Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 16
***
علم کی حقیقی طلب کے چار بنیادی اصول ..اخلاص وللہیت،مسلسل محنت،بلند ہمتی، ادب واحترام
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
سوال وجواب:جب میں اندر آگیا تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے ہوں؟ میں نے کہا مغرب بعید!! انہوں نے کہا: افریقہ؟ میں نے کہا: اس سے بھی دور…، ہمیں اپنے ملک سے افریقہ تک جانے کے لیے سمندر پار کرنا پڑتاہے․․․․․ میں ا ندلس کا رہنے والا ہوں!! انہوں نے کہا: واقعی تمہاراوطن بہت دور ہے، تمہارے جیسے شخص کے مقصد کو پورا کرنا اور اس پر ہر ممکن تعاون کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، لیکن کیا کروں، اس وقت میں آزمائش میں گرفتار ہوں، شاید تمہیں اس کے بارے میں معلوم ہوگیا ہو؟! میں نے کہا جی ہاں! مجھے اس واقعہ کی اطلاع راستہ میں شہر کے قریب پہنچنے پر ہوئی۔
میں بھکاری بن کر آجایا کروں گا!
میں نے عرض کیا: ابو عبد اللہ! میں پہلی بار اس شہر میں آیا ہوں، مجھے یہاں کو ئی نہیں جانتا، اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ آپ کے پاس فقیر کے بھیس میں آجایا کروں گا اور دروازے پر و یسی ہی صدا لگا یا کروں گا جیسی وہ لگاتے ہیں، آپ یہاں تشریف لے آیا کریں، اگر آپ نے روزانہ ایک حدیث بھی سنادی تو وہ میرے لیے کافی ہے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس آمد ورفت نہیں رکھو گے اور نہ محدثین کے حلقوں میں جاوٴگے، میں نے کہا: آپ کی شرط منظور ہے۔
میرا معمول
الغرض میں روزانہ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیتا ، سر پر بھکاریوں کا سا کپڑا باندھتا اور کاغذ دوات، آستین کے ا ندر رکھ کر آپ کے دروازے پر جاکر صدا دیتا ”خدا بہت سادے بابا!!!“ وہاں مانگنے کا یہی دستور تھا․․․․․ آپ تشریف لاتے اور جب میں اندر ہو جاتا دروازہ بند کرکے کبھی دو،کبھی تین یا اس سے زیادہ حدیثیں بیان فرماتے۔(صبر و استقامت کے پیکر،ص:181تا185)
طلبہ عزیز! ذرا دیکھو تو سہی بقی بن مخلد کی بلند حوصلگی اورعلو ہمت کو، کہ ہزاروں میل کا پیدل سفر کیا اوربھکاری کے بھیس میں 13سال تک حدیث حاصل کی، اسی بلند ہمتی نے بعد والوں کو مجبور کردیا ہے کہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذکر خیر سے یاد کریں کہ اے اللہ! تو ہمارے اسلاف کو امت کی جانب سے بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرما اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔
ادب
مسلسل محنت کے ساتھ بلند ہمتی اور اس کے ساتھ استاذ، کتاب، اور آلات علم کا ادب، بھی انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ امام طبرانی نے روایت نقل کی،”وتواضعوا لمن تعلمون منہ“․
”جس سے علم سیکھو اس کے ساتھ ادب اور تواضع سے پیش آؤ“۔
حضرت تھانوی فرماتے ہیں جس قدر استاذ سے محبت ہو گی اور جتنااستاذ کا ادب و احترام ہوگا اسی قدر علم میں برکت ہوگی، عادة اللہ ہے کہ استاذ راضی نہ ہو تو علم نہیں آسکتا۔(اصلاح انقلاب امت)
حضرت تھانوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ استاذ کا ا دب تقوی میں داخل ہے، جو اس میں کو تاہی کرے گا، وہ متقی نہیں ہو گا، حالاں کہ تقوی کی زیادتی علم میں زیادتی کاسبب ہے۔(التبلیغ)
اساتذہ کرام کے آداب
طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے استاذوں کا غایت احترام کرے، مغیرہ کہتے ہیں کہ ہم استاذ سے ایسا ڈرتے تھے جیسے لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں، حدیث پاک میں بھی یہ حکم ہے کہ جن سے علم حاصل کرو ان سے تواضع سے پیش آوٴ۔
