انشورنس کا متبادل” نظام تکافل“ ایک جائزہ
مفتی محمد راشد ڈسکوی
استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی
تیسری خرابی
نظام تکافل میں اوّلاً کمپنی قائم کی جاتی ہے (جو شخص قانونی ہے)،پھر ڈائریکٹرز کچھ مال وقف کر کے وقف فنڈ قائم کرتے ہیں اور واقفین ہونے کے اعتبار سے وقف کے قوانین متعین کرتے ہیں (یہ وقف فنڈ بھی شخصِ قانونی ہے)، پھر کمپنی پالیسی ہولڈرز کا مال اور اسی طرح وقف فنڈ کا فنڈ مضاربت میں استعمال کرتی ہے ،چناں چہ وقف فنڈ ”رب المال“ ہوا اور کمپنی ”مضارب“، اس کے ساتھ ساتھ کمپنی وقف فنڈ کی دیکھ بھال بھی کرتی ہے، بلکہ جملہ معاملات سنبھالتی ہے تو یہ ”متولی“بھی ہوئی۔مطلب: ”رب المال“ بھی شخصِ قانونی،”مضارب“ بھی شخصِ قانونی اور’ ’متولی“ بھی شخصِ قانونی۔(ملخص ازتکافل کی شرعی حیثیت،ص:78،79،ادارة المعارف)
اب خارج میں دیکھیں تو اِن قانونی اشخاص کو وجود دینے والے حقیقی افراد ہی کے ذریعے یہ فرضی اشخاص کام کرتے ہیں اور تمام منافع انہی (حقیقی افراد )کی تجوریوں میں جمع ہوتے ہیں تو حقیقت میں جو ڈائریکٹر (حقیقی اشخاص ) موجود ہیں، جنہوں نے یہ سارا سرکل چلایا تو ہر قسم کے حقوق انہی کی طر ف لوٹنے چاہییں، نتیجتاً انہی حقیقی افراد پر رب المال اور مضارب ہونے کی نسبت صادق آئے گی۔
مزیدوضاحت کے لیے سمجھیں کہ:
مجوزین حضرات کے بقول ”وقف فنڈ“ شخصِ قانونی ہے اور ”کمپنی“ بھی شخصِ قانونی ہے، جوفرضی، معنوی ،اعتباری ،بے جان ،گونگا اور بہرا ہوتا ہے، اس کی طرف حقوق اور ذمہ داریاں لوٹتی ہیں،البتہ ان حقوق اور ذمہ داریوں کی ادائیگی اور معاملات وغیرہ طے کرنے کے لیے ان کو حقیقی اشخاص کی احتیاج ہوتی ہے، تو جو شخص ان ذمہ داریوں وغیرہ کو ادا کرتا ہے، اسے” متولی“ کہتے ہیں،چناں چہ خارج میں یعنی حقیقی اعتبار سے کمپنی جوخود بھی شخصِ قانونی ہے وہ دوسرے شخصِ قانونی یعنی ”وقف فنڈ“ کی متولی نہیں بن سکتی، بلکہ ان دونوں کے متولی ڈائریکٹرز بنیں گے، جو اشخاص ِ حقیقی ہیں،کیوں کہ عقد کے کرنے والے کا ذوی العقول میں سے ہونا شرط ہے،ملاحظہ ہو:
شرائط الانعقاد فأنواع……أما الذی یرجع إلیٰ العاقد، فنوعان أحدھما:أن یکون عاقلاً، فلا ینعقد بیع المجنون والصبي الذي لا یعقل، لأن أھلیة المتصرف شرط انعقاد التصرف، والأھلیة لا تثبت بدون العقل، فلا یثبت الانعقاد بدونہ؛………،والثاني: العدد في العاقد، فلا یصلح الواحد عاقداً من الجانبین في باب البیع إلا الأب․(بدائع الصنائع، کتاب البیوع، فصل في شروط الرکن:533/6، 534، دارالکتب العلمیہ، وکذا في حاشیة ابن عابدین، کتاب البیوع، مطلب شرائط البیع:13/7، دار المعرفة بیروت)
”ویشترط فی العاقدین کونھما عاقلین،یعرفان النفع والضر،رو یباشران العقد علی بصیرة وتثبت“۔(حجة اللہ البالغة، من أبواب ابتغاء الرزق :191/2،دارالکتب العلمیة)
