Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

13 - 17
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں!
	

محترم محمد متین خالد

شہرارتداد ”ربوہ“ جسے سدوم، عمورہ اور ادمہ کا جڑواں بھائی بھی کہا جاتا ہے، آج کل اپنے مکینوں کی جنسی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی وجہ سے ”دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو“ کی زندہ تفسیر بنا ہوا ہے… سرفرانسس موڈی نے اپنے ”خود کاشتہ پودے“ کو ضلع جھنگ میں دریائے چناب کے کنارے پرانہ آنہ فی مرلہ کے حساب سے 1033 ایکڑ، 7 کنال، 8 مرلے زمین 100 سالہ لیز پر عطا کی۔ پہاڑیوں کے درمیان دفاعی لحاظ سے محفوظ یہ عجمی اسرائیل کفار کی امیدوں اور سازشوں کا گڑھ ہے۔قادیانی اس شہر کی کرامت یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں کبھی سیلاب نہیں آیا۔ مجاہد ختم نبوت آغا شورش کاشمیری نے اس پر دہلا پھینکا تھا کہ لاہور کی ”ہیرا منڈی“ کی بھی یہی کرامت ہے۔ وہاں بھی کبھی سیلاب نہیں آیا۔ جن لوگوں نے گھر کے بھیدی جناب شفیق مرزا کی کتاب ”شہر سدوم“ پڑھی ہو، وہ جانتے ہوں گے کہ انھوں نے لنکا ڈھا کر کس خوبصورتی سے ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں علاقے اپنے مزاج، گفتار اور کردار کے اعتبار سے آپس میں کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔ ربوہ، جہاں سے بدنام جسٹس منیر ایسے عیاش اور بدقماش طبع قادیانی نواز صاحبان اقتدار کی راتوں کو رنگین و سنگین بنانے کے لیے ”لجنہ “ کی ایمان شکن حسینان (قادیانی حوروں) کی شکل میں ”مال“ سپلائی ہوتا تھا اور ”سلسلہ احمدیہ کے سلوک کی یہ منزل“ پوری آب و تاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔

ربوہ کے مرگھٹ کی ہر قبر پر لکھا ہوا ہے کہ اس مردہ کی ہڈیاں امانتاً دفن ہیں، اکھنڈ بھارت کے نتیجہ میں حالات سازگار ہونے پر انھیں قادیان (بھارت) منتقل کیا جائے گا… جہاں قادیانی لیٹرینوں پر ”کلمہ طیبہ“ لکھا جاتا تھا… (نعوذ باللہ) جہاں علی الاعلان آنجہانی مرزا قادیانی کو ”محمد رسول اللہ“ کہہ کر پیش کیا جاتا تھا… جہاں سے تحریف شدہ قرآن مجید شائع کر کے پوری دنیا میں پھیلائے جاتے… جہاں بدنام زمانہ نائکہ نصرت جہاں بیگم کو ”ام المومنین“ کے روپ میں پیش کیا جاتا تھا۔ ربوہ… جہاں کوئی غیر قادیانی (مسلمان) حتیٰ کہ صدر مملکت بھی مطلق العنان ”خلیفہ“ کی اجازت حاصل کیے بغیر داخل نہ ہو سکتا تھا۔ جہاں ”مملکت در مملکت“ کا نظام تھا، جس کا اپنا ایک سیاسی نظام تھا، جن کے اپنے اسٹام پیپرز، بینک، دارالقضاة (تھانہ) کیلنڈر (مہینوں کے نام وغیرہ) تھے۔ جہاں خلافت کے نام پر ایک آمرانہ نظام بنایا گیا، جس کی چیرہ دستیوں سے حق کا متلاشی کوئی قادیانی محفوظ نہ تھا… ”مربیان“ کی اکثریت پیٹ کی مجبوریوں کی وجہ سے ذلت اور خواری پر مجبور تھی، جہاں مذہب کے نام پر تجارت ہوتی تھی… جہاں جنت اور دوزخ کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا تھا، جہاں شاہی خاندان کے افراد، اخلاق باختگی، حرام کاری اور مصنوعی پارسائی کا عملی نمونہ پیش کرتے۔ ربوہ جسے ”ویٹی کن سٹی“ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی، جہاں سے ان کا اپنے مرکز حیفہ (اسرائیل) سے براہ راست رابطہ رہتا تھا، جہاں ریٹائرڈ قادیانی فوجی افسروں پر مشتمل ”فرقان فورس“ اور ”خدام الاحمدیہ“ ایسی تربیت یافتہ بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیمیں پاکستان دشمن طاقتوں کے اِیما پر ملکی امن و امان غارت کرنے کے لیے ہر وقت سرگرم عمل رہتی تھیں۔ جہاں قادیانی خلیفہ سے معمولی اختلاف کرنے والے کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، جہاں 1967ء میں اسرائیل کی عربوں پر فتح، سقوط ڈھاکہ، شاہ فیصل اور ضیاء الحق کی شہادتوں اور بھارتی ایٹمی دھماکوں پر خدام الاحمدیہ کے بدمست نوجوان اور لجنہ اماء اللہ کی مدہوش حوروں نے مخلوط، مگر محظوظ جشن منایا۔ جہاں 313 درویشوں کے روپ میں ”ذریہ البغایا“ قادیان سے کھلے عام آتے جاتے تھے۔ جہاں قادیانی جلسوں میں (نعوذ باللہ) ”احمدیت زندہ باد“… ”محمدیت مردہ باد“… ”مرزا قادیانی کی جے“… کے نعرے لگائے جاتے تھے۔ جہاں پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل ظفر چودھری نے جہازوں کی ایک ٹولی کی قیادت کرتے ہوئے 1973ء میں اپنے خلیفہ مرزا ناصر کو سلامی دی تھی، جس پر قادیانی خلیفہ نے اپنے لوگوں کو خوش خبری دی کہ ”پھل پک چکا ہے… جلد ہی ہماری جھولی میں گرنے والا ہے“… علی ہذا القیاس ربوہ میں اسلام اور پاکستان کے خلاف اتنی سازشیں تیار ہوتیں کہ ”سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے۔“

