Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 16
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
اپنے بالوں کی اپنے سر پر ہی سرجری کروانا
سوال…آج کل بالوں کی سرجی ہوتی ہے یعنی سر کے ایک حصے کے بال باقی سر پر سرجری کے ذریعے لگائے جاتے ہیں، لیکن دوسرا طریقہ مصنوعی بال لگانے کا ہے ، اس طرح سرجری کے ذریعہ بالوں کا لگانا جائز ہے یا نہیں اور ان پر مسح کی کیا صورت ہو گی۔
جواب… سرجری کے ذریعے سر کے ایک حصے کے بال دوسرے حصے پر لگانے کی گنجائش ہے ، بشرطیکہ کسی مرض کی وجہ سے ، یا قدرتی طور پر وقت سے پہلے بال گر گئے ہوں ، مصنوعی بال لگانے میں تفصیل ہے : اگر پیوندکاری وسرجری کے ذریعے لگائے جار ہے ہوں تو انسانی بالوں کے علاوہ جانوروں کے بال ، ہوں تو جائز ہے، انسانی بال لگوانا ناجائز ہے ، اگر کسی نے لگوالیے تو گناہ گار ہو گا، البتہ ان پر مسح ہو جائے گا، بالوں کی سرجری نہ ہو ، بلکہ وگ کے طور پر استعمال کیے جائیں تو اس میں ضروری ہے کہ وہ مصنوعی یا غیر انسانی بالوں کی ہو، دھوکہ دہی کی غرض سے استعمال نہ کی جائے ، وگ پر مسح جائز نہیں ، اتار کر سر پر مسح کرنا ضروری ہے ، خنزیر کے بالوں کو نہ بطور وگ استعمال کرنا جائز ہے نہ ہی سرجری کے ذریعے، لگوالینے کی صورت میں جب تک نکلوانہ لیے جائیں طہارت حاصل نہ ہو گی۔

موبائل پر گفتگو کرنے کے آداب
سوال… آج کل موبائل فون بہت عام ہوچکا ہے، اس کے ذریعہ سے کسی دوسرے سے بات کرنے میں کیا کوئی شرعی احکام بھی ہیں، اسی طرح آوازوں کو تبدیل کرنا اور دوسروں کو تنگ کرنا وغیرہ کیسا ہے
اچھے بُرے ایس ایم ایس کرنا کیسا ہے او رکبھیایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھے ایس ایم ایس کو آگے بھیجنے کی تاکید بھی ہوتی ہے۔
جواب… واضح رہے کہ موبائل فون کی ضرورت سے آج کے دور میں انکار تو نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس ضرورت کی چیز سے اگر شریعت کی روشنی میں فائدہ حاصل کرلیا جائے ، تو شاید روز مرہ کے المناک واقعات ( جو موبائل کے استعمال سے رونما ہو رہے ہیں ) کسی حد تک بند ہو جائیں بلکہ کماحقہ اگر شریعت کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے موبائل فون استعمال کیا جائے تو موبائل ایک راحت کی چیز ہے۔
اس وجہ سے شریعت اسلامیہ کی روشنی میں علمائے کرام نے پوری جانفشانی کے ساتھ موبائل فون سے متعلقہ مسائل بیان کرکے، ساری امّت کی طرف سے اس اہم فرایضہ کو احسن طریقے سے سر انجام دیا ہے۔
موبائل فون پر بات کرنے میں مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھنا ضروری ہے:
#… بات شرع کرنے سے پہلے سلام کرنا۔
#… اگر پہلے سے تعارف نہ ہو ، یا تعارف کے باوجود نہیں پہچان رہے ہوں تو تعارف کرانا۔
#… غیر مسلم کو کلمہ احترام سے مخاطب کرنا، اس کے لیے سلام نہیں۔
#… اگر کہیں عورت سے بات کرنے کی ضرورت یپش آجائے تو سلام نہیں کرنا، لیکن چوں کہ فون پر فتنے کا اندیشہ کم ہوتا ہے ، تو سلام کی گنجائش بھی ہے ، لیکن احتیاط بہتر ہے۔
#… اگر خود کو ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں ، تو خود ہی وضاحت کر دینی چاہیے کہ میں فلاں شخص ہوں اور فلاں شخص سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں ، جیسا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے مکتوبات میں یہی طریقہ اختیار فرمایا ہے۔
#… تین بار فون کی گھنٹی جانے کے باوجود اگر فون نہ اٹھایا جائے تو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت ملاقات کی اجازت نہیں ، کسی دوسرے وقت رابطہ کی کوشش کرنی چاہیے۔
#… ایسے اوقات میں رابطہ نہیں کرنا چاہیے ، جس میں مخاطب کی مشغو لیت کا یا آرام کا وقت مثلا نماز میں ، یاد دیگر روز مرہ مشاغل ۔
#… لمبی گفتگو کرنی ہو تو پہلے اجازت لے لینی چاہیے ( البتہ اگر پہلے سے بات ہوئی ہو کہ فلاں وقت فون پر رابطہ ہو گا ، تو یہی اجازت کافی ہے کہ مجھے اتنی دیر گفتگو کرنی ہے ، اگر مناسب ہو تو اسی وقت گفتگو کرے ، یا کوئی او روقت طے کرے، اس میں دونوں کی راحت ہے۔