ان عبارات کا مفہوم یہ ہے کہ عاقدین(معاملہ کرنے والوں) کا عاقل ،نفع و نقصان کو جاننے والا اور صاحب بصیرت ہونا ضروری ہے۔
اورظاہر ہے کہ شخصِ حقیقی میں ان صفات کا پایا جانا ناممکن ہے ، جس کی بنا پر تمام معاملات حقیقت میں ڈائریکٹرزہی سر انجام دیتے ہیں، چناں چہ وہ ڈائریکٹرز جب ایک شخصِ قانونی کو” رب المال “اور دوسرے شخصِ قانونی کو” مضارب “بناتے ہیں (اس حال میں کہ ان دونوں کے متولی وہ خودہوتے ہیں)تو نفس الامر میں وہ خود ہی عقد کے دونوں پہلو” رب المال اور مضارب“بنتے ہیں ، اس لیے کہ ڈائریکٹر حضرات ہی کمپنی اور وقف فنڈ دونوں کی نمائندگی کرتے ہیں،گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ (وقف فنڈ کی طرف سے) ہم مال، مضاربت کے لیے دیتے ہیں اور (کمپنی کی طرف سے)ہم مال، مضاربت کے لیے وصول کرتے ہیں، دوسری طرف عام طور پر ان ڈائریکٹرز کو ہی کمپنی بھی کہا جاتا ہے، نتیجتاً ایک ہی فرد(حقیقی ) خود ہی رب المال ٹھہرا اور خود ہی مضارب ، جس کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے۔
چوتھی خرابی
جس طرح کوئی بھی پالیسی ہولڈر اپنا کسی بھی قسم کا تکافل کرواتا ہے، اسی طرح ہر تکافل کمپنی کے لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنا تکافل کروائے ،جس کو ”ری تکافل“ (Re-Takaful)کہا جاتا ہے،یہ ہر کمپنی کے لیے قانوناً لازمی ہے ، ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی کمپنی اپناتکافل نہ کروائے، ری تکافل کمپنیوں کی اہمیت اور ضروت کے بارے میں مجوزین حضرات کا ہی ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
” ہر انشورنس کمپنی اپنے خطرات کا کچھ حصہ دوسری انشورنس کمپنی کے پاس انشور کرواتی ہے، مثلاً: اسّی فیصد اپنے پاس رکھ کر بیس فیصد حصہ کی انشورنس دوسری کمپنی کے پاس کرواتی ہے، اس کے نتیجے میں کسی پالیسی ہولڈر کو خطرہ پیش آنے کی صورت میں اس کو ادا کی جانے والی رقم کا اسّی فیصد حصہ انشورنس کمپنی خود برداشت کرتی ہے اور بیس فیصد حصہ ری انشورنس کمپنی برداشت کرتی ہے، پریمیم کی مقدار مناسب رکھنے اور خطرات کو پھیلا کر نقصان کی تلافی کو یقینی بنانے کے لیے ری انشورنس ، انشورنس کاجز لازم سمجھا جاتا ہے اور قانوناً بھی لازم ہے، اس کے بغیر لائسنس جاری نہیں ہوتا، تکافل کمپنی بھی اس ضرورت اور قانون سے بالا تر نہیں ہے ، البتہ تکافل کمپنی ،ری تکافل کروانے کی صورت میں گویا اپنے پاس جمع ہونے والے فنڈ کو ایک دوسرے تکافل کا حصہ بنائے گی اور یوں دو تکافل وجود میں آئیں گے: ایک افراد کے درمیان اور دوسرا تکافل کمپنی اور ری تکافل کمپنی کے درمیان “۔(تکافل کی شرعی حیثیت،ص:114)
