Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

12 - 17
اصلاح قلب اور اس کی ضرورت
	

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ

قلب کی اول کھٹک پر عمل کرنا چاہیے
حدیث شریف میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”الا ان التقویٰ ھھنا، وأشار الی صدرہ“․ یاد رکھو! تقویٰ اس جگہ ہے اور اپنے قلب کی طرف اشارہ فرمایا ۔یعنی تقویٰ ( الله تعالیٰ سے ڈرنا) افعال قلوب سے ہے ۔ (التقویٰ ص:18) #
        کسی سے میں یہ کیوں پوچھوں تصوف کس کو کہتے ہیں
        خود اپنے دل کو دیکھا اور کہا کہ اس کو کہتے ہیں

حدیث شریف میں ہے ”استفت قلبک ولو افتاک المفتون“ (اپنے دل سے فتویٰ لو، اگرچہ مفتی بھی فتویٰ دے دیں) یعنی باطنی مفتی کے خلاف ظاہری مفتی کا قول نہ لیا جائے، بلکہ فتوے کے ساتھ اپنے دل کو دیکھو کہ وہ کیا کہتا ہے؟ ہاں! جہاں قلب شہادت دے دے وہاں بخوشی اجازت ہے ۔ (ارضاء الحق، ج:2، ص:42) حضرت! جب دل کو لگتی ہے اس وقت جواز کے سارے فتوے رکھے رہ جاتے ہیں اور اس وقت تک چین نہیں ملتا جب تک کھٹک کی بات کو دور نہ کیا جائے۔ مولانا محمد منیر صاحب نانوتہ میں ایک بزرگ تھے، ایک دفعہ ان کے ہاتھ سے مدرسہ دیوبند کی ایک امانت ضائع ہو گئی، سفر میں کسی نے چرالی اور رقم زیادہ تھی، انہوں نے فوراً مدرسہ میں اطلاع کر دی کہ وہ امانت میرے پاس سے چوری ہو گئی، لیکن میں ضمان ادا کروں گا۔ مدرسہ والوں نے چاہا کہ مولوی صاحب سے ضمان نہ لیں ،کیوں کہ ان کی دیانت پر پورا اعتماد تھا کہ انہوں نے قصداً حفاظت میں کوتاہی نہیں کی اور ایسی حالت میں شرعاً ان پر ضمان نہیں، چناں چہ ان سے کہا گیا تو انہوں نے اس کو منظور نہ کیا اورکہا مجھے بغیر ضمان ادا کیے چین نہ آئے گا۔ مدرسہ والوں نے مولانا گنگوہی سے عرض کیا کہ حضرت مولوی منیر صاحب  نہیں مانتے۔ مدرسہ کا ضمان ادا کرنا چاہتے ہیں ، اگر آپ فتویٰ لکھ دیں تو شاید مان جائیں، کیوں کہ مولانا گنگوہی کو سار ی جماعت بڑا مانتی تھی اور مولانا کے فتوے پر ہر شخص کو پورا اعتماد تھا۔حضرت  نے فتوی لکھ دیا کہ جب امین نے حفاظت میں کوتاہی نہ کی تو اس پر شرعاً ضمان نہیں ۔ مدرسہ والوں نے یہ فتوی مولوی منیر صاحب  کو لا کر دکھایا۔ حالاں کہ مولوی منیر صاحب  مولانا گنگوہی کا بڑا ادب کرتے تھے، مگر اس وقت یہ فتوی دیکھ کر ان کو بڑا جوش آیا اور ہم عمری کے سبب ناز کے لہجے میں کہا بس میاں رشیداحمد نے سارا فقہ میرے ہی واسطے پڑھا تھا اور اپنے کلیجہ پر ہاتھ رکھ کر دیکھیں ، اگر ان کے ہاتھ سے مدرسہ کی امانت ضائع ہو جاتی تو کیا وہ خود بھی اس فتوے پر عمل کرتے یا بغیر ادا کیے چین نہ ملتا۔ لے جاؤ، میں کسی کا فتوی دیکھنا نہیں چاہتا۔ حضرت ! انہوں نے نہیں مانا اور زمین بیچ کر، نامعلوم کس طرح مدرسہ کی رقم ادا کی، جب چین پڑا۔ ( ارضاء الحق ج:2 ص:40 معارف گنگوہی)

