Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

4 - 17
صرف ارادہ نہیں ! عزم صادق کی ضرورت
	

تحریر: شیخ علی طنطاوی/ ترجمہ: محمد وصاف عالم ندوی

ایک نوجوان نے مجھے خط لکھا، اس کی تحریر سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ دین دار ہے او راس کے مزاج میں صلاح ہے۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ روزانہ صبح کو نماز کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، لیکن آنکھ نہیں کھل پاتی ہے۔ بیدار ہوتے ہوتے آفتاب نکل چکا ہوتا ہے او راس طرح روزانہ نماز فجر فوت ہو جاتی ہے، میں نے اس کو جواب دیا کہ آپ مصمم عزم نہیں کرتے ، اس لیے ہوتا ہے ۔ ورنہ اگر عزم مصمم ہو تو یقینا آپ بیدار ہو جائیں، میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ریڈیو پر جب وہ میرا جواب سنیں گے تو کہیں گے کہ میں رات کو پختہ ارادہ کرتا ہوں ، لیکن پھر بھی بیدار نہیں ہو پاتا۔ لیکن میں اپنے جواب پر قائم ہوں کہ آپ عزم کرتے نہیں اگر عزم حقیقی ہو تو یقینا آپ بیدار ہو جائیں۔ میری دلیل یہ ہے کہ اگر آپ کو شام ولبنان کی مفت سیاحت کی دعوت دی جاتی، مزید ہدیہ وتحائف کی خریداری کے لیے نقد رقم کا وعدہ بھی کیا جاتا تو کیا آپ انکار کر دیتے یا فوراً قبول کر لیتے ؟ ظاہر ہے کہ قبول کر لیتے ، پھر تسلیم کیجیے جس طیارہ سے سفر کرنا ہوتا اگر نماز فجر کے 15 منٹ بعد ہی اس کی پرواز ہوتی تو بتائیے آپ سفر کے لیے بیدار ہو جاتے یاپڑے سوتے رہتے اور کہتے کہ معاف کیجیے، میں اٹھ نہ سکا اور اس طرح سیاحت کا یہ موقع کھو دیتے؟؟

یقینا آپ بیدار ہو جاتے، آخر کیا بات ہے کہ سفر کے لیے آپ بیدار ہو جائیں او رنماز کے لیے آنکھ نہ کھل سکے؟ وجہ یہ ہے کہ سفر کے لیے آپ نے عزم کر رکھا تھا اور نماز کی بیداری کے لیے عزم نہیں بلکہ صرف اس کی نیت کی تھی۔

عزم صرف نیک ارادہ کا نام نہیں ہے، بلکہ ساتھ ہی اس کے وسائل کو اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔ تسلیم کیجیے کہ آپ نے مسجد میں نماز پڑھنے کا عزم کیا، لیکن نہ تو وضو کیا اور نہ ہی کپڑے پہنے ، نہ گھر سے باہر نکلے تو اس عزم کی آخر قیمت کیا ہے ؟ جو فجرکی نماز کے لیے بیدار ہوناچاہے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ عشاء کے بعد جلد سو جائے۔ اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ الارم گھڑی بھی بستر سے قریب مناسب جگہ پر رکھے ، مزید کسی سے صبح بیدار کرنے کی درخواست بھی کرے۔ جب یہ سارے اسباب اختیار کرے تو اس کو عزم کہا جاتا ہے، آپ نے جس طرح صبح کو سفر کے لیے عزم کیا ہے ، اسی طرح نماز کے لیے بھی عزم کریں تو پھر آپ کو اس طرح کے سوالات کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

میں دو باتیں کہا کرتا ہوں ، جن کا تعلق تجربہ سے ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ماہر نفسیات اس سلسلہ میں کیا کہتے ہیں ؟ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ علم النفس تجربات کے مجموعہ کا نام ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ عادت چاہے جس قدرپختہ ہو جائے اس کی تبدیلی ممکن ہے۔ دوسری بات یہ کہ تازہ عمل سے ایک نئی عادت کا آغاز ہوتا ہے، ہمیں اپنے ایک شناسا کے بارے میں معلوم ہے کہ الله تعالیٰ نے انہیں بے پناہ دولت سے نوازا ہے ، لیکن حساسیت بھی ان میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے او رمزاج میں نزاکت ونفاست بھی بہت ہے۔ ان کے شب وروز کے معمولات ہیں او رکھانے ، سونے، جاگنے کے اوقات متعین ہیں، حتی کہ ان کے کھانے پینے کی چیزیں بھی متعین ہوتی ہیں او رکھانے پینے کی اپنی ایک ہیئت اور نشست کے عادی ہیں۔ اگر ان کے کھانے کی نوعیت میں بھی کوئی تبدیلی ہو جائے یا ان کے سونے کے معمول میں ذرا فرق آجائے، حتی کہ ان کے تکیہ کی اونچائی میں ذرا فرق آجائے یا کھانے کی میز پر ان کی مخصوص کرسی کی جگہ بدل دی جائے یا ان کی چائے میں ذرا شکر کم یا تیز ہو جائے تو پورا گھر سر پر اٹھالیتے اور قیامت برپاکر دیتے ہیں۔

