***
حدیث کے میدان میں نئے چیلنجزاورعلوم حدیث کی بازیافت
مولانا ساجد صدوی
شعبہ تخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، اعمال اور تقریرات واحوال، کامیابی کازینہ،بارگاہ الہی میں تقرب کاذریعہ ،شریعت مطہرة کابنیادی حصہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عظیم امانت کی حفاظت ،نقل روایت میں احتیاط اور عمومی اشاعت وابلاغ کے لیے غیرمعمولی اہتمام کیاگیا، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی قدسی صفات جماعت نے اس کو محنت وکوشش کامرکز بنایا اور اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرکے بارِامانت نبوی کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوئے ۔
احادیث نبوی کوخوب توجہ سے سننے، یاد کرنے ،لکھنے اور سمجھنے کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کا بھی اہتمام کیا ، پوری کوشش کی ، ان لوگوں پربھی کڑی نظر رکھی جو احادیث بیان کرنے کے لیے حلقے لگاتے تھے ، بے احتیاطی کا ارتکاب کرنے والوں کی خوب گرفت کی اُن کے ساتھ کوئی رو رعایت نہیں رکھی ، حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کاطرزِعمل ، اشاعت وابلاغ کے لیے انتھک کوششیں اورنہایت محتاط رویہ بعد کی امت کے لیے بالعموم اوراصحاب ِحدیث کے لیے بالخصوص بے پناہ ذوق وشوق کاذریعہ، کڑی شرائط کے اطلاق کے لیے بہترین نمونہ اور بنیاد بنا ۔
خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذی النورین - رضی اللہ عنہ - کی شہادت سے پہلے تک کے اسلامی معاشرہ میں اس بات کا چنداں اندیشہ کرنے کی حاجت نہ تھی کہ کوئی بدبخت اپنی طرف سے باتیں بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کرتارہے گا، اور اس کی باتیں یوں ہی چلتی رہیں گی ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات واعمال ، تقریرات واحوال، ذوق ومزاج ، طرزواداء اور اسلوب وانداز سے اچھی طرح باخبرجانثار صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ، کی ایک بڑی جماعت ہروقت موجودرہتی تھی ، شیطانی چالوں کے ساتھ چلنے والوں کو جمع ہونے کاکوئی موقع نہ تھا۔
انفرادی طورپران کی بات چلنے والی نہ تھی، پھر راز فاش ہوجانے اورجلدی پکڑے جانے کابھی خوف دامن گیرہوتا ، اس لیے حضرت عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حق گوئی وبیباکی کے پردوں میں، ابن سبااوربلوائیوں کو اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھنے ، ناواقف لوگوں کوحقائق سے دوررکھنے اور اُنہیں کچھ دیرتک ہمنوا بنانے کے مواقع دستیاب ہوئے، اکابرصحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پرحرف گوئی امت مسلمہ میں فتنوں کے لیے پیش خیمہ بنی۔