پھر آگے چلتے ہوئے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ:
” جو اصول تکافل کے لیے درکار ہیں وہی اصول ری تکافل کو بھی چلاتے ہیں“۔(تکافل کی شرعی حیثیت،ص:115)
نیز ایک اور جگہ لکھا ہے کہ:
”جس طرح تکافل کے دو ماڈل ہیں : وقف ماڈل اور تبرع ماڈل، اسی طرح ری تکافل بھی وقف کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے اور تبرع کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے،تاہم عالمی سطح پر تبرع کی بنیاد پر تکافل کا کام پہلے شروع ہوا ہے، اس لیے تبرع کی بنیاد پر کام کرنے والی ری تکافل کمپنیاں تو وجود میں آچکی ہیں ، البتہ وقف کی بنیاد پر کام کرنے والی کوئی ری تکافل کمپنی عملاً وجود میں نہیں آئی ، امیدہے کہ مستقبل قریب میں وجود میں آجائے گی“۔(تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ،ص:137)
خلاصہ کلام
ہر تکافل کمپنی کے لیے اپناری تکافل کمپنی سے تکافل کروانا قانوناً لازمی ہے۔
اب تک وجود میں آنے والی کوئی ری تکافل کمپنی وقف کی بنیاد پر نہیں ہے۔
ری تکافل کمپنی کا مقصد کاروباری نقطہ نگاہ سے۔
(الف) تکافل فنڈ کے ساتھ رسک (خطرات)کو شیئرکرنا ہے تاکہ رسک شیئر ہوجائے اورنقصان کی صورت میں کوئی ایسی صورت حال پیدا نہ ہو جس میں تکافل فنڈ دیوالیہ ہو جائے اور تکافل ممبرز کا مفاد خطرے میں پڑ جائے۔
(ب) ری تکافل کا ایک کام یہ بھی ہے کہ وہ مجموعی رقم کو انوسٹ کر کے انوسٹمنٹ کا دائرہ بڑھائے اور سرپلَس(بچت) میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو۔
(ج) ری تکافل کمپنی انڈر رائیٹنگ فلیگسبلٹی (Underwriting Flexibility)یعنی رسک کو قبول کرنے کی لچک اور سہولت مہیا کرتی ہے اور تکافل کمپنی کو مالی سہارا دیتی ہے ، تاکہ وہ مستحکم ہو اور مارکیٹ میں مروجہ کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔
(د) ری تکافل کمپنی یہ بھی کر سکتی ہے کہ کمی کی صورت میں ری تکافل شیئر ہولڈرز فنڈ سے تکافل کو قرضہ حسنہ دے، تاکہ وہ اس سے اپنے مقاصد اور ضروریات پوری کرسکے۔(تکافل کی شرعی حیثیت،ص:116,115)
نیز! ”تکافل انشورنس کا اسلامی طریقہ“ میں لکھا ہے کہ ”اگر ری تکافل کا سہارا نہ لے اور خود سارا رسک کور کرے تو اسے پریمیم زیادہ لینا ہو گا ، اگر وہ اس طرح نہ کرے تو مارکیٹ کا مقابلہ نہ کر سکے گی ۔“(ص:137)
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات بہت حد تک کھل کے سامنے آجاتی ہے کہ ایک طرف تو نظریہ تکافل کے لیے احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات سے استدلال اور دوسری طرف مذکورہ خط کشیدہ؟؟ عبارتیں کیامنظر پیش کر رہی ہیں۔مذکورہ مقاصد پر نظر ڈالنے سے ہر شخص محسوس کر سکتا ہے کہ مقصود کاروبار اور اپنی تجارت کو فروغ دینا ہے اور بَس۔
