Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 16
***
دو عجیب واقعات
رشحات قلم: مولانا ظفر احمد عثمانی 
حضرت حکیم الامت نے فرمایا بھوپال میں ایک قاری صاحب تھے، ان کو حج کا شوق ہوا اور اتنا تقاضا ہوا کہ بے چین ہو گئے، جیب میں ایک ہی روپیہ تھا اسی پر ارادہ کر لیا ۔ بارہ آنے کا تھیلا سلوایا، چار آنے کے بھنے ہوئے چنے تھیلے میں بھر کر، پانی کے لیے لوٹا اور گلاس لے کر بھوپال سے بمبئی کو پیادہ روانہ ہو گئے ۔ راستے میں کسی نے دعوت کر دی تو قبول کر لی، ورنہ چنے کھا کر پانی پی لیا، اس طرح بمبئی پہنچ گئے، جہاز جدہ کے لیے تیار تھا، ان کے پاس ٹکٹ کے دام نہ تھے، کپتان کے پاس پہنچے اور کہاکہ مجھے حج کا شوق ہے، مگر ٹکٹ کے دام نہیں، اگر کوئی نوکری جہاز میں مل جائے تو میں مکہ پہنچ جاؤں گا۔ کپتان نے کہا نوکری تو ہے، مگر آپ کے لائق نہیں، آپ مقدس آدمی ہیں، نوکری گندی ہے، فرمایا اس کی پروا نہیں، جیسی بھی نوکری ہو، مجھے منظور ہے، اس نے کہا کام مشقت کا ہے آپ سے نہ ہو گا فرمایا کیسی ہی مشقت ہو، میں کر لوں گا ۔ کہا اچھا یہ بوری غلہ کی بھری ہوئی ہے، آپ اس کو اٹھالیں تو نوکری دے دوں گا۔ قاری صاحب نے دعا کی کہ ” اے الله! یہاں تک تو میرا کام تھا، آگے آپ کا کام ہے کہ اس بوری کو مجھ سے اٹھوا دیجیے۔ یہ دعا کرکے بسم الله پڑھ کے بوری کو اٹھایا اور سر سے اوپر لے گئے۔ کپتان کو حیرت ہو گئی، خوش ہو کر پیٹھ تھپکی اور کہا کام یہ ہے کہ روزانہ نل سے سمندر کا پانی عرشہ پر بہا دیا جائے اور پاخانوں میں بھی پانی بہا دیا جائے۔ قاری صاحب نے یہ کام منظور کیا اور لنگی باندھ کر روزانہ یہ کام کرتے اور نماز کے وقت غسل کرکے دوسرے کپڑے پہن لیتے، رات کو تہجد میں قرات سے قرآن پڑھتے، خوش الحان تھے۔ ایک رات کپتان عرشے پر دیکھ بھال کے لیے آیا تو قاری صاحب کو نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو کھڑا ہو کر سننے لگا ،اس کے دل پر بہت اثر ہوا، نماز کے بعد قاری صاحب سے پوچھا کہ آپ یہ کیا پڑھ رہے تھے؟ فرمایا ” یہ قرآن ہے، الله کا کلام ہے۔“ کہا: ہم کو بھی پڑھاؤ۔ فرمایا اس کے لیے شرط یہ ہے کہ آپ غسل کرکے پاک کپڑے پہن کر آئیں، کپتان غسل کرکے پاک کپڑے پہن کر آیا قاری صاحب نے اسے کلمہ طیبہ”لا الہ الا الله محمد رسول الله“ پڑھایا، پھر”قل ھوالله احد“ پڑھائی، کپتان بہت خوش ہوا، چلتے پھرتے قل ہو الله احد پڑھتا تھا ،دوسرے انگریزوں نے اس سے کہا تم مسلمان ہو گئے ہو ۔ کہا نہیں ہم نے اپنے خلاصی سے یہ سبق سیکھا ہے۔ لوگوں نے کہا تم مسلمان ہو گئے ہو ۔ کپتان قاری صاحب کے پاس آیا اور پوچھا کیا میں مسلمان ہو گیا ہوں ؟ فرمایا تم تو کئی دن پہلے مسلمان ہو گئے ہو۔ کپتان یہ سن کر پہلے تو چونکا، پھر کہا اچھا ہم مسلمان ہو گئے ہیں تو مسلمان ہی رہیں گے۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے کہا ہم مسلمان ہو گئے ہیں، اگر تم مسلمان ہونا چاہتی ہو تو ہمارے ساتھ رہو، ورنہ الگ ہو جاؤ۔ اس نے انکار کیا تو اس کو الگ کر دیا۔ جب جہاز جدہ پہنچا اور قاری صاحب جہاز سے اترنے لگے تو کپتان نے استعفا لکھ کر اپنے نائب کو دیا کہ اب تم میری جگہ کام کرو، حکومت کو میرا استعفی بھیج دو، میں بھی مکہ جارہا ہوں، حج کروں گا۔ پھر وہ قاری صاحب کے ساتھ ہو گیا اور مکہ پہنچ کر قاری صاحب کے ساتھ حج ادا کیا، الله تعالیٰ نے قدم قدم پر قاری صاحب کی مدد کی اور یہ کپتان بھی ان کے ساتھ ساتھ آرام سے کھاتا پیتا رہا، دونوں مدینہ منورہ پہنچے۔
