Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1433ھ

ہ رسالہ

2 - 17
اصلاح واستفادہ سے کوئی مستغنی نہیں
	

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی

الحمدلله رب العالمین، والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین: محمد بن عبدالله الأمین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین․

جن لوگوں کو کسی مدرسہ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، یا وہ کسی بزرگ کی خدمت میں استفادے او رتربیت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ،ان کو اس کا بخوبی اندازہ ہو گا کہ زمانہ خواہ کتنا ہی گزر جائے ، اس طالب علم کے لیے اپنے مدرسہ میں کھڑے ہو کر کچھ بیان کرنا یا اس جگہ جہاں وہ استفادے کے لیے حاضر ہوا کرتا تھا کچھ عرض کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

میری مثال بالکل ایسی ہے ، اس لیے کہ میں ہمیشہ اپنے بزرگوں کی خدمت میں اور خصوصاً آخری دور میں حضرت مولانا ( شاہ وصی الله صاحب  ) کی خدمت میں محض اس لیے آتا تھا کہ کوئی ایسی بات سننے میں آئے جس سے دل میں کچھ کیفیت پیدا ہو ، یقین میں اضافہ ہو اور اس میں ایمانی حلاوت نصیب ہو اور رسم وصورت میں حقیقت پیدا ہو۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ کچھ لکھ پڑھ جاتے ہیں یا ان کو کچھ تصنیف وتالیف کا اتفاق ہوتا ہے او ران کی طرف کچھ نگاہیں اٹھنے لگتی ہیں کہ ہم بھی کچھ جانتے بوجھتے ہیں تو پھر اب ان کو کچھ سننے کی او رکہیں جانے کی اور کسی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں تو ان کا یہ خیال بالکل صحیح نہیں، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی دور میں بھی اور کسی عمر میں بھی اور کسی حالت میں بھی استفادے سے بلکہ اصلاح سے مستغنی نہیں ہوتا۔

صحابہٴ کرام کو بھی اپنے ایمان کی فکر رہتی تھی
ہمہ شما کا تو خیرذکر کیا ہے ؟ جن کو حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی صحبت حاصل تھی ،جس کو کیمیا اثر کہنا بھی حقیقت میں اس کی کچھ تعریف نہ ہو گی ، بس یوں سمجھیے کہ ایسی پاک صحبت، جس کے بعد کسی صحبت کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور کوئی صحبت اس سے بڑھ کر مؤثر نہیں ہو سکتی ، مگر پھر بھی صحابہ کرام کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ہمیشہ اس بات کی فکر وطلب رہتی تھی کہ اپنے ایمان میں اضافہ کریں اورہمارے قلوب میں وہی سوز وگداز اور وہ کیفیات پیدا ہوں جو صحبت نبوی میں حاصل ہوا کرتی تھیں یا کم از کم اس کا اثر یا عکس ہی نصیب ہو جائے ، چناں چہ بخاری شریف میں ایک جلیل القدر صحابی کا یہ قول امام بخاری  نے نقل کیا ہے ”إجلس بنا نؤمن ساعة“ آؤ بھائی! تھوڑی دیر بیٹھ کر ذرا ایمان کی باتیں کر لیں اورایمان کا مزہ اٹھا لیں ، ایمان کے جھونکے آئیں اور ہم اس سے لطف اندوز ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ  کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی تو بعد والے کیوں کر اس سے مستغنی ہو سکتے ہیں ؟ بلکہ واقعہ یہ ہے اور جن لوگوں کو تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ کہنے سننے سے آدمی کے قلب میں ضرور ایک بے کیفی سی پیدا ہو جاتی ہے او راس میں کہنا سننے سے زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ، سننے سے اتنی بے کیفی قلب میں نہیں پیدا ہوتی ہے جتنی کہنے سے ہوتی ہے ، اس لیے ایسے لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ کبھی سامع ہوں، قائل نہ ہوں اورکبھی صرف مستفید ہوں، مفید نہ ہوں او رکبھی مخاطَب ہوں مخاطِب نہ ہوں اورہمہ تن گوش ہو کر کسی الله والے کی باتیں سنیں، تاکہ قلب میں ایسا کیف پیدا ہو جس سے قلب کی زندگی ہے۔