حضرت یہ کھٹک بھی ایک فرشتہ غیبی ہے جو حق تعالیٰ کی طرف سے آپ کو متنبہ کرتا ہے ، جب بار بار تم اس کو دباؤ گے تو وہ خاموش ہو جائے گا اور سخت بات ہے ، بعض لوگ ممکن ہے یوں کہیں کہ جب ہم نے قواعد شرع کے بموجب ایک کام کیا ہے تو پھر کھٹک پر توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے اور ان سے میں کہتا ہوں کہ شریعت کا ایک یہ بھی قاعدہ ہے ”الاثم ماحاک فی صدرک “ کہ گناہ وہ ہے جس میں تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو ، پھر تم نے اس قاعدہ پر عمل کیوں نہ کیا او رجب کسی عمل کے متعلق دل میں کھٹک پیدا ہوتی تھی ، اس کو کیوں نہ چھوڑ دیا ۔ ( ارضاء الحق ج2، ص:30)

قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ اول وہلہ (پہلی بار میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ میں ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہو جاتی ہے۔ ( انفاس عیسی ٰ ، ج1 ص:284) اس لیے قلب کی اول ہی کھٹک پر عمل کرناچاہیے۔

معصیت سے قلبی اور روحانی صحت برباد
جس طرح طب اکبر پر عمل نہ کرنے سے صحت جسمانی میں خرابی آتی ہے، اسی طرح احکام الہٰی پر عمل نہ کرنے سے قلبی اور روحانی صحت برباد ہو جاتی ہے ﴿ فان الجنة ھی الماویٰ﴾ قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ ناجائز فعل سے اول وہلہ میں اس کو جس قدر کراہت ونفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ ویسی نفرت نہیں ہوتی اور اس میں جوکھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہو جاتی ہے اور بار بار کے دبانے سے بالکل نکل جاتی ہے، جو قلب کے سیاہ ( بے حس او رمردہ) ہو جانے کی دلیل ہے کہ اب قلب کو گناہ سے الفت ہو گئی ہے، اس لیے کھٹک نہیں مگر یہ شخص سمجھتا ہے کہ مجھ پر حق واضح ہو گیا اور شرح صدر ہو گیا، اس لیے کھٹک موقوف ہو گئی، یاد رکھو! یہ حالت سخت خطرناک ہے۔ (ارضاء الحق، ج2، ص:28)

قلب کا زنا
حدیث میں ہے ”والقلب یزنی، وزناہ ان یتشھی“ یعنی قلب بھی زناکرتا ہے اور اس کا زنا خواہش کرنا ہے ( رفع الموانع ص:51) چناں چہ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرتے ہوئے اجنبیہ کا تصور کرے تو اسے زنا کا گناہ ہو گا۔( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: اشرف الاحکام جلد چہارم)

اعمال باطنہ کا محاسبہ
حدیث میں ہے کہ الله تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں پوشیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا اور دلوں کے پوشیدہ راز کھولے جائیں گے اور یہ کہ میرے کاتب اعمال فرشتے نے تو تمہارے صرف وہ اعمال لکھے ہیں جو ظاہر تھے او ر میں ان چیزوں کو جانتا ہوں جن پر فرشتوں کو اطلاع نہیں، ورنہ انہوں نے وہ چیزیں تمہارے نامہ اعمال میں لکھی ہیں اور وہ سب تمہیں بتلاتا ہوں او ران پر محاسبہ کرتا ہوں، پھر جس کو چاہوں گا بخش دوں گا اور جس کو چاہوں گا عذاب دوں گا پھر مؤمنین کو معاف کر دیا جائے او رکفار کو عذاب دیا جائے گا۔(قرطبی) ارشاد بارتعالیٰ ہے ﴿وان تبدوا ما فی أنفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ الله﴾ ․ (سورہ البقرة آیت:284)