اپنے شیخ کوسب سے فائق سمجھے، حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا مقولہ ہے کہ جو اپنے استاذ کا حق نہیں سمجھتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔
استاذ کی رضا کا ہر وقت خیال رکھے، اس کی ناراضگی سے پرہیز کرے، اتنی دیر اس کے پاس بیٹھے بھی نہیں، جس سے اس کو گرانی ہو۔
استاذ سے اپنے مشاغل میں اور جو پڑھنا ہے اس کے بارے میں خاص طور سے مشورہ کرتا رہے۔
اس سے نہایت احترازکرنا چاہیے کہ شرم اور کبر کی وجہ سے اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں چھوٹے سے علم حاصل کرنے میں پس وپیش کرے، حضرت اصمعی کہتے ہیں کہ جو علم حاصل کرنے کی ذلت نہیں برداشت کرے گا وہ عمر بھر جہل کی ذلت برداشت کرے گا۔
یہ بھی ضروری ہے کہ استاذ کی سختی کو برداشت کرے(یہ نہایت اختصار سے مقدمہ ”اوجز المسالک“ سے چند اصول نقل کیے گیے ہیں)۔
اور یہ تو نہایت مشہور مقولہ اور نہایت مجرب ہے کہ استاذ کی بے حرمتی سے علم کی برکات سے ہمیشہ محروم رہتا ہے․․․الخ۔(آپ بیتی:2/46)
اور عادت اللہ ہمیشہ یہی جاری ہے کہ اساتذہ کا احترام نہ کرنے والا کبھی بھی علم سے منتفع نہیں ہو سکتا، جہاں کہیں ائمہ فن طالب علم کے اصول لکھتے ہیں اس چیز کو نہایت اہتمام سے ذکر فرماتے ہیں اور محدثین نے تو مستقل طور پر آداب طالب کا باب ذکر کیا ہے، جو ”اوجز المسالک“ کے مقدمہ میں مفصل مذکور ہے، اس میں اس چیز کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی ”احیاء العلوم“ میں اس پرمفصل بحث فرمائی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ استاذ کے ہاتھ میں کلیةً اپنی باگ دے دے، اور بالکل اسی طرح اطاعت کرے جیسا کہ بیمار مشفق طبیب کے سامنے ہوتاہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھادیا میں اس کا غلام ہوں، چاہیے وہ مجھے فروخت کردے یا غلام بنادے۔(ص:60)
میرا تو تجربہ یہاں تک ہے کہ انگریزی طلبہ میں بھی جو لوگ طالب علمی میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں، اونچے اونچے عہدوں پر پہنچتے ہیں، جس کی غرض سے وہ علم حاصل کیا تھا وہ نفع پورے طور پر حاصل ہوتا ہے اور جو اس زمانہ میں استاذوں کے ساتھ نخوت وتکبر سے رہتے ہیں، وہ بعد میں ڈگریاں لیے سفارشیں کراتے ہیں ، کہیں اگر ملازمت مل بھی جاتی ہے تو آئے دن اس پر آفات ہی رہتی ہیں، بہرحال جو علم ہو ا س کا کمال اس وقت تک ہو تا ہی نہیں اور اس کانفع حاصل ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے، چہ جائے کہ ان کی مخالفت کرے۔(ص:61)
کتاب ”ادب الدنیا و الدین“ میں لکھا ہے کہ طالب علم کے لیے استاذ کی خوشامد اور اس کے سامنے تذلل(ذلیل بننا)ضروری ہے، اگر ان دونوں چیزوں کو اختیار کرے گا تو نفع کمائے گا اور دونوں کو چھوڑدے گا تو محروم رہے گا۔
ارشاد فرمایا: ”قوت حافظہ کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں، ان میں اہم سبب اپنے اساتذہ کے لیے دعا کرنا بھی ہے، جتنا بھی اس کا اہتمام کیا جائے گا قوت حافظہ میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہے گا۔“(ص:66)
دارالعلوم کے ایک فاضل مہمان نے زیادہ حافظہ کے وظیفہ کی درخواست کی تو ارشاد فرمایا:
”آپ حضرات کو جو اپنی مادرعلمی اور اساتذہ سے گہرا ربط اور تعلق ہے یہ بھی قوت حافظہ کے اسباب میں سے ایک ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو جو تبحر علمی اللہ پاک نے عنایت فرمایا تھا اس کے یقینا بہت سے وجوہ ہوں گے، ان میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے تمام زندگی اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاوٴں نہیں پھیلائے اور نہ ادھر پاوٴں کرکے سوئے، آج جو شیخ مدنی رحمہ اللہ کا جگہ جگہ ذکر خیر ہے اور ان کے علوم و فیوضات کا سلسلہ روز افزوں ہے اور اب جو ایک صاحب نے بتایا ہے، کہ گوجرا نوالہ میں ”الجمعیة شیخ الاسلام نمبر“ دو بارہ شائع کیا جارہا ہے اس کی وجہ وہی ہے کہ شیخ مدنی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ شیخ الہند رحمہ اللہ کی خدمت کی، مالٹا جیل میں گئے اور ساتھ رہے اور کسی ممکن خدمت سے دریغ نہیں کیا۔“ (ص:81)
ارشاد فرمایا: ”جب تحصیل علم کے تین آداب کو ملحوظ رکھا جائے تب صلاحیت نکھر تی، استعداد جلا پاتی اور علمی وروحانی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔استاذ کا ادبمسجد اور درس گاہ کا ادبکتاب کا ادب“۔(ص:141)
ارشاد فرمایا: ”ا دب قلبی کیفیت اور باطنی محبت کا مظہر ہوتا ہے اس لیے تحصیل علم کے دوران طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاذ کی محبت کو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں جگہ دے ا ور اس کا دل وجان سے عاشق بن جائے، یا اعمال اور خلوص ومحبت کا ایسا مظاہرہ کرے کہ استاذ کے دل میں جگہ پالے اور استاذ کا محبوب بن جائے۔
مگر پہلی صورت کہ اپنے استاذ سے عشق ومحبت اور وارفتگی میں دیوانگی وجنون کی حد تک پہنچ جائے، دوسری صورت کی نسبت بے حد نافع اور مفید ہے، ایسے طلبہ علم بھی حاصل کرلیتے ہیں اور ان کا فیض بھی زیادہ پھیلتا ہے۔“
ارشاد فرمایاکہ: ”والدین کی خدمت سے عمرمیں برکت ہوتی ہے اور اساتذہ کی خدمت سے علم میں برکت ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ ان خدمات کے یہ خاصیتی اثرات ہیں جوان پر مرتب ہوتے ہیں،چینی کی اپنی لذت ہے،گڑ کا اپنا ذائقہ ہے، مٹھائی کی اپنی چاشنی ہے، جو چیز کھائی جائے گی اس کی ذاتی خاصیت کی بنا پر اس کے اثرات وثمرات اور نتائج مرتب ہوں گے، تو والدین کی خدمت سے زیادہ عمر اور اساتذہ کی خدمت سے زیادہ علم اور خدمت علم کے اثرات اور نتائج مرتب ہوتے ہیں۔“(ص:259)
استاذ کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہوتو اس کو برا نہ سمجھے اور نہ چہرے پر شکن پڑے، نہ ملال ظاہر کرے، اس لیے کہ اس سے استاذ کے دل میں انقباض پیدا ہوجائے گا اور دروازہ نفع کا بند ہوجائے گا، کیونکہ یہ موقوف ہے انشراح دل اور مناسبت پراور صورت مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت بڑے فائدے اور جلد منفعت کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو، خواہ خالق سے یا مخلوق سے، اس کے سامنے اپنے کو مٹادے اور فنا کردے، اپنی رائے وتدبیر کو بالکل دخل نہ دے، پھر دیکھے کیسا نفع حاصل ہوتاہے، اور یہ بڑا کمال ہے ۔
اگر کسی مسئلہ میں استاذ کی تقریر ذہن میں نہ بیٹھے، تو کچھ دیر تک استفادہ کے لہجہ میں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرے ، اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو خاموش ہو جائے اور دل میں یہ رکھ لے کہ اس کی تحقیق کروں گا،بعد میں کتابوں سے اور علماء سے تحقیق کرے اور اگر اپنی رائے صحیح ہو اور استاذ حق پسند ہو تو اس کتاب اوربڑے عالم کی تحقیق کو ان کے سامنے پیش کردے، اگر استاذ کی تقریرصحیح ہو تو معذرت کر دے کہ آپ صحیح فرماتے تھے، میں غلطی پر تھا ۔
استاذ کے مقابلہ میں مکا برہ، مناظرہ، مجادلہ کی صورت ہر گز نہ بنائے، یعنی آنکھیں نہ چڑھیں، گفتگو میں تیزی نہ ہو، پیشانی پر بل نہ ہو، بڑوں کے مقابلہ میں یہ بے ادبی ہے۔ (ص:48)