اپنے کو ہمیشہ قابل اصلاح سمجھنا چاہیے
غرض جن لوگوں کو ذرا بھی تجربہ ہے ، ان کے قلوب مردہ نہیں ہو چکے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ ان کو دوسروں سے ہزار درجہ زیادہ اپنے ایمان کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے او رالله والوں کی بات ادب وتعظیم کے ساتھ سننے کی ضرورت ہے ، اگر وہ سمجھیں کہ ہم مستغنی ہیں یا ہم بھرے ہوئے ہیں، توان سے زیادہ محروم وبدقسمت کوئی نہیں، بزرگانِ دین نے اس کی ایسی مثال بیان فرمائی ہے کہ اگر کوئی فقیر اس طرح صدا لگائے کہ یوں تو میرے پاس سب کچھ ہے ، ہمارا کشکول بھی بھرا ہوا ہے، پھر بھی صدا لگاتا ہوں تو بڑے سے بڑے سخی کے اندر سخاوت کا جذبہ نہیں پیدا ہو گا ، اس کے لیے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے کو محتاج ظاہر کیا جائے ، یہی حال اب یہاں بھی ہونا چاہیے ، ( یعنی الله والوں کے ہاں) ان حضرات کے یہاں اس طرح سے حاضر ہونا چاہیے کہ ہم بالکل خالی ہیں ، مفلس ومحتاج بن کر آپ کی خدمت میں کچھ لینے کے لیے آئے ہیں۔

مجھے یہاں سے بہت فائدہ ہوا
واقعہ یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مجھے اس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی کہ میں ایسے حضرات کی خدمت میں حاضر ی دوں او رپھر ایسے دو رمیں او رہمارے جوار میں حضرت مولانا وصی الله صاحب  سے زیادہ شفقت کرنے والا نظر میں کوئی نہیں تھا او رمناسبت کی بات تو بالکل غیر اختیاری ہے ، اس کے لیے کوئی معلوم اور متعین اصول نہیں ہیں، کیوں ہو تی ہے ؟ کب ہوتی ہے ؟ کیسے ہوتی ہے ؟ اس کے اصول تو کسی بڑے سے بڑے حکیم نے بھی نہیں بتائے تو مناسبت منجانب الله ایک چیز ہے ، بہرحال حضرت کی صحبت سے مجھے فائدہ ہوتا تھا، حضرت کی شفقتوں سے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، وہ تو تمہارے دوستوں کو اور یہاں کے حاضر باش بزرگوں کو یاد ہوں گی ، باقی سب سے بڑا فائدہ یہاں کی حاضری میں مجھے یہ ہوتا تھا ( جس کی شاید آپ حضرات توقع نہ کریں گے ) وہ یہ کہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم یہاں بالکل عامی ہیں اور گنوار ہیں، ہمیں ان چیزوں کی ہوا بھی نہیں لگی اور یہ کہ دین کی حقیقت ان ہی حضرات کے یہاں آکر معلوم ہوتی ، اگر کوئی اور فائدہ نہ ہوتا، سوائے اس اصول اور کلی فائدے کے تو سب سے بڑا فائدہ یہی تھا کہ کہیں تو آدمی کو یہ معلوم ہو کہ وہ کچھ نہیں جانتا، کہیں تو آدمی کو معلوم ہو کہ وہ محتاج ہے ، تو سب سے بڑی چوٹ جو یہاں آکر دما غ پر لگی تھی وہ یہ تھی کہ ہم تو بالکل عامی اورجاہل ہیں ،ہمیں تو صرف نقوش آتے ہیں، باقی دین کی حقیقت سے ہم بہت دور نظر آتے ہیں ، اس کو علامہ اقبال  نے کسی کے متعلق کہا ہے #
        سرِ دیں مارا خبر او را نظر
        او درونِ خانہ ما بیرونِ در

