Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

10 - 17
دنیا کا مال ومتاع اور الله کے ہاں کامیابی کا معیار
	

مفتی ابو احمد عبدالله لدھیانوی

شور برپا ہے کہ مسلمان دنیا میں پست ہو رہے ہیں اور غیر مسلم خصوصاً مغربی قومیں بلند اور ترقی یافتہ ہو رہی ہیں، گویا کہ دنیا میں کام یابی، عزت اور کمال کا معیار دنیا اور متاع دنیا ہی کو سمجھا جارہا ہے، ظاہر بین نگاہیں، دنیا او رمتاع دنیا کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہیں، حالاں کہ کسی چیز کا اچھا یا بُرا ہونا اس کے انجام کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی جو چیز اپنے انجام اور نتیجہ کے اعتبار سے مہلک او رباعث فساد ہو ، ایسی چیز کو محبوب اور پسندیدہ قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس کے حاصل ہونے پر خوشی کا اظہار ہوتا ہے اور نہ ایسی چیز کے حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی جاتی ہے۔ عقل مند اشخاص دنیا کی ہر قوم میں پائے جاتے رہے ہیں۔

قرآن مجید میں تدبر اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجودیکہ دنیا او رمتاع دنیا کو الله تعالیٰ نے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے، لیکن اس کی نعمتوں سے حد سے زیادہ لذت حاصل کرنے او راس میں ضرورت سے زیادہ ترقی حاصل کرنے کوانجام کے اعتبار سے ناپسندیدہ قرار دیا ہے او رمسلمانوں کو خاص طور سے اس میں انہماک سے منع کیا ہے ۔ دنیا میں ترقی کرنا اور اس کی متاع سے لذت حاصل کرنا غیر مسلموں کا شیوہ او ران کا مقصد ہے۔ حدیث میں آیا ہے : الدنیا سجن للمومن وجنة للکافر ، یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے او رکافر کے لیے جنت ہے۔ قرآن میں تو یہاں تک فرمایا گیا ہے:﴿ولولا ان یکون الناس امة واحدة لجعلنا لمن یکفر بالرحمن لبیوتھم سقفا من فضة ومعارج علیھا یظھرون، ولبیوتھم ابواباً وسرراً علیھا یتکئون وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیاة الدنیا والاخرة عند ربک للمتقین﴾․ ( الزخرف:33 تا35)

”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگ ایک طریقہ کے ہو جائیں (کافر) تو جو الله کے منکر ہیں ان کے گھروں کی چھت او ران پر چڑھنے کی سیڑھیاں چاندی کی کر دیتے او ران کے گھروں کے دروازے اور وہتخت بھی چاندی کے کر دیتے جن پر تکیہ لگا کر بیٹھتے ہیں اور سونے کے بھی اور یہ کہ یہ سب کچھ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور دار آخرت آپ کے رب کے ہاں پرہیز گاروں کے لیے ہے۔“

یعنی الله تعالیٰ کے یہاں اس دنیوی مال ودولت کی کوئی قدر نہیں، اس کا دیا جانا کچھ قرب ووجاہت عندالله کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تو ایسی بے قدر اور حقیر چیز ہے کہ اگر ایک خاص مصلحت مانع نہ ہوتی تو الله تعالیٰ کافروں کے مکانوں کی چھتیں ، زینے، دروازے، چوکھٹ، قفل اور تخت چوکیاں سب چاندی اور سونے کی بنا دیتا، مگر اس صورت میں لوگ یہ دیکھ کر کہ کافروں ہی کو ایسا سامان ملتا ہے، عموماً کفر کا راستہ اختیار کر لیتے( الا ماشاء الله) اور یہ چیز مصلحت خداوندی کے خلاف ہوتی، اس لیے ایسا نہیں کیا گیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : کافر کو الله نے پیدا کیا ہے ، کہیں تو اس کو آرام دے آخرت میں تو دائمی عذاب ہے ، کہیں تو آرام (کامل) ملتا، مگر ایسا ہو تو سب ہی کفر کا راستہ پکڑ لیں۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ متاع دنیا سے غیر مسلموں کو بہت کچھ دیا گیا، لیکن مسلمانوں کو ان کے مقابلہ میں کیا کچھ دیا گیا؟ اس اہم سوال کا جواب قرآن حکیم کی مندرجہ ذیلآیت سے حاصل ہو رہا ہے:﴿ولقد اتیناک سبعا من المثانی والقرآن العظیم لا تمدنَّ عینیک الی ما متعنا بہ ازواجاً منھم ولا تحزن علیھم واخفض جناحک للمؤمنین وقل انی انا النذیر المبین﴾․ (الحجر:87 تا89)