ترجمہ: جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں اگر تم ( زبان وغیرہ سے) ظاہر کرو گے یا کہ ( دل میں ) پوشیدہ رکھو گے الله تعالیٰ تم سے حساب لیں گے۔ آیت مذکورہ میں جس محاسبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ ارادے او رمنتیں ہوں جوانسان اپنے قصد او راختیار سے اپنے دل میں جماتا ہے او راس کے عمل میں لانے کی کوشش بھی کرتا ہے، پھر اتفاق سے کچھ موانع پیش آجانے کی بنا پر ان پر عمل نہیں کرسکتا۔ قیامت کے دن ان کا محاسبہ ہو گا، پھر حق تعالیٰ جس کو چاہیں اپنے فضل وکرم سے بخش دیں او رجس کو چاہیں عذاب دیں۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ انسان پر جو اعمال الله تعالیٰ کی طر ف سے فرض کیے گئے ہیں یا حرام کیے گئے ہیں وہ کچھ تو اعضا ء ظاہری وجوارح سے متعلق ہیں نماز، روزہ، زکوٰة، حج اور تمام معاملات اسی قسم میں داخل ہیں اور کچھ اعمال واحکام وہ بھی ہیں جو ان کے قلب اور باطن سے تعلق رکھتے ہیں، ایمان واعتقاد کے تمام مسائل تواسی میں داخل ہیں اور کفروشرک، جو سب سے زیادہ حرام وناجائز ہیں ان، کا تعلق بھی انسان کے قلب سے ہے، اخلاق صالحہ، تواضع، صبر، قناعت، سخاوت وغیرہ، اسی طرح اخلاق رذیلہ، کبر ،حسد، بغض، حب دنیا حرص وغیرہ یہ سب چیزیں ایک درجہ حرام قطعی ہیں، ان سب کا تعلق بھی انسان کے اعضا و جوارح سے نہیں، بلکہ دل اور باطن سے ہے، اس آیت میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ کا حساب قیامت میں لیا جائے گا اسی طرح اعمال باطنہ کا بھی حساب ہو گا اور خطا پر بھی مؤاخذہ ہو گا، باقی وساوس اور غیر اختیاری خیالات جو انسان کے دل میں بغیر قصد اور ارادہ کے آجاتے ہیں بلکہ ان کے خلاف ارادہ کرنے پر بھی آتے رہتے ہیں ایسے غیر اختیاری خیالات اور وساوس کو اس امت کے لیے حق تعالیٰ نے معاف کر دیا ہے ، چناں چہ حدیث میں ہے ”ان الله تجاوز عن امتی عما حدثت انفسھا مالم یتکلموا او یعملوا بہ“۔ (قرطبی) یعنی الله تعالیٰ نے میری امت کو معاف کر دیا ہے وہ جوان کے دل میں خیال آیا، جب اس کو زبان سے نہ کہا یا عمل نہ کیا ہو ۔ ( تفسیر معارف القرآن، ج1، ص:291290)

اصل رونا دل کا ہے
میرے پاس بعض ذاکرین کے خطوط آتے ہیں کہ ہم کو رونا نہیں آتا، اس کا افسوس ہے۔ میں لکھ دیتا ہوں کہ تمہارا دل تو روتا ہے او رکیا چاہتے ہو؟ او راس کی دلیل یہ ہے کہ تم کو نہ رونے پر افسوس ہے ( فناء النفوس) ایک صاحب نے لکھا مجھے وعظ سن کر نہ رونا آتا ہے نہ ذکر وغیرہ میں خوف خدا ہوتا ہے، یہ سنگ دلی تو نہیں؟ اس پر جواباً تحریر فرمایا” رونا دل کا مقصود ہے، آنکھ کا نہیں، وہ حاصل ہے، دلیل اس کی یہ تاسف ہے ۔“ ( انفاس عیسی ، ج1، ص:106)

ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ اگر رونا ہی ولایت ہے تو رونا کیا مشکل ہے لاؤ ایک لاٹھی، مارنا شروع کروں ایک طرف سے، سب رونے لگیں گے۔ خوب کہا ہے #
        عرفی اگر بگریہ میسر شدے وصال
        صد سال مے تواں بہ تمنا گریستن

حدیث میں ہے ”ابکوا فان لم تبکوا فتباکوا“ یعنی رؤو اور اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بناؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ بکاء مقصود نہیں کیوں کہ ہر حال میں امر غیر اختیاری ہے او رایسا غیر اختیاری مقصود نہیں ہوتا، بس جس کو رونا نہ آتا ہو وہ رونے کی صورت ہی بنالے، یہ کافی ہے ۔( فناء النفوس)

ایک صاحب نے لکھا کہ قلب میں قوت انفعالیہ کا نام ونشان نہیں، صحبت مجلس سے بھی حالت میں کوئی تغیر نہیں ہوتا، اس لیے سخت خطرہ ہے کہ کہیں قائلین قلوبنا غلف یا ارشاد ولا یجاوز ضاجرھم (الحدیث) کا مصداق تو نہیں ہو گیا؟ فرمایا کہ جو لوگ اس کے مصداق ہوتے ہیں ان کو اس کے مصداق ہونے کا احتمال تک نہیں، بلکہ التفات تک نہیں ہوتا، یہی دلیل ہے اس کے مصداق نہ ہونے ۔ ( کمالات اشرفیہ ص:84)

