے نکال کر اسلامی نظام حیات میں شامل فرمایا، کیا قانونِ الہٰی، منہج انبیا، اسوہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم ہمیں پلاننگ، منصوبہ بندی، کام سے پہلے اس کا خاکہ تیار کرنے، نیز اسے مرحلہ وار صبر واحتساب سے انجام دینے کے لیے کافی نہیں ؟
یہ کوئی معقول بات نہیں کہ پوری کائنات تو پلاننگ ومنصوبہ بند طریقے سے چل رہی ہو صرف اسلامی سوسائٹی نظام وجود سے خالی رہے ، افراتفری، بدنظمی، بے اصولی وانتشار کا شکار رہے اور منصوبہ بندی جیسی نعمت عظمی سے محروم رہے، جو معاشرہ وملک کی چال کی درستگی کا پیمانہ ہے او رمحاسبہ کے ساتھ صحیح انجام تک پہنچانے کا واحد سبب ہے ۔ ( اثر التخطیط النبوی ص:28)
مذکورہ ربانی قوانین ، منہج انبیا اور اسوہٴ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منصوبہ بندی ، پلاننگ ، کام کرنے سے پہلے خاکہ ، پروجیکٹ سے پہلے نقشہ بنانا، پھر اسے روبہ عمل لانا، نیز درمیان میں محاسبہ واصلاح کے قوانین پر عمل کرنا امت مسلمہ پر اجتماعی وانفرادی دونوں اعتبار سے فرض ہے ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو منصوبہ بند طریقہ سے گزاریں، شریعت کی روشنی میں دنیا و آخرت کی کام یابی کا منصوبہ بنائیں ، خاندانی ادارہ کا منصوبہ ، بچوں کی تعلیم وترتیب کا منصوبہ ، معاشی واقتصادی منصوبہ، سیاسی وسماجی منصوبہ، قانونی منصوبہ الخ الغرض ہر کام کا منصوبہ ، اس کی پختگی ہی الہٰی احکام کی تنفیذ کے ساتھ دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود کا زینہ، نیز کام یاب عمل کی بنیاد ہے۔
قرآن کریم صراحت کے ساتھ اس کی دعوت دیتا ہے ، مثال کے طور پر ارشاد ربانی ہے:﴿واعدوا لھم ما استطعتم من قوة﴾․ (الانفال:60) تفسیری ترجمہ: ”تم سب اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق ان سے مقابلہ کی تیاری کرو ۔“ ﴿ وقل اعملوا فسیری الله عملکم ورسولہ والمؤمنون وستردون إلی عالم الغیب والشھادة فینبئکم بما کنتم تعملون﴾․ ( التوبة:105)
”آپ کہہ دیجیے! کام کرو،چوں کہ الله تعالیٰ، اس کے رسول اورمسلمان تمہارے کاموں پر نظر رکھے ہوئے ہیں ، پھر تمہیں حاضر وغائب کے جاننے والے کے پاس دوبارہ لوٹایا جائے گا، پھر وہ تمہارے کیے ہوئے کاموں کی خبر دے گا۔“
فرمان نبوی کا مفہوم ہے کہ:” طاقت ور مؤمن الله کو کمزور مؤمن سے زیادہ پسند ہے ، ہر ایک میں خوبی وبھلائی ہے ، جو تمہارے لیے مفید ہو اسی کو حاصل کرنے کا حرص کر واور اس کی کام یابی پر الله سے مدد حاصل کرو،ہار کر مت بیٹھو ، عاجزی کا بہانہ نہ بناؤ ، اس سب کوشش وجدوجہد کے باوجود اگر پھر بھی مصیبت پہنچ ہی جائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا ، اگر میں یوں کر لیتا تو یوں ہو جاتا، بلکہ یہ بولو: الله نے یہی مقدر فرمایا اور جو چاہا وہ کیا ، چوں کہ اگر کہنا شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔“ اس کی عربی نص یہ ہے:”عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: المؤمن القوی خیر واحب إلی الله من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر، احرص علی ما ینفعک، واستعن بالله، ولا تعجز وإن أصابک شیء فلا تقل لوانی فعلت کان کذاو کذا، ولکن قل: قدرالله وما شاء؛ فعل فإن ” لو“ تفتح عمل الشیطان“․ ( صحیح مسلم، کتاب القدر، باب فی الامر بالقوة وترک العجز، والاستعانة بالله، وتفویض المقادیرلله)․
اس طرح یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ کتاب وسنت کے مطابق منصوبہ بندی عمل پیہم ، جہد مسلسل، کار خیر، محاسبہ اورحتساب نفس فرد وملت پر اسلامی فریضہ ہے ، چناں چہ اسے چاہیے کہ اپنی ضرورتوں کو سمجھے اور دنیا وآخرت کی کام یابیوں کا خاکہ وپلان بنائے، پھرحکمت واستقامت کے ساتھ اس پر عمل کرے۔