” او رہم نے دی ہیں تجھ کو سات آیتیں وظیفہ اور قرآن بڑے درجہ کا ، تو اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھ، جو ہم نے مختلف قسم کی کافروں کو استعمال کرنے کے لیے دے رکھی ہیں اور ان پر غم نہ کر او رجھکا اپنے بازوایمان والوں کے واسطے او رکہہ کہ میں ، ہی ہوں ڈرانے والا، کھول کر۔“

یہ سورت مکی ہے اور حالات یہ تھے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی سب کے سب دنیوی حالات کے اعتبار سے خستہ حالی میں مبتلا تھے اور کافر ومشرک دولت کی عیش وعشرت میں سرشار تھے۔

حضور صلی الله علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مکے او راطراف ونواح کی بستیوں میں مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے، ہر طرف سے مطعون تھے، ہر جگہ تذلیل ،تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیتوں سے بھی کوئی بچا ہوا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارانِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال او رہر طرح کی خوش حالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جارہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو؟ تم کو ہم نے اس دولت سے فائق تر اورمسلمانوں کے لیے ہر شعبہ زندگی کے لیے ساز وسامان اور بے پناہ قوت وطاقت دی ہے ۔ دنیا کی کوئی بھی دولت وثروت اور حکومت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ لہٰذا تم صبر واستقلال سے ان موجودہ حالات کو نبھاؤ، اپنی آنکھ اٹھا کر بھی ان چیزوں کو نہ دیکھو ، جو ہم نے مختلف قسم کے غیر مسلموں کو دے رکھی ہیں ۔ تم کو الله تعالیٰ نے وہ دولت ”سبعاً من المثانی والقرآن العظیم“ عنایت کی ہے جس کے آگے تمام دولتیں گردوغبار ہیں۔ اس تمہاری دولت میں الله تعالیٰ کے پختہ وعدے اور اٹل فیصلے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو غیر مسلموں پر غالب کرے گا او راس کی مدد ونصرت مسلمانوں کو پہنچتی رہے گی ۔ سورہٴ حج میں ارشاد ہے:﴿ان الله یدافع عن الذین اٰمنوا ان الله لا یحب کل خوان کفور، اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا وان الله علی نصرھم لقدیر، الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حق الا ان یقولوا ربنا الله﴾․ (الحج:38 تا40)

” الله دشمنوں کو ہٹا دے گا ایمان والوں سے، الله کو خوش نہیں آتا کوئی دغا باز ناشکرا، حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں ان سے لڑنے کا، اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا او رالله ان کی مدد کرنے پر قادر ہے ، وہ لوگ جن کو نکالا گیا ان کے گھروں سے اور دعوی کچھ نہیں، سوائے اس کے وہ کہتے ہیں ہمارا رب الله ہے۔“

حضرت الاستاذ مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ نے ان آیات کی جو تشریح فرمائی ہے قابل دید ہے ، فرماتے ہیں:

” یعنی اپنی قلت اور بے سروسامانی سے نہ گھبرائیں۔ الله تعالیٰ مٹھی بھر فاقہ مستوں کو دنیا کی فوجوں اور سلطنتوں پر غالب کر سکتا ہے۔ فی الحقیقت یہ ایک شہنشاہانہ طرز میں مسلمانوں کی نصرت وامداد کا وعدہ تھا، جیسے دنیا میں بادشاہ اور بڑے لوگ وعدہ کے موقع پر اپنی شان وقار اور استغنادکھلانے کے لیے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہاں! تمہارا فلاں کام ہم کرسکتے ہیں۔ شاید یہ عنوان اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ مخاطب سمجھ لے کہ ہم ایسا کرنے میں کسی سے مجبور نہیں ہیں۔ جو کچھ کریں گے اپنی قدرت واختیار سے کریں گے۔
Flag Counter