دل الله تعالیٰ شانہ نے اپنی یاد کے لیے بنایا ہے
        دل گزر گاہ جلیل اکبر ست
اس کے معنی تو یہ ہیں کہ دل تجلی گاہ ہے حق تعالیٰ کا۔ لہٰذا اس کو غیر کی آلودگی سے بچاؤ، اپنے گھر میں دوسرے کے آنے کو کون پسند کرتا ہے؟ (الظاہر ص:50)
        دل بدست آور کہ حج اکبر است
        از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست

مگر جب دل میں غیر الله کی یاد بس جائے تو اس کی یہ حالت ہوتی ہے #
        دل جو دیکھا تو صنم خانہ سے بدتر نکلا
        لوگ کہتے ہیں کہ اس گھر میں خدا رہتا ہے

ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ دلوں کو بھی (کبھی ) زنگ لگ جاتا ہے ۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول الله ! او روہ کون سی چیز ہے جس سے دلوں کی صفائی ہو جائے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا موت کا زیادہ دھیان رکھنا اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا۔ ( رواہ البیھقی فی شعب الایمان)

حضرت ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ شیطان آدمی کے قلب پر چمٹا ہوا بیٹھا رہتا ہے، جب وہ الله کا ذکر کرتا ہے تو وہ ہٹ جاتا ہے او رجب وہ ( یا د سے) غافل ہوتا ہے وسوسہ ڈالنے لگتا ہے۔ ( بخاری شریف)

ابن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله انے فرمایا ،ذکر الله کے سوا بہت کلام مت کیا کرو ،کیوں کہ الله کے سوا بہت کلام کرنا قلب میں سختی پیدا کرتا ہے اور سب سے زیادہ الله سے دور وہ قلب ہے جس میں سختی ہو ۔ ( ترمذی)

حضرت عبدالله بن عمر پیغمبر صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شے کی ایک قلعی ہے اور دلوں کی قلعی الله کا ذکر ہے۔ ( بیہقی) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دلوں کی صفائی او رتزکیہ کے لیے ذکر الله کی کثرت کرنا چاہیے۔ بقول حضرت مجذوب  #
        میرے دل سیاہ کو انوار ذکر نے
        خورشید پُر ضیا کا مماثل بنا دیا

جمعیت قلب کون سی مطلوب ہے؟
سید الطائفہ حضرت حاجی امداد الله صاحب مہاجر مکی کے ہر معاملہ سے یہ بات معلوم ہوتی تھی کہ حضرت یہ چاہتے ہیں کہ جو غیر ضروری بات جمعیت قلب کے خلاف ہو اس کو ترک کر دو اور ایسی چیزوں سے اکثر منع فرماتے تھے۔ ( الافاضات الیومیہ ج3، ص:56)

جمعیت قلب جیساکہ زیادہ کھانے سے فوت ہوتی ہے ، کم کھانے سے فوت ہوتی ہے، زیادہ کھانے سے خطرات کا ہجوم ہوتا ہے، کیوں کہ معدہ کی تبخیر دماغ کی طرف عود کرتی ہے تو دماغ پریشان ہو جاتا ہے اور کم کھانے سے ہر وقت روٹیوں کی طرف دھیان رہتا ہے ۔ ( فناء النفوس)

حضرت ابو ذر رضی الله عنہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ دنیا کی بے رغبتی ( جس کا حکم ہے ) نہ حلال کو حرام (کرنے)سے ہے اور نہ مال کے ضائع کرنے سے۔ ( ترمذی وابن ماجہ) ف:۔ اس میں صاف برائی ہے مال کے برباد کرنے کی، کیوں کہ اس سے جمعیت جاتی رہتی ہے۔ ( حیٰوة المسلمین، روح دہم)