دوسری بات ! ابھی تک کوئی بھی ری تکافل کمپنی وقف کی بنیاد پر وجود میں نہیںآ سکی ہے، بلکہ جن ری تکافل کمپنیوں سے تکافل کمپنیاں اپنا تکافل کرواتی ہیں وہ تبرع کی بنیاد پر کام کر رہی ہیں اور تبرع کی بنیاد کو خود ہمارے مجوزین حضرات پوری طرح رد کر چکے ہیں، کیوں کہ تبرع کی بنیاد صحیح اسلامی متبادل پیش نہیں کر سکتی، ذیل میں خود مجوزین کی طرف سے ان تکافل کمپنیوں پر کیے جانے والے اشکالات پیش کیے جاتے ہیں، جو تبرع کی بنیاد پر چل رہی ہیں:
” اس صورت میں تکافل بھی مروجہ بیمہ کی طرح عقد ِ معاوضہ بن جائے گا اور غرر و ربا جیسے مفاسد اس میں موٴثر ہوجائیں گے۔
چندہ کی رقم چندہ دہندہ کی ملکیت سے نہ نکلنے کی وجہ سے شرعی ضابطہ کے مطابق اس کی زکاة چندہ دہندہ پر واجب ہونی چاہیے۔
چندہ دہندہ کے انتقال کی صورت میں دیا ہوا پیسہ اس کے ترکہ میں شمار ہونا چا ہیے۔
نیز! جب پول کا احسان چندہ دہندہ کے احسان کے مشروط ہوگا اور دونوں پر اپنا اپنا احسان لازم ہے تو یہ ”جبر فی التبرع“ہو گیا، یعنی زبردستی کا احسان ، جس کا باطل ہونا ظاہر ہے، چناں چہ زیادہ تر لوگوں کو تکافل کے بارے میں یہی اشکال رہتا ہے۔اس کے علاوہ بھی تبرع کی صورت میں پیچیدگیاں (Complications)ہیں، جن کا جواب اور حل کوئی آسان کام نہیں“۔(تکافل کی شرعی حیثیت، ص: 86،ادارة المعارف)۔
مذکورہ خرابیوں کی وجہ سے (اور بقول انہی کے اور بہت سی خرابیوں کی وجہ سے) وقف کی بنیادوں پر تکافل کا نظام وضع کیا گیا اور ان (تبرع کی)بنیادوں پر چلنے والے تکافل میں شرکت کو ناجائز کہا گیا، لیکن جب مجوزین حضرات خود پھنسے وہا ں ان حضرات نے مجبوری اور ضرورت کے نام سے خود اسی نظام کو اختیار کر لیا،چناں چہ ”تکافل کی شرعی حیثیت “ میں لکھا ہے کہ:
”خلاصہ یہ کہ تکافل کمپنیوں کے لیے مروّجہ ری انشورنس (کمپنیوں) سے انشورنس کی سہولت لینا جائز نہیں ، بلکہ کسی ری تکافل کمپنی کو اختیار کریں ، گو اس کی تعداد فی الحال کم ہے ،نیز ! ری(تکافل) کمپنیاں زیادہ تر تبرع پر مبنی(Based) ہیں ، وقف پر نہیں، تاہم فی الحال بدرجہ مجبوری اس کو برداشت کیا جاسکتا ہے ، کیوں کہ تبرع بیسڈ تکافل کے جواز کی بڑی تعداد علماء میں سے قائل ہے اور بہت سے اسلامی ممالک میں یہی ماڈل زیرِ عمل ہے “۔(ص:120)
ایک اورجگہ ،سوال کے جواب کو ملاحظہ فرمائیں:
”سوال: ہمارے ہاں زیادہ تر تکافل کمپنیاں وقف ماڈل ہیں، ری تکافل کمپنیاں مثلاً: سوس ری وغیرہ فی الحال اس بنیاد پر قائم نہیں، تو کیا ان ری تکافل کمپنیوں کی پالیسی لینے کی گنجائش ہے؟
جواب:…جی ہاں ، کیوں کہ قانونی مجبوری ہے“۔(ص:121)