اضطراب اور بے چینی کا ماحول قائم کرنے کے لیے دوسری سازشوں کے تانے بانے بُننے کے علاوہ جھوٹ اورپروپیگنڈہ سے بھی کام لیاگیا، یہاں تک کہ بعض ناعاقبت اندیش لوگ اکابرصحابہ - رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین - ، بلکہ براہ راست ذات رسالت مآب جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پربھی جھوٹ بولنے کی جرأت سے نہ چوکتے تھے ، ان کواپنی حیثیت معلوم تھی ، کیونکہ وہاں ہرایرے غیرے کی بات نہ چل سکتی تھی: من چاہی باتوں کواس پاکیزہ معاشرہ میں رواج دینے کے لیے یہی سب سے بڑا عنوان تھا، اگربروقت مداوا نہ کیا گیا ہوتا۔
ایسے بدبختوں کی تعداد بہت کم تھی ، آٹے میں نمک کے برابربھی نہ تھی ، تاہم دوردراز سے آنے والے یا بعض نئے مسلمان کچھ دیرتک ان کاشکارہوجاتے ،دوسروں کووقتی طورپر پریشانی اٹھانی پڑتی ؛ مگرامانت کا بارِعظیم أٹھانے والی اولین جماعت خود قرآن وحدیث میں مکرر بیان کردہ حاملینِ علوم کے موٴکد فرائض وہدایات سے یک لحظہ بے خبرنہ ہوسکتی، جوحزم واحتیاط اور حفظ واتقان کی رعایت سے عبارت تھے ؛ پھران کی نگاہِ پُربصیرت میں یہ مسئلہ وقتی بھی نہ تھا ، کہ بے خوف گزرجاتے، آنے والی امت کا بھی اس سے گہرا تعلق تھا ؛ اس صورت حال کے پیش نظر احادیث کی روایت کے لیے مزیداحتیاطی تدابیرکواختیارکیاگیا اور اس کے قبول کرلینے میں سخت گیررویہ اپنایاگیا۔
ایک طرف فرق ضالہ کے سرغنے سراٹھانے لگے تھے ، جواپنے خیالات ِبدکو رواج دینے کے لیے خودساختہ روایات کاسہارا لینے سے بھی نہ چوکتے تھے ، تودوسری طرف ان کے اس عمل ِبدکے سد باب کے طورپر ہمیشہ کے لیے احادیث نبویہ ، اسلامی تاریخ وعلوم کی حفاظت کے لیے اس زمانہ کے اہل علم کے قول وفعل اور علمی وعملی رویوں کی بدولت راویان و روایات کی چھان بین ، تحقیق وتدقیق کے لیے ایک نئے فن اور بے نظیرعلمی کسوٹی کی داغ بیل ڈالی جارہی تھی ، جس سے وقتی فتنہ پر دازبھی ہمیشہ کے لیے نامزدہوگئے اور دوسروں کے لیے باعثِ عبرت بنے۔
ہندوستان میں امانت محمدی کے حاملین وعلمبردار
اللہ تعالی کی جاری سنت کے مطابق ہردورکی شرعی ، علمی ، اخلاقی اورسیاسی ضرورتوں کاسامان ہوتارہتاہے ، اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے دلوں میں اُس کے لیے غیرمعمولی بے چینی اوربیتابی کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ دیوانہ وار اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، اور یوں اُن کی بے چینی اوربیتابی ایک بڑی ضرورت کا انتظام ہوجانے او ر بڑی خیروبرکت کاباعث بن جاتی ہے۔
ہندوستان میں اسلامی اقدار، دینی علوم اورمسلمانوں کی وحدت وجمعیت کو جس قسم کے خطرات لاحق ہوگئے تھے ، ملت اسلامیہ ہندیہ تاریخ کے جس خطرناک موڑپرکھڑی ہورہی تھی ، قدرت نے اس کی حفاظت ، بقا اور تعمیر وترقی کے لیے جن لوگوں کابطورخاص انتخاب کیا ، جن سے امت اسلامیة ہندیہ کے دین وایمان ، وحدت وجمعیت کاساراکام متعلق ہوگیا ، جنہوں نے یہاں کے معاشرے پر گہرے اثرات چھوڑے،اُن میں دسویں صدی