یعنی ہمارے لیے دین کی حقیقت سنی سنائی چیز ہے اور ان کے لیے جانچی پرکھی ، دیکھی بھالی اور چکھی ہوئی چیز ہے ، وہ گھر کے اند رہیں او رہم گھر سے باہر ، غرض بزرگانِ دین کے یہاں جا کر آدمی کی سمجھ میں یہ بات آجاتی ہے ، خاص کر پڑھے لکھے لوگوں کی سمجھ میں کہ ہمیں اپنی صورت میں حقیقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے او راپنے قالب میں روح پیدا کرنے کی حاجت ہے ، یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔

سید صاحب  کا مولانا تھانوی سے استفادہ
مجھے یاد ہے کہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے جب حضرت مولانا اشرف علی تھانوی سے رجوع کیا تو ان کے بہت سے غالی معتقدین کو ناگوار ہوا اور سید صاحب سے احتجاج کیا کہ ہماری جماعت کی ایک طرح کی سبکی ہوئی کہ ہم نے آپ کو بڑا بنایا تھا، گویا آپ شیخ الکل تھے اور ہر چیز میں آپ امام کا درجہ رکھتے تھے اور آپ نے دوسرے کا دامن پکڑ لیا تو اس سے ہماری خفت ہوئی ، اس پر ایک دن سید صاحب نے فرمایا کہ یہ عجیب لوگ ہیں ، ایک طرف تو میرے معتقد بنتے ہیں دوسری طرف مجھ ہی پر اعتماد نہیں کرتے ، یعنی میں اپنا فائدہ سمجھ کر وہاں گیا تو ان کو اس سے اختلاف ہے ، گویا میرے استاد بن کر مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ آپ کہاں چلے گئے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ میں ان سے پوچھ کر وہاں جاتا، میں تو اپنا فائدہ اس میں دیکھتا ہوں اور آپ کی خاطر وہاں نہ جاؤں، گویا اس دولت سے میں محروم رہوں۔

سب سے بڑی ذہانت روح کی ذہانت ہے
ان حضرات کے یہاں جوباتیں ملتی ہیں وہ صرف نکتے اور موشگافیاں نہیں ہیں، وہ تو ذہانت کا نتیجہ ہے ، در حقیقت ذہانت کے چار درجے ہیں اور ذہانت کا آخری درجہ ہے روح کی ذہانت ۔ یہ روح کی ذہانت ایسی لطیف ہے کہ اس کا بیان الفاظ میں مشکل ہے ، جہاں سرحدیں ختم ہوتی ہیں دماغ کی ذہانت کی ( جس سے پہلے زبان کی ذہانت کا درجہ تھا) وہاں سے قلب کی ذہانت شروع ہوتی ہے اور جہاں قلب کی ذہانت کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں سے روح کی ذہانت کی سرحد شروع ہوتی ہے اور وہ الله تعالیٰ کے ان مخلص اور مقبول بندوں کو حاصل ہوتی ہے جن سے الله تعالیٰ تربیت کا کام لیتے ہیں،اس میں سامنے ہو نا،نہ ہونا، مسافت کا قرب وبعد ، معرفت وعدم معرفت سب برابر ہے ، کوئی چیز اس کے لیے شرط نہیں ، ان حضرات کی روح اتنی براق ، اتنی سریع الادراک ہوتی ہے ، کہ بلاکسی شرط کے خیر وشر کی تمیزان کوحاصل ہو جاتی ہے ، خصوصی طور پر ان حضرات کے یہاں جو چیز مجھے محسوس ہوتی ہے وہ یہی ہے اور یہ بھی الله تعالیٰ کا مجھ پر بہت بڑا فضل ہے کہ بغیر کسی وجہ کے، جس کی وجہ مجھے خود نہیں معلوم ،الله تعالیٰ نے ایسے بندوں کے پاس مجھے پہنچا دیا ، حضرت مولانا محمد الیاس صاحب  کے یہاں ہم نے روح کی ذہانت کے کھلے نمونے دیکھے اور پھر حضرت ( شاہ وصی الله صاحب ) میں ، میں نے ان دونوں بزرگوں میں بہت زیادہ مشابہت دیکھی اگرچہ الله تعالیٰ نے ان دونوں بزرگوں سے الگ الگ کام لیا، ذوق بھی دونوں کا الگ الگ تھا، لیکن بہت سی چیزوں میں مشارکت تھی ، خصوصاً قلب کی ذہانت او رروح کی ذہانت میں۔