#… اگر مخاطب گفتگو کرنے سے معذرت کر دے تو اس کو تکبر پر محمول نہیں کرنا چاہیے کہ ہر شخص کے اپنے مشاغل ہوتے ہیں ، اس میں دخل اندازی کسی طرح مناسب نہیں۔
#… چوں کہ قرآن کریم نے ایسی جگہوں پر بلا اجازت آنے کی اجازت دی ہے ، جو رہائشی نہ ہو ں (النور:29) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پبلک مقامات جیسے، ائیرپورٹ، ریلوے اسٹیشن ، بس اسٹینڈ، سرکاری اور نجی اداروں کو ان کے مقرر کردہ اوقات کار میں کسی بھی وقت فون کیا جاسکتا ہے اور ان اداروں سے پیشگی اجازت کے بغیر بھی لمبی بات کرنے کی گنجائش ہے۔
#… بلاوجہ فون پرگفتگو کرنے او رجواب دینے سے انکار کرنا بداخلاقی کی بات اور ایک طرح کی حق تلفی ہے۔
#… اسی طرح اپنے ماتحت کو یہ تاکید کرنا، کہ فون ملانے والے سے کہو کہ موجود نہیں یا او رکوئی بہانہ بنانا اور اس طرح رہتے ہوئے موجود نہ رہنے کی اطلاع دینا گناہ ہے، البتہ اگر جان ، مال ، عزت آبرو کی حفاظت کے لیے جھوٹ بولنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہو تو تو ریہ کی گنجائش ہو گی۔
#… بار بار فون کرکے دوسروں ایک پریشان کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
#… آوازوں کو تبدیل کرکے بات کرنا، کسی کو دھمکی دینا، فحش باتیں کرنا گالی گلوچ وغیرہ یہ اخلاقاً بھی ناپسندیدہ او رگناہ کی باتیں ہیں ۔
#… فون ایسی ملاقات ہے ، جس کی اجرت ادا کرنی پڑتی ہے ، اس لیے ضروری بات اور نہایت مختصربات کرنی چاہیے ، غیر ضروری باتیں کرنا، یا ضروری بات کو ضرورت سے بڑھانا ، اسراف وفضول خرچی ہے، جو کہ شرعیت کی نگاہ میں بہت بُری چیز ہے۔
#… متعارف شخص ہو، یا غیر متعارف، ایسی گفتگو کرنی چاہیے، جس سے مخاطب مانوس ہو ، خشک او رروکھی گفتگو نہیں کرنی چاہیے ، الا یہ کہ عورت کو غیر محرم سے گفتگو کرنی پڑ جائے تو بات چیت میں لوچ اور حلاوت کا اظہار نہ ہو بلکہ لہجہ سخت ہونا چاہیے۔
#… عام حالات میں بلا اجازت کسی کی گفتگو ریکارڈ کرنا جائز نہیں، مجلسوں میں کہی گئی باتیں امانت ہوتی ہیں۔
#… ایسے وقت میں موبائل پر گفتگو کرنا ، جس سے دوسروں کی حق تلفی لازم آتی ہے ، درست نہیں ، مثلاً مزدور، مزدوری کے دوران، ملازم ملازمت کے وقت ، مدرس ،تدریس کے وقت وغیرہ۔
#… مسجد میں موبائل فون پر دنیاوی باتیں کرنا، آداب ِ مسجد کے خلاف ہے۔
#… بھری مجلس میں اور نچی آواز سے جس سے حاضرین تکلیف محسوس کریں ، بات نہیں کرنی چاہیے ،بلکہ ایک طرف ہو کر بات کرنی چاہیے، اسی طرح کسی کے سوتے ہوئے اونچی آواز سے باتیں کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔
#… آخر میں ( چوں کہ موبائل فون ایک قسم ملاقات ہی ہے ) سلام کرنا چاہیے تاکہ ملاقات کا اختتام سلام پر ہو جائے۔
غرضیکہ کہ موبائل فون ایک طرح کی ملاقات ہے ، اس لیے بنیادی طور پر جو آداب ملاقات کے ہیں ، وہی فون پر گفتگو کرنے کے بھی ہیں۔
ایس ایم ایس اگر صحیح بات کا ہو ، تو درست ہے ، لیکن عام طور پر ایس ایم ایس خرافات لغویات وغیرہ سے بھرے ہوتے ہیں، اس سے احتراز ضروری ہے۔
بعض لوگ قرآن پاک کی آیتوں کو انگریزی رسم الخط میں ایس ایم ایس کرتے ہیں، سوجاننا چاہیے کہ قرآن پاک اپنے رسم الخط کے بغیر لکھنا اور اس طرح آگے بھیجنا ہرگزدرست نہیں، احتراز کرنا ضروری ہے ، اسی طرح احادیث کو بھی اس طرح نہیں لکھنا چاہیے کہ اس میں حدیث غلط پڑھی جاتی ہے، البتہ مفہوم لکھ کر بھیجنے کی گنجائش ہے۔
نیز ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو اگر کسی طرح معلوم ہو جائے کہ یہ حدیث ہے ، تو وہ تحقیق کیے بغیر دوسرے کو ایس ایم ایس کرکے آخر میں حدیث ، یا فرمانِ نبوی صلی الله علیہ وسلم لکھتا ہے سواس میں غایت درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ، جب تک معلوم نہ ہو کہ مستند کتاب کی حدیث ہے او راس کے متعلق محدثین کا کلام بھی سامنے نہ ہو ، تو ایس ایم ایس کرنے کے بجائے نہ کرنا ہی اولیٰ ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔

Flag Counter