کے شیخ علی متقی متوفی975ہجری ، محدث محمد طاہرپٹنی متوفی987ہجری ،شیخ مجدد سرہندی متوفی 1034ہجری ،شیخ عبد الحق محدث دہلوی متوفی1053ہجری،امام شاہ ولی اللہ دہلوی متوفی1176ہجری، اوران کاپوراخاندان ،امام عبد العزیز پرہاڑوی متوفی1239ہجری ،سیدأحمدشہید 1242ہجری، میاں جی نورمحمدجھنجھانوی متوفی1309ہجری،علامہ احمد علی سہارنپوری متوفی1297 ہجری اور حاجی امداداللہ متوفی1317ہجری کے نام نامی سرفہرست ہیں ؛ ان کے بعد ان سب کے علوم ومعارف ،صلاحیت وقبولیت ،ذکروفکر ، دعوت وتحریک کے وارث ”اکابرعلماء دیوبند“ قرار پائے، جن کے تجدیدی کارناموں میں ایک بڑے سنہرے حروف سے لکھی جانی والی عظیم خدمت حدیث نبوی اور اس کے علوم کی عمومی نشر و اشاعت کے لیے درس وتدریس ، تصنیف وتالیف،وعظ وتذکیر کوعمومی رواج دینا ہے ۔
علوم حدیث کی بازیافت
ان خاصان خدا کی علمی وروحانی وراثت کی سب سے بڑی تقسیم گاہ دارالعلوم دیوبند تھی جہاں کے فرزندوں نے دوسری عظیم خدمات کی طرح یہاں حدیث کے میدان میں بھی بڑے کارنامے انجام دئے،اکابرِدیوبند نے اپنے اپنے دور میں نہایت اہم کام کئے اور حالات کے مناسب ضرورتوں کاصحیح ادراک کرکے اس کے لیے مناسب وبروقت سامان بہم پہنچائے ، چنانچہ یہی ذوق اُن کے تربیت یافتہ شاگردوں اور جانشینوں کے حصہ میں آیا؛ انہوں نے بھی اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں ، اسلاف کی وضع کردہ بنیادوں پر مستقیم رہتے ہوئے اوران کی خدمات کے تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے امام العصر علامہ انورشاہ کاشمیری متوفی1352ہجری کے شاگردرشیدمحدث العصر علامہ سید محمدیوسف بنوری متوفی1393ہجری نے استادگرامی قدرکی سابقہ آرزوکے مطابق سنہ 1383ہجری مطابق 1963 عیسوی میں علوم حدیث کی نشرواشاعت ، حفاظت وبقاء اوراس کے لیے ماہرین کی جماعت تیارکرنے کے لیے باقاعدہ ایک نصاب تجویزکیا اوراس نصاب کی تطبیق وتعمیل کے لیے الگ درس گاہ ، ماحول اور اساتذہ کا انتظام کیا ۔
محقق العصر علامہ محمد عبد الرشید نعمانی متوفی1420ہجری ، حضرت علامہ محمدادریس میرٹھی متوفی1409ہجری رحمہما اللہ اور ان کے بعد حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عبد الحلیم چشتی مدظلہ نے علامہ بنوری کی خواہش کوتکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔جہاں سے مولانا ڈاکٹرحبیب اللہ مختار شہید متوفی1418ہجری، مولانا محمد امین اورکزئی شہیدمتوفی1430ہجری، مولانامحمد اسحاق سلہٹی ، مولانامہر محمد میانوالوی ، مولانا محمد زمان کلاچوی وغیرہم جیسی دوسری عظیم شخصیات تیارہوکر آ ئیں ، جن کی خدمات حدیث بجائے خود ایک تاریخ ہے ،جوشوق وجذبہ، قوت فہم وادراک اورجہدمسلسل کی داستانوں سے پر ہے۔ علامہ بنوری ، علامہ نعمانی اور علامہ میرٹھی کے بناکردہ اس سلسلے کو فروغ ملا، چنانچہ یہاں سے تربیت پاکر جانے والوں نے دوسری جگہوں میں علوم حدیث کی نشر و اشاعت میں حصہ لیا اور اس کی بہاریں ،رونقیں بحال کیں۔