الله تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک بار کسی سیاسی مسئلہ کی لپیٹ میں آگئے او رجیل بھیجے گئے او رایک چھوٹے سے کمرہ میں، جس میں بمشکل تین آدمیوں کی گنجائش تھی، 30 لوگوں کے ساتھ ڈال دیے گئے ،کمرہ میں صرف ایک میلی سی دری ہوتی تھی ،اسی پر سب بیٹھتے تھے اور سوتے بھی تھے، کھانے میں ابلا چاول یا شکر قند ہوتی تھی ، ایک بڑے سے پتیلے میں رکھ کر سامنے ڈال دیا جاتا تھا ، جو کبھی ڈھنگ سے دُھوئی بھی نہ جاتی تھی ۔ سارے قیدی اس سے کھاتے تھے، سارے لوگ اپنے اپنے چمچے اس میں ڈالتے ، اسے منھ سے لگاتے ،پھر اس میں ڈالتے او راستنجا خانہ کمرہ کے ایک کنارہ پر تھا، جو چوپٹ کھلا ہوا تھا، نہ تو اس میں دروازہ تھا اور نہ کوئی پردہ ، جسے ضرورت ہوتی اپنے تمام رفقا کے ساتھ اپنی ضرورت پوری کرتا۔ پورے کمرہ میں بری طرح بو پھیلی ہوتی تھی، پورے کمرہ میں بالشت بھر کا صرف ایک روشن دان تھا، آپ تصور کیجیے کہ ان صاحب کا کیا حال ہو گا؟

شروع کے چند ایام اس طرح گزرے کہ وہ آنکھیں موندے اپنی جگہ بے حس وحرکت پڑے رہتے، نہ کچھ دیکھتے، نہ کھاتے نہ پیتے، لہٰذا غسل خانہ جانے کی بھی ضرورت پیش نہ آتی، لیکن بھوک کی شدت سے بُرا حال ہوگیا، وہاں کے ماحول سے ذہنی اذیت اور دلی تکلیف سے دو چار ہوئے تو دھیرے دھیرے اس ماحول سے مانوس ہو گئے۔ اسیری نے طول کھینچا تو پھر وہ بھی یہی کھانا کھانے لگے او را س دری پر سونے لگے او راس بیت الخلا میں اپنی ضرورت پوری کرنے لگے، پھر جیسا سب کرتے تھے، اسی طرح یہ بھی کرنے لگے او رماحول میں ڈھل گئے اور ان کی عادتیں بدل گئیں، خدانخواستہ میرا ارادہ یہ نہیں ہے کہ آپ بھی اس طرح اسیری کی صعوبتوں سے دو چار ہوں، پھر آپ کی عادتیں بھی تبدیل ہوں، کیوں کہ عادتوں کی تبدیلی بغیر اسیری کے بھی ہو سکتی ہے۔

آپ رمضان المبارک کے مہینہ کو لے لیجیے، ابتدا میں جب آپ کو سحری کے لیے اٹھایا جاتا ہے تو آپ کس قدر جھنجھلاتے ہیں او رپریشانی محسوس کرتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ آپ کو سونے دیا جائے ۔ چاہے سحری کے بغیر روزہ رکھنا پڑے ، آپ الارم کی آواز سنتے رہتے ہیں، پھر بھی نہیں اٹھتے، آپ کو آواز دی جاتی ہے او رمونڈھے کو بھی حرکت دی جاتی ہے، پھر بھی نہیں اٹھتے، اس وقت آپ کے لیے اٹھنا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے داڑھ کے دانت نکالے جارہے ہوں ، لیکن دوسرا دن پہلے دن کے مقابلہ میں کافی آسان ہوتا ہے، حتی کہ رمضان المبارک کے آخر ایام میں نہ الارم بجتا ہے، نہ کوئی اٹھانے کی زحمت کرتا ہے ، آپ خود بخود بیدار ہو جاتے ہیں اور یہ عادت ایسی پختہ ہوتی چلی جاتی ہے کہ بعد رمضان بھی راتوں میں ان اوقات میں آنکھیں خود بخود کھل جاتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عادتیں بدلتی ہیں، بس ضرورت ہے کہ کوئی کام ایک بار کیا جائے او ریہی عمل ایک نئی عادت کا آغاز بن جاتا ہے۔ آپ خود دیکھیے! کسی شراب خانہ کے پاس سے آپ کا بار بار گزر ہوتا ہے ، آپ صرف گزرجاتے ہیں، اس میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کرتے، لیکن آپ کا کوئی بگڑا رفیق ہاتھ پکڑ کر ایک بار آپ کو اس میں داخل کر دیتا ہے، پھر اس کے بعد اس شراب خانہ میں تنہا داخل ہونا بھی آپ کے لیے آسان ہو جاتا ہے اورجب داخل ہوتے ہیں تو اس کرسی پر نگاہ جاتی ہے، جس پر پہلے دن آپ نے اپنی نشست جمائی تھی تو اس شراب خانہ میں داخلہ گویا ایک عادت کا آغاز ہے۔ اگر آپ کو تنبیہ ہو جائے او ردوبارہ ادھر کا رخ نہ کریں تو آپ کو اس فعل قبیح سے چھٹکارا مل گیا او راگر دوسری ، تیسری اور چوتھی بار آتے رہے تو گویا آپ کی عادت ہو گئی ۔