لیکن ”لکل فرعون موسی“ کے مصداق جب بھی کوئی فرعون پیدا ہوتا ہے تو قدرت اس کی سرکوبی کے لیے موسیٰ کا اہتمام بھی کر دیتی ہے۔ محافظان ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالخصوص سید عطاء اللہ شاہ بخاری، قاضی احسان احمد شجاع آبادی، مولانا محمد علی جالندھری، مولانا لال حسین اختر، مولانا محمد حیات، ماسٹر تاج الدین انصاری،حضرت خواجہ خان محمد، مولانا داؤد غزنوی، مولانا ظفر علی خان، مظفر علی شمسی، مولانا عبدالستار خان نیازی، سید ابوالحسنات شاہ قادری، مولانا محمد شریف جالندھری، محدث العصر سید محمد یوسف بنوری، مولانا محمد یوسف لدھیانوی، آغا شورش کاشمیری، مولانا تاج محمود اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مجاہدین ختم نبوت کے پرعزم اور پرہمت کارواں نے اپنی پرخلوص اور مجاہدانہ کوششوں سے قادیانیت کے قلعے کی بنیادیں ہلا دیں۔ انھوں نے اپنے خون جگر سے روغن نچوڑ کر چراغ تحفظ ختم نبوت جلائے اور لہو کے قطروں کے بیج بو کر عشق و محبت کے پھول اگائے۔فکر معکوس کے حامل رہزنان ایمان قادیانی اور بے دین اہل اقتدار، بکاین کو انگور اور پیتل کو زر خالص کہلوانے پر مصر تھے۔ وہ شراب کی بدمستی میں پھونکوں سے ختم نبوت کا چراغ بجھانے کی ناپاک سازش کرتے اور مجاہدین ختم نبوت پر اژدھوں کی طرح پھنکارتے… مگر نور ایمان سے لبریز پاسبان ختم نبوت نے، ارباب غرور کی سنگینوں کے سائے میں، جگر پاش مناظر پیش کر کے، کلمہ حق بلند کیا اور برٹش امپریلزم کے ایجنٹوں کے مکروہ ارادوں کو ملیامیٹ کر دیا۔

1953ء کی مقدس تحریک ختم نبوت میں سرفروشان ختم نبوت اپنے سروں کی فصل کٹوا کر یمامہ کے شاہسواروں کے ہم رکاب ہوئے اور اس طرح بارگاہ رسالت میں باریاب ہوئے… لاہور کی فضاؤں میں اس کی بوئے جناں آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ وہ خوش نصیب جنھیں اس تحریک میں قبائے شہادت نصیب ہوئی، ان کے لہو کی خوش بو سے یہ ملک آج بھی معطر ہے… ان کی موت حیات جاوداں ہے… یہ لوگ فتح و ظفر کے روشن باب ہیں… ان کی قربانیوں کے نتیجہ میں قادیانی کبر و غرور کی ایسی کمر ٹوٹی کہ وہ متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ 1984ء میں انھیں تمام شعائر اسلامی استعمال کرنے سے روک دیا گیا… ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے حکومت کے اس اقدام کی توثیق کرتے ہوئے اسے اسلام کی روح کے عین مطابق قرار دیا۔ پاکستان پر اقتدار کا خواب دیکھنے والا عیاش خلیفہ مرزا طاہر گرفتاری کے ڈر سے برقع پہن کر رات کی تاریکی میں اپنے ننھیال برطانیہ فرار ہو گیا۔ آج ربوہ میں خاک اڑ رہی ہے… ان کے کفریہ عقائد و افکار ”کھائے ہوئے بھوسے“ کی مانند ربوہ کی پرتعفن گلیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ آج کوئی قادیانی کھلے عام اپنے مذہب کی تبلیغ و تشہیر نہیں کر سکتا ،بلکہ کوئی ایسی مرئی و غیر مرئی حرکت نہیں کر سکتا جس سے وہ مسلمان ظاہر ہو۔ یہاں ہر سال تحفظ ختم نبوت کانفرنس بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد ہوتی ہے، جس میں ملک کے طول و عرض سے راہ وفا کے راہ رو… قربانی کے جذبوں سے سرشار… شوق فراواں کے ساتھ… بھرپور شرکت کرتے ہیں۔

…چشم فلک نے آج تک اتنا بڑا انقلاب نہ دیکھا ہوگا… لیکن صاحبو! یہ سب کچھ تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والے بزرگوں اور کارکنوں کی جہدمسلسل کا ثمر اور شہدا کی بے لوث قربانیوں کا نتیجہ ہے… بزرگ اکابرین کی دعاؤں کا اثر ہے… پوری ملت اسلامیہ ان کی احسان مند ہے… اور ہمیشہ رہے گی!
        اے راہِ حق کے شہیدو! وفا کی تصویرو!
        تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
Flag Counter