حضرت مولانا عاشق الہی بلندشہری، مفتی محمدشاہد،مولانازین العابدین اعظمی اور دوسرے حضرات کے ذریعہ جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور میں، مولانانعمت اللہ اعظمی، مولانا عبد اللہ معروفی اورمولانا اسجدقاسمی وغیرہم کے ذریعہ دارالعلوم دیوبند میں ، شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مدظلہ العالی کے ہاتھوں 1425ہجری سے جامعہ فاروقیہ میں یہ سلسلہ شروع ہوا۔
مولانا جنید شوق ، مولانا عبد المالک وغیرہما نے مشرقی پاکستان میں اوردوسرے کئی حضرات کے ذریعہ مختلف ممالک اور شہروں میں، حدیث، علوم حدیث پر کئی طرح سے کام ہوئے ،ادھر کئی سالوں سے دار العلوم کراچی میں ”موسوعة الحدیث “ پر اپنی نوعیت کا کام” مجمع الفقہ الاسلامی جدہ “ کے تعاون سے چل رہاہے ؛ یہ سب اکابردیوبند کی علمی روایات کی پاس دار ی ، ان کی سپردکردہ امانت کی حفاظت اور ان کی عظیم خدمات کا تسلسل ہے، جس کاجاری رکھنا ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے ،جوان خاصانِ خدا کے دامن ِفیض وصد خیر وبرکت سے وابستگی کواللہ کی عظیم نعمت سمجھتاہے ۔
چنانچہ اب ملک کے دیگر موٴقر اداروں جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ، جامعہ اشرف المدارس،جامعہ بنوریہ ،مدرسہ مرکزاہلسنت سرگودھا وغیرہا میں بھی علوم حدیث کے حوالے سے بازیافت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔ اکابر کے زیرسرپرستی چلنے والے تمام اداروں کو اپنے کاموں کامعیاربلندکرنے، ناقدین ِحدیث کی طرح ٹھیٹھ علمی اور تحقیقی مزاج واسلوب کو اپنے ماحول میں پیداکرنے اور اِس کوکسی ضرورت کی نذرنہ کرنے کی ضرورت ہے؛ تاکہ کاموں میں پختگی اورپائداری کا جوہرنمایاں ہو،دفع الوقتی قسم کی چیزوں کوتحقیق کے عنوان سے متعارف کرانے کاسلسلہ نہ ہو، کوششوں اور نتائج میں ممکن حدتک ہم آہنگی بھی اکابر کے مزاج کاحصہ رہاہے ،اسی طرح کسی مخاصمہ کی کیفیت کے بغیرمسابقہ کے ساتھ مساعدہ کوبھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سب مشترک علمی اقدار کے قائل اور اس کے فروغ کے لیے ہی کوشاں ہیں ۔
تخصص فی الحدیث کابنیادی موضوع علوم حدیث کے بیش بہا ذخیرے کی حفاظت ، ، صحیح فہم وتعبیرکے ساتھ نشرو اشاعت، بحث وتطبیق کی روایت کا احیاء ، کذب بیانی سمیت تمام کمزور پہلوں کا قلع قمع کرنا،غیرضروری تشدد والے مزاج کی درستگی ، دکاترہ اور دوسرے معاصر لکھاریوں کے دست برد کی نشاندہی ، ان کے کاموں کی نگرانی ، قدیم ورثے کی حفاظت واشاعت اور نئی ضرورتوں کا صحیح ادراک ، بروقت مداوا کرنے کی تمام تر تدبیریں، جوپختگی، دوربیں نگاہی اوربصیرت افروزی کے ساتھ سلف صالحین بالخصوص دور اخیر کے اہل حق کی نمائندہ جماعت ”اکابرعلمائے دیوبند“ کے مزاج ومذاق کا بھی رنگ لیے ہوئے ہوں ۔