طالب علم سے اگر استاذ کی بے ادبی یا نافرمانی یا ایذا رسانی ہو جائے تو فوراً نہایت نیاز وعجز سے معافی چاہے اور الفاظ معافی کے ساتھ اعضا سے بھی عاجزی وانکساری وندامت ٹپکے، یہ نہیں کہ لٹھ ما ر دیا کہ ، اجی! معاف کردو۔
اگر دل میں ندامت ہو گی تو اعضا سے بھی ندامت ٹپکے گی، اگر یہ بھی نہ ہوتو بناوٹ ہی کردے، اصل نہیں تو نقل ہی سہی، مگر تاخیر نہ کرے، کیونکہ اگر استاذ دنیا دار ہوگا تو تاخیر کرنے سے اس کی کدورت بڑھ جائے گی اور تمہارا نقصان ہوگا اور اگر دین د ارہو گا تو گو وہ کدورت وغیرہ خرافات کو اپنے دل میں جگہ نہ دے گا، کیوں کہ اس کا مشرب یہ ہوتا ہے۔
آئین ما ست سینہ چو آئینہ داشتن 
بہ نشین در دل ویرانہ ام اے گنج مراد
کفرست در طریقت ما کینہ داشتن
کہ من ایں خانہ ویراں کردم
مگر رنج طبعی ہوگا اور یہ بھی طالب علم کے لیے مضر ہو گا ،کیوں کہ اس حالت میں انشراح قلب نہ رہے گا اور بغیر انشراح قلب نفع نہ ہوگا اور تاخیر کرنے میں یہ بھی خرابی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی حجاب بڑھتا جائے گا۔ (ص:52-51)
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔
علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے: ذہن حافظہ محنت آلات علم، یعنی کتاب، کاغذ، قلم اور تپائی وغیرہ کا ادب استاذ کا ادب دعا ترک منکرات۔
ان میں سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ، اس لیے کہ علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے ، وہ اتنی بڑی دولت صرف اسی کو عطا فرماتے ہیں جو اس کی ہر نا فرمانی کو چھوڑ کر اس سے محبت کا ثبوت پیش کرے ۔( جواہر الرشید،:1 /112)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ادب واحترام
حضرت والا کو اپنے اساتذہ سے اتناشدید تعلق تھا کہ دوسروں کو نہ تھا، بس یوں کہا جائے کہ عشق تھا ، چناں چہ فرمایا کرتے کہ میں نے پڑھنے میں کبھی محنت نہیں کی، جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اساتذہ اوربزرگوں کے ساتھ ادب ومحبت کا تعلق رکھنے کی بدولت عطا فرمایا اور الحمد اللہ! میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے کسی بزرگ کو ایک منٹ کے لیے بھی ناراض نہیں کیا اور جتنا میرے قلب میں بزرگان دین کا ادب ہے، شاید ہی کسی کے دل میں اتنا ہو۔
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں متعد د حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہو تی یا کتاب کا مضمون سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے مکان کے دروازہ پر جا کر بیٹھ جاتے ،جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت کرتے اور یہ تقریباً روزانہ ہی کا معمول تھا۔(آداب المتعلمین: ص 27)
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ
مولانا گیلانی اپنے اساتذہ کا بڑا احترام فرماتے تھے اور سخت سے سخت ، وقت پر بھی ان کے حکم سے سرتابی کی جرات نہیں کرتے اور نہ بہانے تلاش کرتے تھے، بلکہ فوراً تعمیل حکم کے لیے حاضر ہو جاتے۔
15/ اگست 1947ء میں ملک آزاد ہوا اور اس کے صدقہ میں ایک نئی مسلم مملکت وجود میں آئی، جو پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمدعثمانی رحمہ اللہ نے چاہا کہ یہاں اسلامی دستور نافذ ہو، اس اسلامی دستور کو مرتب کر نے کے لیے بہت سے علماء کو مولانا عثمانی نے کراچی میں جمع کرنے کی سعی فرمائی، ان میں حضرت مولانا گیلانی رحمہ اللہ کا بھی نام تھا، اس وقت حالات ساز گار نہ تھے، مگر استاذ محترم کے حکم کے خلاف کسی بہانہ کی جرات نہیں فرمائی، بلکہ فوراً تشریف لے گئے۔ 