لیجیے ! اب خودہی دیکھ لیا جائے، مزید کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی،کہ جس چیز کومجوزین حضرات کل تک خود غلط کہہ رہے تھے اور اس کی شرعی خرابیاں گنواتے ہوئے اس کو مسترد کر چکے تھے اور باقاعدہ اس کے مقابل نیا نظام ترویج دے رہے تھے ، جب اس میں خود ملوث ہونا پڑ رہا ہے تو اسے مجبوری کا نام دے کرجائز قرار دے دیا، ٹھیک ہے کہ بہت سارے ممالک میں اس بنیاد پر ”تکافل“ یا ”ری تکافل “کمپنیاں موجود ہیں، لیکن مجوزین کے نزدیک تو وہ پوری بنیاد شرعی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتی نا ! تو پھر مجبوری کے نام سے ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی اجازت دے دینے سے اُن مفاسد سے بچاوٴ ہو جائے گا ؟یا اُن کو شرعاً برداشت کر لیا جائے گا ؟ جن کو خودمجوزین حضرات شمار کروا کے اُس نظام کو مسترد کر چکے ہیں،نیز! یہ مجبوری ،آیا وہ مجبوری بھی ہے کہ جس میں کسی قدر گنجائش کا حصول ممکن ہو؟یہ مقام بھی اہل علم حضرات کے لیے غور طلب ہے۔
لہٰذا ری تکافل کمپنیوں سے تکافل کمپنیوں کا تکافل کروانا جائز نہیں ہے اور اگر ری تکافل کمپنیاں وقف کی بنیادپر بھی ہوں تو بھی ان میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جو پیچھے تفصیل سے ذکر کی جا چکی ہیں۔
اس سے ہٹ کر ”تکافل کی شرعی حیثیت“ میں ذکر کردہ یہ عبارت کہ ”ری تکافل کمپنی یہ بھی کر سکتی ہے کہ کمی کی صورت میں ری تکافل شیئر ہولڈرز فنڈ سے تکافل کو قرض حسنہ دے ، تا کہ وہ اس سے اپنے مقاصد اور ضروریات پوری کر سکے“، مضاربت فاسدہ کو بھی بتا رہی ہے۔(اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
ذکر کردہ تعبیر ظاہر کر رہی ہے کہ ”ری تکافل کمپنی قرض دینے کی پابند نہیں “تاکہ یہ اشکال نہ ہو سکے کہ کمپنی نے رقم دو اغراض کے لیے لی تھی:
انوسٹمنٹ کے لیے ،تاکہ سرپَلس میں اضافہ ہو۔ متوقع نقصانات کی صورت میں قرض ِ حسنہ فراہم کرنے کے لیے ، جیسا کہ ماقبل میں لکھا تھا کہ ”پریمیم کی مقدار مناسب رکھنے اور خطرات کو پھیلا کر نقصان کی تلافی کو یقینی بنانے کے لیے (جو قرض دینے کی صورت میں ہی ممکن ہے) ر ی انشورنس کو انشورنس کے لیے یا ری تکافل کو تکافل کے لیے جز لازم سمجھا جاتا ہے اور قانوناً بھی یہ لازم ہے اور اس کے بغیر لائسنس بھی جاری نہیں ہوتا“۔غرضیکہ ! ری تکافل کمپنی کا بظاہر مقصدِ اصلی ممکنہ نقصان میں قرض حسنہ کی فراہمی کی صورت پیدا کرنا ہے۔
اشکال کی صورت یہ ہے کہ جب تکافل کمپنی نے ری تکافل کو 20 فی صددیا تو یہ رب المال بنی اور ری تکافل مضارب بنی، چناں چہ مضارب نے ایک طرف تو رب المال کا 20فی صد انوسٹ کیا اور دوسری طرف ممکنہ نقصان کی تلافی کے لیے قرض ِ حسنہ بھی فراہم کر رہی ہے، تو یہ التزام عقد ِ مضاربت میں شرطِ فاسد ہے ،جس سے مضاربت فاسدہو جائے گی۔