یہ اہداف عظیم ہیں ، ان کادائرہ عمل بہت بڑا اور وسیع ہے ،دوسرے بیسیوں موضوعات کے ساتھ فقہ حنفی،علمائے احناف بالخصوص اکابردیوبند کا حدیث کے حوالے سے عظیم کردار بھی ا س وسیع دائرہ کے اندر موجود ہے ۔
تاہم علوم الحدیث النبوی الشریف کی اِس درس گاہ میں بنیادی طورپر قوتِ استعداد اور صلاحیت کا پیداہوجاناہدفِ اول کے طور پر پیش ِ نظر رکھاجاتاہے؛ جوتشکیلِ نصاب کا بنیادی جوہرہے ، دوسال کے قلیل عرصہ میں ہرایک ضروری موضوع پر کام کرنے کاموقع ملجانا بہت دشوارہے ؛ البتہ نصابی تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر،اصولی اور بنیادی منہج کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجانے کے بعد حسبِ توفیق کسی بھی ضروری موضوع پر صحیح طریقہ سے کام کیاجاسکتاہے۔
کسی بھی ضروری موضوع کوہاتھ لگانا اور اُس کے بارے میں خامہ فرسائی کرناجرأت کااظہار کہلایاجاتاہے، مگراظہارِجرأت مطلوب اور مقصود نہیں، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اہلیت کا دائرہ کارکیاہے ؟کہیں بے وقت وبے جادخل اندازی تونہیں ہورہی ہے ؟ موضوع سے گہری وابستگی رکھنے والوں سے علمی تعلق خاطر بھی ہے ، یا یوں ہی ہوائیاں اڑارہاہے؟
بنیادی صلاحیت واستعدادکا ملکہ حاصل ہونہ کسی صاحبِ فن کی تربیت کاجوہر ملاہو ،اوپر سے ذوق ومزاج میں بھی غیروں سے آشنائی کا آمیزہ ہو، توضروری موضوعات وعنوانات پرخامہ فرسائی سے نئی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں اور یو ں ایک مسئلہ حل ہونے کے بجائے بیسیوں اور پیداہوجاتے ہیں ؛ روشن خیال پروفیسر ز صاحبان کے خیالات کی تعمیراوران کی خوابوں کی تعبیر اکیڈمی کے زیر انتظام ”شریعت“ کے نام سے شائع ہونے والے ”ماہنامہ “میں ا س کے نمونے ہرماہ دیکھے جاسکتے ہیں۔
نصابی تقاضوں میں ٹھوس صلاحیت ، استعداد اورقوت فہم وادراک، سلف صالحین کاذوق ومزاج اور طرزوطریقہ اول درجے کی چیز ہے ، علمی ضرورتوں کاانتخاب ، ذمہ داریوں کانباہ ، عملی اقدامات کی طرف پیش قدمی وقتی طورپر ثانوی درجے کی چیزشمارہوتی ہے ؛ کیونکہ پختگی اور صحیح ذوق ومزاج اپنائے بغیر علمی وتحقیقی ذمہ داریا ں نہیں اٹھائی جاسکتیں۔
پچھلے دورکے چیلنجز
حدیث اورعلوم حدیث کے حوالے سے جو چیلنجزپچھلے دورمیں تھے، وہ اب بھی موجود ہیں، وہ تمام باتیں اورمسائل جو کل اس کی اہمیت وضرورت کوکھول کھول کربتارہی تھیں اور اصحابِ حدیث کو اٹک رہے تھے ، ان کوبے چین کیے ہوئے تھے ،وہ آج بھی موجود ہیں اور عصر حاضر کے خاص مسائل کے پیش نظرنئے چیلنجز اور سامنے آئے ہیں ، فرق صرف یہ ہے کہ پچھلے چیلنجزکے حوالے سے ہماری ضرورت فنی مناسبت کے ساتھ مصادر ومراجع کی تلاش سے پوری ہوجاتی ہے ؛مگر نئے چیلنجز کاسامنا کرنے کے لیے ہمیں تنہا میدان میں کودنا پڑرہاہے ،مسائل کا صحیح ادراک کرنا ، اس کاپس منظر جاننا اور غوروخوض کرکے اس کی تہہ تک پہنچنا، پھراس کے لیے مناسب تدابیراختیارکرکے ان سے نمٹ لینا یہ سب کام خود سے کرنے پڑرہے ہیں۔