دوسرا واقعہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ نے کسی اخبار کے حوالہ سے بیان فرمایا تھا کہ امریکا میں ایک فلم کمپنی کے مالک کو نماز کی فلم لینے کا شوق ہوا تواس نے چند عرب لوگوں سے، جو امریکا میں تھے، اپنا خیال ظاہر کیا او رکہا کہ آپ لوگوں میں سے جو خوش الحان موذن ہو اور خوش الحان قاری ہو اس کو لائیے اور دس پندرہ مقتدی بھی ساتھ ہوں۔ میں نماز کی فلم لوں گا ۔چناں چہ عشاء کے وقت یہ سب فلم کمپنی میں آئے ۔ موذن نے اذان دی تو کمپنی کے مالک پر اس کا بڑا اثر ہوا، پھر نماز شروع ہوئی، قاری کی قرات سن کر وہ زار زار رونے لگا۔ نماز ختم ہوئی تو فلم کمپنی کے مالک نے امام صاحب سے کہا مجھے مسلمان کر لو۔ انہوں نے غسل کراکر اس کو کلمہ پڑھوایا اورمسلمان کر لیا۔ اس نے کہا آپ ایک دو گھڑی روزانہ مجھے قرآن اور تعلیمات اسلام کا سبق دے دیا کیجیے، آپ کی خدمت کروں گا۔ امام نے کہا اس کی ضرورت نہیں۔ یہ تو میرا اسلامی فرض ہے۔ کہا آپ اپنا فراض ادا کریں، میں اپنا فرض ادا کروں گا۔
اس کے بعد فلم کمپنی بند کر دی یا فروخت کر دی، اپنے گھر میں گوشہ نشین ہو گیا ۔ دوستوں نے ٹیلی فون پر اس سے پوچھا کہ تم کو اسلام سے کیا ملا؟ بظاہر تو نقصان ہی ہوا کہ اتنا بڑا کاروبارچھوڑنا پڑا، جس سے لاکھوں کی آمدنی تھی ۔اس نے جواب دیا کہ مجھے اسلام سے سکون قلب اور راحت قلب حاصل ہوئی، جو کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتی تھی، میں نے پہلے کپڑے کی دکان کی جس میں بہت فائدہ ہوا، مگر سکون قلب حاصل نہ ہوا، پھر سائیکلوں اور موٹروں کا کاروبار کیا، اس میں بھی بہت آمدنی ہوئی مگر سکون قلب نصیب نہ ہوا پھر فلم کمپنی کھولی ،اس سے بھی بہت آمدنی ہوئی، مگر سکون قلب نصیب نہ ہوا۔
اسلام قبول کرکے کلمہ پڑھا تو دل کو سکون اطمینان اور ٹھنڈک حاصل ہوئی، اب مجھے کسی کاروبار کی ضرورت نہیں، میرے پاس اتنی دولت ہے کہ میری اولاد سات پشتوں تک آرام کر سکتی ہے، اب جو دولت مجھے اسلام سے حاصل ہوئی ہے، میں اس میں ترقی کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت حکیم الامت نے یہ واقعہ بیان کرکے فرمایا کہ والله! کفار کے قلوب کو سکون اور اطمینان نصیب نہیں، گو ظاہر میں سامان راحت ہزار ہوں۔ یہ دولت صرف اسلام ہی سے حاصل ہوتی ہے اس ارشاد کی وضاحت میں یہ واقعہ سنایا کہ ہمارے قصبہ میں حاجی عبدالرحیم نو مسلم موجود ہیں، وہ کہتے تھے کہ جب ہم نے 18,17 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تو ہندوؤں سے چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے، ابھی ہم نے اپنا اسلام ظاہر نہیں کیا تھا، صرف استاد کو علم تھا، جن سے ہم اردو فارسی پڑھتے تھے۔ انہی کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے ، وہ کہتے تھے کہ ان نمازوں کی کیفیت اور حلاوت کو نہ پوچھو، جو ہم چھپ کر پڑھتے تھے، پھر فرمایا ایک دفعہ میں سہارنپور سے لکھنؤ کا ارادہ کرکے ریل میں سوار ہوا، مجھے دیکھ کر منشی حبیب احمد تھانوی بھی میرے ڈبے میں آگئے، جب ریل چھوٹ گئی تو باتیں کرنے لگے، میں نے پوچھا آپ کہاں جارہے ہیں۔ کہا میرٹھ جارہاہوں، میں نے کہا ممکن ہے آپ میرٹھ پہنچ جائیں، لیکن یہ ریل گاڑی لکھنؤ جارہی ہے۔ میرا ٹکٹ لکھنؤ کا ہے۔ یہ سن کر وہ بڑے پریشان ہوئے، میں نے کہا اب پریشانی بے کار ہے، یہ گاڑی رڑکی سے پہلے نہیں ٹھہرے گی ،اطمینان سے باتیں کرو، جب گاڑی رکے گی تواتر جانا اور دوسری ٹرین سے میرٹھ چلے جانا، مگر میں نے دیکھا کہ ان کی پریشانی کم نہ ہوئی، بڑھتی ہی جاتی تھی ۔ اس وقت میں نے سوچا کہ میرا اطمینان وسکون او ران کی پریشانی کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں کہ میں سیدھے راستہ پر تھا اور وہ غلط راستہ پر تھے۔ مسلمان کے دل کو سکون اوراطمینان اسی واسطے ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے سیدھے راستہ پر ہوں، کبھی نہ کبھی منزل مقصود ( یعنی جنت) پر پہنچ جاؤں گا۔ کفار کو سیدھے راستہ پر ہونے کا یقین نہیں، اس لیے ان کو اطمینان وسکون راحت قلب نہیں، گو ظاہر میں کیسا ہی سامان راحت جمع کر لیں۔

Flag Counter