جمیعت قلب وہ مطلوب ہے جس میں اپنی طرف سے اسباب مشوشہ کو اختیار نہ کیا جائے، پھر اگر جمعیت حاصل نہ ہو تو یہ معذور ہے، میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں کہ جو تشویش قلب اختیار سے ہو وہی مضر ہے اور اگر بلا قصد واختیار تشویش ہو وہ کچھ مضر نہیں، مثلاً ایک شخص صاحب عیال ہے، اس وجہ سے دنیا میں مشغول ہے او را س کو کسی وقت یکسوئی نہیں ہوتی ، نماز وذکر میں بلا قصد واختیار وساوس مشوشہ آتے ہوں تو کچھ مضر نہیں اور یہ قاعدہ کچھ حدیث النفس کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ حدیث اللسان یعنی کلام لسانی میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ بلا ضرورت ایک کلمہ بھی نکالنا قلب کا ستیاناس کر دیتا ہے، مگر قلب پر ،چوں کہ طبیعت محیط ہے، اس لیے محسوس نہیں ہوتا، بخلاف اس کے اگر بضرورت تکثیر ہو تو کچھ بھی مضر نہیں، مثلاً ایک شخص پہرہ دینے پر نوکر ہے، وہ رات بھر ”جاگو جاگو“ کرتا ہے، اس سے نور قلب میں کچھ بھی کمی نہ آئے گی ، اسی طرح تحریر میں جب تک ضرورت کا مضمون لکھا جائے گا ضرر نہ ہو گا او راگر بے ضرورت ایک جملہ بھی لکھا گیا تو قلب کا ناس ہو جائے گا ، کیوں کہ تحریر بھی ایک نوع کا کلام ہی ہے۔

بہر حال کلام کی تین قسمیں ہیں: کلام نفسی کلام لفظی  کلام تحریری :

کلام تحریری میں تحریر کا مطالعہ بھی داخل ہے اس لیے ہر کتاب کا مطالعہ بھی جائز نہیں، غرض یہ کہ ہر ایک میں ضرورت کا درجہ مضر نہیں اوربلا ضرورت ایک جملہ کا تلفظ یا کسی بات کا سوچنا یا لکھنا مضر ہے، چناں چہ بعض کلام کو خوش نما بنانے میں سجع وغیرہ کا تکلف کرتے ہیں، چوں کہ یہ بلاضرورت ہے، اس لیے گویا اس میں تنبیہ ہے ہم کو عدم تکلف پر کہ دیکھو! جب ہم باوجود قدرت ، سجع کی رعایت نہیں کرتے حالاں کہ ہم کو تکلف نہیں کرنا پڑتا، تم کو بھی سجع کی رعایت نہ کرنا چاہیے، کیوں کہ تم کو تکلف کرنا پڑے گا اور بے ضرورت چیز کے لیے تم کو تکلف کرنا ہے۔ ( انفاس عیسیٰ ج1، ص:249,248)

حصول فراغ قلب کا طریقہ
قلب کو ہر وقت ماسواا لله سے فارغ رکھنا چاہیے ( یعنی دل کسی اور چیز میں لگا ہوا نہ رہے) ،یہ نہایت نافع ہے ۔ اس کے تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو بات اور جو کام ضروری ہو اس کو دیکھو نہ سنو، خواہ وہ چیزیں ماضی کے متعلق ہوں یا مستقبل کے ۔ ( انفاس عیسیٰ ج1 ، ص:261)

اصلاح قلب کا آسان نسخہ
کسی شیخ کامل کی صحبت اختیار کرے۔ اس سے اصلاحی تعلق قائم کرکے اس کے ارشادات پر عمل کرے ۔ ان شاء الله اس کی صحبت سے جلد قلب کی حالت میں تغیر محسوس ہو گا اور دل کی دنیا بدلنا شروع ہو گی۔ فی الحلال یہ دشوار ہو تو حضرت حکیم الامت تھانوی کے مواعظ حسنہ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرے۔ بہت نفع محسوس ہو گا ۔ مناجات مقبول سے چند دعائیں نقل کرتا ہوں اپنی دعاؤں میں ان کو بھی پڑھا کریں۔

اللھم مصرف القلوب، صرف قلوبنا علی طاعتک․ (مسلم ،نسائی)

” اے الله، دلوں کے پھیرنے والے! ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے“۔

اللھم ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی، ونور بصری، وجلاء حزنی، وذھاب ھمی“․ ( ابن احبان حاکم طبرانی)

” یا الله قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار او رمیری آنکھوں کا نور اورمیرے غم کی کشائش اور میرے فکر کا دفعیہفرمادے۔“

اللھم انا نسالک قلوبا اوّاھة مخبتة فی سبیلک” اے الله ہم تجھ سے مانگتے ہیں ایسے دل جومتاثر ہوں اور عاجزی کرنے والے ہوں اور رجوع کرنے والے ہوں تیری راہ میں۔“

اللھم ارزقنی عینین بذروف الدمع من خشیتک قبل ان تکون الدموع دما والاضراس جمرا․

”یا الله! مجھے آنکھیں برسنے والی نصیب فرما ،جو سیراب کریں دل کو، بہتے ہوئے آنسوؤں سے، تیرے خوف سے قبل، اس وقت کے کہ آنسوں خون اور ڈاڑھیں انگارے ہو جائیں۔“
Flag Counter