آج بھی موضوع و من گھڑت روایات کا رواج وچلن ہے ، وعظ ونصیحت، ترغیب وترہیب کے حلقوں میں، رواج ورسومات کے موقعوں پر، عقائد ونظریات ہرجگہ اس کاسہارا لیاجاتاہے، اچھے خاصے اہلِ علم لوگ بھی بہتے دریا کے ساتھ چل پڑتے ہیں ،زبان زدعوام روایتیں کسی مراجعت کے بغیربیان کردیتے ہیں ؛ جس میں موضوع تک آجاتی ہیں ۔
فرق ِباطلہ، روافض،آغانی، بوہرے،نوربخشیے اب تک اپنے آباء واجداد کی روایات برقرار رکھے ہوئے ہیں ، بری عادت کے مطابق من گھڑت روایات سنا سناکراپنے معتقدین کوایک مخصوص حصار میں جکڑے رکھتے ہیں ؛ تاکہ ان کوصحیح اسلامی تعلیمات کی ہوانہ لگے ،خوشی وغمی کے نام پرفرقِ مختلفہ نام نہادعباداتی و نیم سیاسی رسومات کے موقعوں پروہی ایران توران کے جھوٹے قصے، کہانیاں اور من گھڑت روایات کی بھرمارہوتی ہے ،جس کی تکذیب کئے ہوئے ناقدینِ حدیث کوایک زمانہ گزرچکاہے، جوصحیح العقیدہ لوگ ان کے قریب رہتے ہیں، بالخصوص خواتین اُن پراِن بے سروپاباتوں کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں ۔
تیجے ،چالیسویں،جمعہ ، جمعرات ، مردے، زندے اوردوسرے طرح طرح کے ناموں اور واجب کردہ رسومات کی بنیاد بھی بے سروپا روایات ہی ہوتی ہیں؛ محدثین نے ان کو مسترد کردیاہے ؛ پھر بھی اُن کوسناسناکر مسلمانوں کوبے وقوف بنایاجاتاہے ، تعلیم یافتہ کہلوانے والے جاہل بھی خوب جی بھربھر کر جہالتِ مرکبہ سے فیض یاب ہوتے رہتے ہیں ۔
یہ سلسلہ رکانہیں ، یہ تمام وہ مواقع ہیں جہاں بر سرعام پوری ڈھٹائی کے ساتھ سرورکونین جناب رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ کے آل واصحاب اور سلف صالحین پرجھوٹ بولاجاتاہے ، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ مقتدایانِ امت نے بہت پہلے اِن چیلنجزکاسامنا کیاتھا اور ان بدنہاد لوگوں کی خبرلے کرگھر کے چوروں کی ریشہ دوانیوں کوطشت ازبام کیاتھا ۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ علوم حدیث ومصطلحات کی تدوین وتنقیح ہوجانے کے باوجود ان سے پوری واقفیت ،غیر رسمی مہارت رکھنے ہونے والے خال خال ہی ملتے ہیں، ائمہ فن کی کتنی عبارتیں ، اصطلاحات، آراء اوراقوال ایسے لوگوں کی راہ تک رہے ہیں جو اس کا صحیح مفہوم بتاسکیں، اس کی صحیح تطبیق کرسکیں، اشکالات کامحاکمہ کرسکیں اور غلط فہمیوں کے شکار لوگوں کو سمجھاسکیں۔ ادھر ادھرسے چندحوالے دیدینا، سوئے ہوئے شیروں کوجگائے بغیر گزرجاناتوشاید مطبوعات اوراردو تراجم کی بہتات کے اس دورمیں زیادہ مشکل نہیں رہا ۔ مگرکتابیں جمع کرلینا فنی مہارت کامتبادل نہیں ہوسکتا، یہ سب زمانہ گزشتہ کے چیلنجزہیں،جن سے بے خبرشخص کسی صورت نئے چیلنجز کاسامنا نہیں کرسکتا،بلکہ علمی دنیا کے مسائل ِمعضلہ میں مزید اضافے کاباعث بنے گا۔ (جاری ہے)