مولانا خوداپنے ایک خط میں، جو علامہ سید سلیمان ندوی کے نام ہے، لکھتے ہیں:
” آپ کے اراد ہٴ عدم شرکت سے مطلع ہونے کے بعد خاکسار نے بھی قطعی فیصلہ کراچی نہ جانے کا کر لیا تھا، لیکن مولانا عثمانی کی طرف سے تار اور خطوط کے تسلسل نے فسخ عزم کو انسب خیال کیا، ان سے تلمذ کی نسبت رکھتے ہوئے دل نے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی ۔“(حیات گیلانی ،ص:294)
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ کا واقعہ
دنیا کا تجربہ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ محض کتابوں کے پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی ثمرات اورکمالات حاصل نہیں ہوتے، بلکہ اس کے لیے ”پیش مرد کا ملے پامال شو“ پر عمل پیرا ہو نا پڑتا ہے، نیز استاذ کا ادب واحترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ، بے ادبی فیوضات کے حصول کی راہ میں سنگ گراں بن جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی دل میں اساتذہ کا ادب واحترام اور خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا اور ان کی خدمت باعث صد افتخار سمجھتے تھے، اگر چہ ان کے ہم سبق طلبہ اس سعادت کو بنظر حقارت دیکھتے تھے ، جیسا کہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ خود بیان فرماتے ہیں:
”میں خوددیوبند میں تھا تو زمانہ طالب علمی میں حضرت شیخ مدنی رحمہ اللہ کے ہاں بعض اوقات ان کی خدمت کے لیے جایا کرتا اور پاوٴں دباتا، اور بعض ساتھی ہنستے کہ یہ چاپلوسی کرتا ہے، مگر یہ ان بزرگوں کی توجہ کا نتیجہ ہے کہ مجھ نالائق انسان سے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ دین کا کام لیااور مزید توفیق دے رہے ہیں، ان میں سے کئی اور ساتھی ہیں جو اس راستہ کو چھوڑ چکے ہیں تو علم سارا ادب ہی ادب ہے، دین کا ادب، اساتذہ کا ادب اور علم کا ادب۔“ (ماہنامہ”الحق“ حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق نمبر، ص:334) 
آلات علم کاغذ، قلم، روشنائی کا ادب اور مجدد الف ثانی کا حال
حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ ایک روز بیت الخلا میں تشریف لے گئے، اندر جاکر نظر پڑی کہ انگوٹھے کے ناخن پر ایک نقطہ روشنائی کا لگا ہو ا ہے، جو عموماً لکھتے وقت قلم کی روانی دیکھنے کے لیے لگایا جاتا ہے، فوراً گھبرا کر باہر آگئے اور دھونے کے بعد تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اس نقطہ کو علم کے ساتھ ایک تلبس ونسبت ہے۔ اس لیے بے ادبی معلوم ہوئی کہ اس کو بیت الخلا میں پہنچاوٴں یہ تھا ان حضرات کا ادب، جس کی برکت سے حق تعالی نے ان کو درجات عالیہ عطا فرمائے تھے، آج کل تو اخبارو رسائل کی فراوانی ہے، ان میں قرآنی آیات، احادیث اور اسمائے الہیہ ہونے کے باوجود گلی کوچوں، غلاظتوں کی جگہوں میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔العیاذ باللہ العظیم، معلوم ہوتاہے کہ اس وقت کی دنیا جن عالمگیر پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اس میں اس بے ادبی کا بھی بڑا دخل ہے۔(مجالس حکیم الامت:ص281،282)
حروف کلمات کا ادب
ایک چمڑہ کا بیگ تھا، کسی مخلص خادم نے بنوایا تھا اور چمڑہ میں لفظ(محمداشرف علی) کندہ کرادیا تھا، اس کا حضرت (تھانوی) اتنا ادب کرتے تھے کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے۔ (حسن العزیز:4/32)