اِس اشکال سے بچنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی کہ ”ری تکافل کمپنی یہ بھی کر سکتی ہے…“ حالاں کہ ری تکافل کمپنی کا مقصد و موضوع ہی یہی ہے کہ وہ ممکنہ نقصانات میں تکافل کمپنی کی مدد کر سکے ، کیوں کہ سوچنے کی بات ہے کہ تکافل کمپنی تو خود اپنے پالیسی ہولڈرز کے سرمایہ میں سے 80فی صد انوسٹمنٹ کرتی ہے، ری تکافل کمپنی کو 20فی صد دینے کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ متوقع خطرات سے نمٹا جاسکے، بہر حال اتنی بات تو یقینی ہے کہ ری تکافل کمپنی نقصان کی صورت میں قرض دے گی اور دیتی ہے (ورنہ تو تکافل کمپنی کا اس سے اپنا تکافل کروانا کچھ معنی نہیں رکھتا)اور یہ ایسا اقدام ہے جس سے مضاربت فاسد ہو جاتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب․
پانچویں خرابی
ایک اور غور طلب پہلو! تکافل کمپنیوں کا ایڈمن فیس اور ایلوکیشن فیس لینے کا بھی ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ آنے والے پالیسی ہولڈر سے وصول شدہ رقم میں سے اس کی کل رقم کا ایک بہت بڑا حصہ ایلوکیشن فیس کے نام سے کاٹ لیا جاتا ہے، جس کی مقدار مختلف قسم کے تکافل میں مختلف ہوتی ہے، مثلاً: 80 فی ، 85 فی صد،90 فی صد وغیرہ۔پھر اگلے سال 20 فی صد ،اور اس سے اگلے سال 10 فیصد ایلوکیشن فیس کے نام سے کاٹ لی جاتی ہے، یہ ساری فیس تکافل کمپنی کے ایجنٹ اور ذمہ داران ِ کمپنی کی ملکیت ہوتی ہے، دوسری طرف دیکھا جائے تو اس جگہ (تکافل میں )اور انشورنس میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، وہاں بھی پہلی قسط کا ایک بڑا حصہ کمپنی کے ایجنٹ کا ہوتا ہے، اس کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ انشورنس میں یہ ظلم ہوتا ہے کہ پہلی پوری قسط پوری کی پوری ایجنٹ کی جیب میں چلی جاتی ہے، لیکن جب اس کا متبادل نظامِ تکافل وجود میں آیا تو وہاں بھی مختلف فیسوں کے نام سے پہلی قسط کا اکثر حصہ کمپنی کی ملکیت چلا جاتاہے۔
اگر دیکھا جائے تو یہ (تکافل کے پیش کردہ نظریے ”جس کی تقویت کے لیے قرآنِ پاک، احادیثِ مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات پیش کئے جاتے ہیں اور بتلایا جاتا ہے کہ یہ نظام محض ہم دردی اور بھائی چارے اور برادریوں میں قائم کیے جانے والے باہمی امدادی فنڈوں کی بنیاد پر ہے “کی وجہ سے )پالیسی ہولڈر کے ساتھ زیادتی ہے ، وہ اس طرح کہ اگر کوئی پالیسی ہولڈر پہلی قسط جمع کروانے کے بعد کسی وجہ سے تکافل کمپنی کو چھوڑنا چاہے تو قواعد و ضوابط کے مطابق اُسے صرف وہ رقم ملتی ہے جو اُس کی انوسٹمنٹ کھاتے میں جمع ہو،یا پھر اس رقم سے کی گئی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا نفع۔