اسی طرح یوں سمجھیے کہ اگر آپ کی آنکھ کھل جائے او رنماز فجر کے لیے مسجد آجائیں تو گیا یہ عمل ایک نئی عادت کا آغاز ہے ، اگر آپ دوبارہ سہ بارہ مسجد میں آجائیں تو یہ نماز فجر میں حاضری گویا ایک طرح آپ کی عادت ہو گئی، اب آپ خود بیدار ہوسکتے ہیں ، چاہے کوئی بیدار نہ کرے۔ جو لوگ تمباکو نوش ہوتے ہیں، خصوصاً سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں ، اگر کوئی روک ٹوک کرے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ مجبور ہیں اور اس کو چھوڑنا ممکن نہیں ، پھر جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو دن بھر کے لیے چھوڑے رہتے ہیں ، اسی طرح اگر وہ سفر میں ہوتے ہیں او رکسی صحرا میں اتفاقاً جانا پڑتا ہے اور ساتھ میں سگریٹ وغیرہ نہیں ہوتی تو مارے باندھے صبر کر لیتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمباکو نوشی سے باز آنا کوئی محال وناممکن بات نہیں ہے۔

مزہ کی بات یہ ہے کہ میرے دادا جان بھی تمباکو نوشی کے عادی تھے،60 سال تک تمباکو نوشی کرتے رہے ، ایک بار انہوں نے دیکھا کہ دادی جان بھی تمباکو نوشی کررہی ہیں تو انہوں نے ٹوکا کہ یہ کیا؟ تو دادی جان نے کہا: خود تو تمباکو نوشی کرتے ہیں او رہمیں روک رہے ہیں !؟ تو میرے دادا جان نے کہا: تو اچھا میں نے چھوڑ دی۔ یہ کہہ کر تمباکو پھینک دی، پھر کبھی منھ نہ لگایا۔

ہمارے دوست نارس الخوری نے بھی تمباکو نوشی ترک کر دی ہے، لیکن چھوڑنے کا انداز نرالہ ہے، انہوں نے تہیہ کیا کہ اب میں تمباکو نوشی نہیں کروں گا۔ پھرجب ان کا دل اس کے لیے مچلتاہے تو کہتے کہ اچھا! نماز تک صبر کر لو، کیا ایک دن بھی صبر نہیں کر سکتے؟ پھر جب وہ دن ختم ہو گیا تو دل کو سمجھایا، اچھا ایک دن اور اس طرح ایک ایک دن کا اضافہ کرتے رہے ، یہاں تک کہ ایک ہفتہ گزر گیا ، تو پھر سمجھایا کہ ایک ہفتہ اور۔ اس طرح انہوں نے تمباکو نوشی ترک کر دی۔

ہر شخص کو اپنی عادتوں کا جائزہ لینا چاہیے، اگر کوئی غلط عادت ہے تو اس کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کی تبدیلی میں بس ابتدا میں کچھ زحمت ہے، پھر معاملہ بالکل آسان ہو جاتا ہے اور نفس مطیع ہو جاتا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ انسان کا نفس بچوں کی مانند ہے، جیسے بچہ کسی چیز کے لیے مچلتا ہے، اس کے لیے روتا ہے ، چیختا ہے، چلاتا ہے ، کیوں کہ اس طرح اس کو اپنی بات منوالینے کی امید ہوتی ہے ، لیکن اگر ماں باپ کی طرف سے صاف جواب کی توقع ہو تو خاموش ہو جاتا ہے، کسی دانا کا قول ہے کہ :” انسان کا نفس دودھ پیتے بچوں کی مانند ہے، اگر آپ نرمی سے کام لیں تو بچہ دودھ پیتارہے گا، لیکن اگر آپ دودھ چھڑا دیں تو چھوڑ دے گا۔“ تو بھائیو! عادتوں کو بدلنا محال وناممکن نہیں ہے اور جو کام بھی آپ کرتے ہیں وہ دراصل ایک نئی عادت کا آغاز ہوتا ہے۔
Flag Counter