کتابوں کا ادب: آج کل طبیعتوں میں ادب بالکل نہیں رہا، مولانا احمد علی سہارن پوری  نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض طلبہ بائیں ہاتھ میں دینی کتابیں اوردائیں ہاتھ میں جوتے لے کر چلتے ہیں، بہت مذموم ہے، کیوں کہ خلاف ادب ہے اور صورةً جوتوں کو فوقیت دینا ہے، کتب دینیہ پر۔(الافاضات الیومیہ:9/324)
روشنائی کاادب
ایک لفافہ پر روشنائی گرگئی تھی تو اس پر یہ لکھ دیا کہ ”بلا قصد روشنائی گرگئی“ اور وجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لیے لکھ دیا کہ قلت اعتنا پر محمول نہ کریں، جس کا سبب قلت احترام ہوتا ہے۔(الفصل للوصل:197)
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی
اگر آپ دنیا و آخرت میں عزت اور رضائے الٰہی کے طالب ہیں، تو اپنے اندر یہ صفات پیدا کیجیے۔
(1) اخلاص (2)لغو اور بیکار امور سے اجتناب (3)علم پر عمل (4)اخلاق حسنہ کو زندگی کا لازمی جز بنائیں (5)تواضع اور عجز اپنے اندر پیدا کریں۔ (6)وقت کی قدر کریں۔ (7)کھیل کود اور سیروتفریح میں اپنا وقت گذارنے سے اجتناب کریں۔ (8)بلند ہمتی کا مظاہرہ کریں اور علم و عمل میں درجہ کمال تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ (9)مسلسل رات دن ایک کرکے محنت کریں ۔(10)مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور خوب دینی کتابوں کا مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو مطالعہ کا عادی بنالیں کہ مطالعہ کے بغیر چین نہ آئے۔(11) نمازوں کا اہتمام تکبیر اولی کے ساتھ کریں، امام ابویوسف سترہ سال امام ابوحنیفہ کے درس میں فجر سے پہلے حاضر ہوتے تھے ، کبھی ایک تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی، امام اعمش کی70 ستر سال تک تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ، یہ لوگ ہمارے لیے نمونہ ہیں۔(12)غایت درجہ استاذ ، کتاب ،آلات علم اور مسجد کا ادب واحترام کریں ،علم نافع کے آداب میں مسجد کا ادب بھی شامل ہے، مسجد میں باتیں کرنے سے بھی علم سے محرومی ہوتی ہے۔(13)نظر کی حفاظت کریں، نظر بد سے حافظہ اور ذہانت کمزور ہوتی ہے۔(14)گناہوں سے مکمل بچتے رہیں، کیوں کہ علم کا نور گناہوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا۔(15) جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں، کیوں کہ وہ گناہ کبیرہ ہے۔(16) سبق میں بلا ناغہ حاضر رہیں، کیوں کہ ایک دن کی غیر حاضری بھی سبق کی برکتوں کو ختم کردیتی ہے۔(17)دعاوٴں کا ا ہتمام کریں کیوں کہ دعاوٴں سے راستے کھل جاتے ہیں، خاص طورپر ادعیہ مأثورہ کو یاد کرنے کا اہتمام کریں، اس لے کہ وہ سریع الاجابہ ہیں ۔(18)صبح سویرے جلدی اٹھنے کا اہتمام کریں، کیوں کہ وہ برکت کا وقت ہے، دو گا نہ پڑھ کر دعاء کریں اور پھر سبق یاد کریں انشاء اللہ بہت عمدہ اوربہت جلد یاد ہو جائے گا۔(19)بازاروں کے چکر نہ کاٹیں، کیوں کہ اس سے انسان پر شیطانی اثرات غالب آتے ہیں، اس لیے کہ بازار شیاطین کا اڈا ہوتے ہیں۔(20) پڑھنے کے ساتھ اپنے آپ کو لکھنے کا بھی عادی بنائیں، مضامین اور مقالات اردو اور عربی میں لکھنے کی مشق کریں، تاکہ علم لوگوں تک پہنچایا جاسکے اور عصر حاضر میں یہ بہت ضروری ہے۔(21) نحو ، صرف، فقہ ، اصول فقہ، پر ابتدائی درجات کے طلبہ خاص توجہ دیں اور فقہ ، حدیث اور تفسیرپر منتھی طلبہ توجہ دیں۔
اللہ رب العزت ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی مکمل سعی پیہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اسلاف کو بہترین صلہ عطا فرمائے، اور ہم سب کے لیے علم کو نجات کا باعث بنائے، ناکہ ہمارے اوپر حجت ۔ آمین یا رب العالمین

Flag Counter