فوق کل ذی علم علیم
بہرکیف میں ان حضرات کے یہاں اس لیے آیا کرتا تھا کہ کبھی تو اس پُر رعونت اور فریب خوردہ کو یہ محسوس ہو کہ وہ کچھ نہیں ہے کیوں کہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی چیز خطرناک نہیں ہے کہ اس کو کبھی محسوس نہ ہو کہ کوئی کوچہ ایسا بھی ہے جس سے وہ واقف نہیں اور خاص طور سے دین کے متعلق اگر یہ ذہن میں آجائے کہ مجھے سب کچھ معلوم ہے اور اب مجھے کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ، تو اس سے زیادہ خطرناک کوئی چیز نہیں ہے ، ایسا آدمی جوبھی دعوی ٰ کر دے بعید نہیں ہے اور اسی طرح کے لوگوں نے دعویٰ کیا بھی ہے ۔ ان لوگوں نے دعویٰ نہیں کیا جوپہاڑ کے نیچے کھڑے تھے کہ جب سر اٹھاتے تو دیکھتے کے آسمان بھی بہت اونچا ہے ۔ بلکہ جو لوگ سمجھے کہ ہم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں انہوں نے دعویٰ کیا ہے ، انسان کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی چیز محافظ نہیں او راس پر یہ بڑا فضل ہے کہ اس کو یہ معلوم ہو کہ دین کی ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں جا کر دین کی وہ باتیں سننے میں آسکتی ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ہمارا میدان نہیں اور یہاں ہمارا گزر نہیں۔

دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
کوئی شخص اگر ایسا ہو کہ بولنے پر آئے تو بولتا جائے اور لکھنے پر آئے تو لکھتا جائے اور دنیا بھر کے لوگ مل کر اس کی تعریف کرنے لگیں تو اس سے کچھ نہیں ہوتا ، بلکہ ” سرّ دین“ جس کو علامہ اقبال نے کہا ہے اس کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے او روہ الله کے ان خاص بندوں ہی کے پاس ہوتا ہے ، یہی چیز تھی جس کی وجہ سے حضرت ملا نظام الدین بانی درس نظامیہ نے سید عبدالرزاق بانسوی کا دامن پکڑا ،جو بالکل ہمارے بارہ بنکی اور لکھنؤکے دیہات کی بولی بولتے تھے، جیسے آوت ہے ، جاوت ہے ۔ ( یعنی آتا ہے، جاتا ہے ) یہ ان کی زبان تھی، مگر ملا نظام الدین  کا حال یہ ہے کہ مناقب رزاقیہ میں د یکھتے چلے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل ہیچ سمجھ رہے ہیں اور آپ ہر دور میں اس کی مثال دیکھیں گے ، تیرہویں صدی میں مولانا عبدالحئی صاحب ، جن کو شاہ عبدالعزیز صاحب  خود شیخ الاسلام کا لقب دیتے ہیں اور مولانا اسماعیل شہید جن کو ( شاہ صاحب ) حجة الاسلام کے لقب سے یاد کرتے ہیں ، چناں چہ فرماتے ہیں کہ شیخ الاسلام مولانا عبدالحئی اور حجة الاسلام مولانا اسماعیل شہید  اگرچہ یہ دونوں میرے عزیز ہیں اور مجھ سے چھوٹے ہیں ، مگر اظہار حق واجب ہے، اس لیے کہتا ہوں کہ الله تعالیٰ نے ان لوگوں کو وہ مقام عنایت فرمایا ہے کہ جو کمتر کسی کو حاصل ہے ، نیز فرماتے ہیں کہ ان کو مجھ سے کم نہ سمجھو ۔ تو ان لوگوں کو دیکھیے کہ سید احمد شہید  سے رجوع ہوئے، جو کہ اُمی تو نہیں تھے، مگر محض فارسی داں تھے اورجو کوئی پاس سے گزرتا اس سے پوچھتے ارے بھائی! اس لفظ کے کیا معنیٰ ہیں ذرا بتاتے جائیے۔ ان کا یہ علم تھا او رمولانا عبدالحئی سے تو انہوں نے پڑھا بھی تھا ،اس کے باوجود ان دونوں حضرات نے سید صاحب کی رکاب جو تھامی ہے تو مرتے دم تک نہیں چھوڑی، جب کوئی پوچھتا کہ آپ لوگوں نے سید صاحب میں کیابات دیکھی جس کی وجہ سے ان کی طرف رجوع کیا، حالاں کہ وہ علم میں بھی آپ کے مقابلے میں کوئی مقام نہیں رکھتے؟ تو فرماتے: بھائی! ہم کو نماز پڑھنی بھی نہ آتی تھی، انہوں نے نماز پڑھنا سکھایا، روزہ رکھنا نہ آتا تھا انہوں نے روزہ رکھنا سکھایا، نیز فرمایاکہ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ جیسی او ربہت سی چیزیں ہیں ، یہ بھی ضروری ہے کہ کوئی جگہ ایسی ہو جہاں پڑھے لکھوں کو بھی جا کر معلوم ہو کہ میں کچھ نہیں ہوں، اگر خوانخواستہ ایسی جگہیں ختم ہوگئیں اور ایسے الله کے بندے نہ رہے ، اگر صرف مدّ عیانِ علم رہ گئے او رہم جیسے لوگ رہ گئے جن کے متعلق لوگ معلوم نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں تو یہ بڑے خطرے کی بات ہے #
        عالم نشود ویراں تا میکدہ آباد است

الله کا بہت بڑا فضل ہے کہ کچھ ایسے حضرات موجود ہیں، جہاں نہ کسی خوش بیانی کی ضرورت ہے او رنہ کسی بڑے وسیع مطالعہ کی حاجت، یہ سب چیزیں تو ہر جگہ موجود ہیں۔

علم کتاب وعلم لدنّی میں فرق ہے
میں تو کہا بھی کرتا ہوں او راس میں تنہا نہیں ہوں کہ آج کل کے علما کے وعظ میں میرا جی نہیں لگتا۔ جلسے کی تحقیر اور علما کی تنقیص نہیں کرتا او را س کے فائدہ کا بھی انکار نہیں ، لیکن خدا جانے کیا بات ہے ؟ بیماری ہی سمجھ لیجیے کہ میرا جی نہیں لگتا ، ہمارا جی تو بس ایسے وعظ میں لگتا ہے جس میں خالص الله اور اس کے رسول کی بات پرانے انداز سے کہی جائے او رجنت اور دوزخ کا تذکرہ کیا جائے ، چناں چہ جب یہ حضرات تقریرکرتے ہیں تو صافمعلوم ہوتا ہے کہ نہ یہ کتابی علم ہے، نہ کتابوں کی باتیں ہیں ، بلکہ یہ علمی باتیں ہیں ، سیدھی سادی دین کی باتیں او رایسے انداز سے کہی جاتی ہیں کہ ہم کو بھی اس سے فائدہ ہوتا ہے۔