وہ اِس طرح کہ تکافل کرواتے ہی مثلاً: 85 فی صد رقم تو ایلوکیشن فیس کے نام سے پہلے ہی الگ کر لی گئی ، باقی رقم میں سے کچھ مقدار وقف فنڈ میں ڈال دی گئی ،چناں چہ یہ دونوں رقمیں تو واپس نہیں ہوسکتیں، ایک تو کمپنی کا حق تھی اِس لیے اور دوسری اِس کی ملکیت سے نکلنے اور وقف کی ملکیت میں چلی جانے کی وجہ سے اور بقیہ رقم میں سے بھی ہر ماہ ڈیڑھ فی صد ایڈمن فیس کاٹی جاتی ہے، لہٰذا یہ” واپس ہونے والا پالیسی ہولڈر“ جتنی دیر کرتا جائے گا اتنی رقم اس کی کم ہوتی جائے گی ، تو پالیسی ہو لڈر کے ہاتھ کیا آئے گا؟سوائے اس بات کے وہ اس جگہ سے بھی یہ ذہن لے کر نکلے گا کہ انشورنس کے متبادل پیش کیا جانے والا نظام(تکافل) بھی انشورنس ہی کی طرح لوگوں کی جیبیں خالی کرنے والا نام نہاد اسلامی نظام ہے۔
اِس وقت بڑی سادگی سے کمپنی والے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو یہ سب کچھ پہلے سے ہی بتا دیتے ہیں۔ ناجائز اور بُرا تو تب ہوتاجب کوئی بات پوشیدہ رکھی جاتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح علی الاعلان بتلا کر لوگوں کا مال مختلف طریقوں سے حاصل کرنا درست ہو جائے گا ؟ بالخصوص اُس وقت جب انشورنس کے نظام کو ختم کرنے کے لیے نظامِ تکافل کی بنیاد ہی کچھ اور رکھی گئی ہو؟ اِس حال میں کہ فقہا ء کی طرف سے کئی معاملات کو محض اِس وجہ سے ناجائز قرار دے دیا جاتا ہے کہ اُس میں کسی ایک فریق کو نقصان پہنچتے ہوئے دوسرے کو نفع ہی نفع حاصل ہو رہا ہوتا ہے۔
یہ چند باتیں اہلِ علم حضرات کے سامنے بطور ِ تمہید ذکر کی گئی ہیں، تاکہ اس موضوع کے ہر گوشے پر سوچتے ہوئے پختہ بنیادوں پر عوام کے سامنے کوئی راہِ عمل پیش کی جا سکے۔
اِس صورت میں اِس بات سے کسی طرح مفَر نہیں ہو سکتا کہ صحیح صورت صرف اور صرف اسلام کے حقیقی اور ابدی نظامِ کفالت ِ عامہ کا احیاء اور اس کو رواج دینا ہے اور بس۔اسلامی نظامِ کفالت عامہ کی بڑی خصوصیت یہ ہے اس کا بنیادی مقصد اپنے مستقبل کے خطرات کا تحفظ، نقصانات کی تلافی اور اور اپنے خزانے کو بڑھانا نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کو بطورِ کاروبار اختیار کرنا ہوتا ہے، بلکہ اس نظام کا خاصہ اور شعار یہ ہے کہ اس معاشرے کے تمام افراد باہم ایک دوسرے کے مددگار و معاون ہوتے ہیں اوربوقتِ ضرورت بلا کسی غرض و لالچ کے ضرورت مندوں اور مجبوروں کی حتی الوسع مدد کرتے ہیں ، یہ نہیں کہ معاشرے کے مخصوص افراد کی مدد، مخصوص حالت میں، مخصوص مقدار میں کی جائے گی ، (جیسا کہ انشورنس اور تکافل میں ہوتا ہے ، کہ جو جتنا چندہ یا فیس دے گا صرف اُسی کی اِس کے بقدر مدد کی جائے گی، کسی اور کی نہیں) اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کی بنیادی صورت اور خاکہ ماہ نامہ الفاروق کے شعبان1432ھ بمطابق جولائی 2011ء کے شمارے میں پیش کیا جا چکا ہے۔