حضرت مولانا کی خدمت میں بھی ہم جب آتے تھے تو معلوم ہوتا کہ جو کچھ فرمارہے ہیں وہ حقیقت ہے او ران کے یہاں لب لباب ہے ، یہ نہیں کہ ایک چیر کو خوب پھیلا کر بیان کیا جارہا ہے ، یہ چیز تو ہم کو دوسری جگہ نہیں ملتی ، ہمارے یہاں کتب خانے ہیں اور دوسرے ذرائع ہیں جن سے ہم کسی بھی مضمون کو پھیلا سکتے ہیں ، لیکن ان حضرات کے یہاں جو حقائق ہیں ان کی نوعیت ہی کچھ اور ہے ۔

مولانا جامی صاحب نے ایک عالم کا جو مکالمہ سنایا کہ میں اور جگہوں پر گیا وہاں یہ چیز محسوس نہ ہوئی جو حضرت  کی خدمت میں آکر محسوس ہوئی ، اس کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ، وہ یہ کہ بزرگوں کے یہاں کوئی نیا دین ، کوئی نیا علم ، کوئینئی تحقیق ، کوئی نیا انکشاف نہیں ہے ، اس بارے میں بھی لوگ بہت غلط فہمی میں ہیں ، معلوم نہیں کیا سمجھتے ہیں کہ بزرگانِ دین کے یہاں جاکر کیسے کیسے دین کے اسرارنِکات او رعجیب عجیب تحقیقات سننے میں آئیں گی ، کہیں کہیں یہ بھی ہوتا ہے ، چناں چہ محی الدین ابن عربی کے یہاں، مجدد الف ثانی اور شیخ مخدوم یحییٰ بہاری کے یہاں توایسے ایسے نکات ہیں کہ بڑے بڑے فلسفی ان کے سننے کے بعد کان پکڑ لیں او رسمجھیں کہمجھے تو علم کی ہوا بھی نہیں لگی ، لیکن ان حضرات کے یہاں سے جوچیز لینے کی ہے وہ یہ کہ صورت اور رسم میں حقیقت پیدا کی جائے او رمیں سمجھتا ہوں کہ یہی خلاصہ بھی ہے تصوف کا، جس کا مطلب گویا بس اس کے سوا کچھ نہیں کہ نماز تو پڑھتے ہیں ، صحیح نماز پڑھنے لگیں اور دین کے سارے شعبوں میں حقیقت نہیں تھی ، نیت صحیح نہیں تھی، اخلاص صحیح نہیں تھا، حقیقت پیدا ہو جائے او رنیت درست ہو جائے، نیز ان کا ادب واحترام پیدا ہو جائے ، احکام شرعیہ کا اہتمام او رانتظام یہ دونوں ہی چیزیں ضروری ہیں۔

حضرت مولانا کی تصنیف” تصوف او رنسبتِ صوفیہ“ اس سلسلہ کی بہترین چیز ہے، میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا، پھر کہہ رہاہوں کہ یہ کتاب اس قابل ہے کہ دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا جا ئے اور علما خاص طو رپر اس کو پڑھیں ، کیوں کہ تصوف کی اصطلاح نے ہی اس پر پردہ ڈال دیا ہے، لہٰذا بجائے تصوف کے، جیسا کہ حضرت مولانا کا معمول تھا، اس کو ” نسبتِ احسان“ یا ”حقیقت “سے تعبیر کیا جائے، اگر سب حضرات مل کر اس بات کو قبول کر لیں او رگویا یہ کام مشکل ہے لیکن اگر ہو جائے تو کیا خوب ہے کہ منکرین تصوف سے ہمارا آدھا اختلاف تو اسی سے ختم ہو جائے گا۔

اخلاص نیت واحتساب تصوف ہے
تصوف کا لب لباب او رخلاصہ یہی ہے کہ جو کچھ ہم صبح سے شام تک کرتے رہتے ہیں، بغیر نیت کے اور بغیر کسی احتساب کے، وہ ہم احتساب اور نیت کے ساتھ کرنے لگیں۔ ہمارے اندر اصلیت پیدا ہو جائے ، نیز اس کی اہمیت پیدا ہو جائے ، گویا نمک ہے، مگر اس میں نمکینی نہیں ہے ، شکر ہے، مگر اس میں مٹھاس نہیں ہے ، مٹھاس پیدا ہو جائے ، پانی ہے، مگر اس میں برودت اور تسلی دینے اور پیاس بجھانے کی صلاحیت نہیں ، وہ ایسا ہو جائے کہ اس سے ہمارا حلق تر ہو رہا ہو ، ہمارے جسم کا ایک ایک عضو تر ہو رہا ہو او رہماری زبان سے الله کا شکر ادا ہو ، ہمارے اور پانی کے درمیان جو رشتہ ہے حقیقت میں وہ ٹوٹ گیا ہے ۔ پانی بھی موجود ہے او رہم بھی ہیں، لیکن پانی سے جو فائدہ ہم کو پہنچنا چاہیے وہ نہیں پہنچ رہا ہے ، اس میں پانی کا نقص کم او رہمارا نقص زیادہ ہے ، بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے او راس کے درمیان پل ٹوٹ گیا ہے، پل تعمیر کر لیجیے، تاکہ اپنا کام کرنے لگے ، الله کی نعمتیں بٹ رہی ہیں، الله کی دنیا بالکل اسی طریقے سے ہے جیسی تھی،لیکن اس سے استفادہ کے جو وسائل تھے وہ کمزور ہو گئے ہیں۔ بقول اکبر مرحوم #
        الله کی راہ اب تک ہے کھلی آثار ونشاں سب قائم ہیں
        الله کے بندوں نے لیکن اس راہ پر چلنا چھوڑ دیا

یہی حال دین کی نعمتوں کا ہے ، قرآن وہی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات وہی ، احکام شرعیہ سب وہی اور ان پر الله کے جو وعدے ہیں سب برحق ، لیکن ہمارے او ران کے درمیان جو رشتہ ہونا چاہیے تھا اعتقاد کا ، یقین کا ، بھروسے کا اور شوق کا، وہ ٹوٹ چکاہے ، اسی کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، بس یہی چیزیں ان حضرات سے لینے کی ضرورت ہے او راسی کے وہ امام تھے ۔ ان کی تحریریں او ران کے ملفلوظات او رارشادات ابھی بھی موجود ہیں اور ان میں وہی تاثیر ہے ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت نے جو گرامی نامہ میرے نام تحریر فرمایا تھا، اس میں خواجہ محمد معصوم کی ایک عبارت بھی نقل فرمائی تھی ، جس میں﴿ففروا الی الله﴾ تحریر تھا، میں نے جب حضرت کا وہ خط پڑھا تو مجھ پر کئی دن تک اس کا اثر رہا ، خواجہ معصوم  کا مضمون بالکل ایسا ہوا کہ ایک زندہ چیز ہے او رابھی کسی الله کے بندے نے لکھا ہے ۔ ایک تو حضرت خواجہ محمود معصوم  کی تحریر،پھر حضرت  کا اس کو نقل کرنا، ان دونوں باتوں کے امتزاج سے اس میں اثر ہی دوسرا تھا۔

خدا کا شکر ہے ” جائے بزرگان بجائے بزرگاں“ آج حضرت تو نہیں ہیں، مگر حضرت کے جو معمولات تھے او ران کی اصلاح وتربیت کا جوطریقہ تھا وہ آپ حضرات نے الله کے فضل او راس کی توفیق سے جاری رکھا ہے ، حضرت  کی یہ مقبولیت اور خصوصیت ہے، ورنہ بہت سی جگہ دیکھا کہ جب وہ بزرگ اٹھ گئے تو سب چیزیں ختم ہو گئیں او روہ جگہ خالی ہو گئی ، سوا اس کے کہ جاکر زیارت کر لیجیے، کوئی پیغام وہاں سے نہیں ملتا اور دل کی دوا وہاں نہیں ملتی۔
Flag Counter