Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 16
***
اُمید اور خوف
امام عبدالرحمن ابن جوزی 
صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” الله تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں۔“
ایک او رروایت میں ہے کہ ”جو گمان بھی رکھے کوئی گمان رکھنے والا۔“
مسلم کی ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم میں سے کسی آدمی کو موت نہ آئے ، مگر اس حال میں کہ اس کا الله کے متعلق اچھا گمان ہو۔“
الله تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ مجھ سے محبت رکھو اور جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں ان سے محبت رکھو اور میری مخلوق کی نگاہ میں مجھے محبوب بناؤ۔ عرض کیا اے میرے رب! تیری مخلوق کی نگاہ میں تجھے کیسے محبوب بناؤں؟ تو فرمایا۔ میرا اچھا تذکرہ کرو اور میرے احسانات اور نعمتوں کا تذکرہ کرو۔
مجاہد رحمہ الله نے کہا : ” قیامت کے دن ایک بندہ کو دوزخ کا حکم ہو گا۔ وہ کہے گا میرا گمان اس طرح نہیں تھا تو الله تعالیٰ کہے گا تیرا گمان کیا تھا ؟ وہ کہے گا۔ میرا گمان تو تھا کہ تو مجھے بخش دے گا۔ تو الله تعالیٰ فرمائے گا اس کو چھوڑ دو۔“
معلوم ہونا چاہیے کہ اُمید کی دوا کے یہ دو آدمی بطور خاص محتاج ہیں:
ایک وہ جس پر ناامیدی غالب آچکی ہو کہ وہ عبادت چھوڑ دے۔
دوسرا وہ جس پر خوف غالب آچکا ہو، یہاں تک کہ اپنے نفس اور اہل کو نقصان پہنچائے۔
وہ مغرور گنہگار جو عبادت سے منھ موڑنے کے باوجود الله تعالیٰ سے رحمت کی امید رکھتا ہو اس کے حق میں صرف خوف کی دوائیں استعمال کرنی چاہئیں، کیوں کہ امید کی دوائیں اس کے حق میں زہر ثابت ہوں گی، جس طرح کہ ٹھنڈک والے کے لیے شہد شفا، لیکن گرمی والے کے لیے مضر ہے ، چناں چہ ضروری ہے کہ وعظ کہنے والا لطیف انداز اختیار کرے اور بیماری کے مقام کو نگاہ میں رکھ کر بالکل درست دوا تجویز کرے۔ ویسے اس زمانہ میں لوگوں کوامید کی دوائیں نہ دینی چاہئیں، بلکہ خوف دلانے میں مبالغہ کرے ، البتہ جب بیماروں کی اصلاح مقصود ہو تو امید کے اسباب کی فضیلت بیان کرے، تاکہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوں۔
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے :” عالم وہ ہے جو لوگوں کو الله کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور نہ ان کو الله کی پکڑ کے انداز سے بے خوف ہونے دے۔“
جب تم کو یہ معلوم ہو گیا تو اب امید کے اسباب معلوم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بعض تو غور وفکر سے متعلق ہیں اور کچھ روایات سے۔ پہلی بات یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے الله تعالیٰ کی نعمتوں کا تذکرہ کیا ہے اس پر غور کرے۔ جب اسے دنیا میں بندوں پر الله کی رحمتوں کا علم ہو جائے اور اس کے عجائباتِ حکمت جان لے جو اس نے انسان کی فطرت میں رکھے ہیں اور یہ کہ الله تعالیٰ کی مہربانیوں نے بندوں کی دنیاوی مصلحتوں میں دقائق کی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس کو پسند نہیں کیا کہ مراتب کی زیادتی ( بلندی) اُن سے فوت ہو جائے، تو وہ الله کے بندوں کی ہمیشہ کی بربادی پر کیسے خوش ہو گا؟ جس نے دنیا میں مہربانی فرمائی ہے وہ آخرت میں بھی ضرور مہربانی کرے گا۔ دونوں جہاں کی تدبیر کرنے والا وہی تو ہے۔
الله تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :﴿ قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمة الله ان الله یغفر الذنوب جمیعاً﴾․ ( سورة زمر: آیت:53)
کہہ دیں اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے الله کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک الله سب گناہ بخش دے گا۔
فرمایا: ﴿والملائکة یسبحون بحمد ربھم ویستغفرون لمن فی الارض﴾․ (سورة شوریٰ: آیت:4)
اور فرشتے اپنے رب کی تسبیح وتحمید کرتے ہیں اور زمین والوں کے لیے بخشش مانگتے ہیں۔
الله تعالیٰ نے اپنے دشمنوں سے آگ کا وعدہ کیا ہے او راپنے دوستوں کو اس سے ڈرایا ہے ۔ فرمایا: ﴿ لھم من فوقھم ظلل من النار ومن تحتھم ظلل․ ذلک یخوف الله بہ عبادہ﴾․(سورة زمر، آیت:16)
ان کے اوپر بھی آگ کے شعلے ہوں گے اور نیچے بھی۔ اس سے الله اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔
فرمایا: ﴿ واتقوا النار التی اعدت للکفرین﴾․ (سورة آلِ عمران، آیت:131)
اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
فرمایا: ﴿فانذرتکم نارا تلظی لایصلٰھا الا الاشقی الذی کذب وتولی﴾․ (سورة اللیل، آیات:14 تا16)
میں نے تم کو شعلے مارتی ہوئی آگ سے ڈرایا ہے، جس میں کوئی بڑا بد نصیب ہی داخل ہو گا جس نے جھٹلایا او رمنھ پھیرا۔
فرمایا:﴿ وان ربک لذومغفرة للناس علی ظلمھم﴾․ (سورة رعد، آیت:6)
اور تیرا رب لوگوں کے ظلم کے باوجود ان کو بخشنے والا ہے۔
احادیث میں سے وہ بھی ہے جو ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے بیان کی ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: شیطان نے الله تعالیٰ سے کہا مجھے تیری عزت او رجلال کی قسم ! میں آدم کی اولاد کو آخری دم تک گمراہ کرتا رہوں گا۔ تو الله تعالیٰ نے فرمایا مجھے میری عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں بھی ان کو بخشتا رہوں گا۔“
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے اس الله کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر تم گناہ کرو تو الله تمہیں لے جائے اور کوئی اور قوم لائے جو گناہ کریں ، پھر بخشش مانگیں تو الله بخشے۔“ ( مسلم)
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اعمال درست کرو اور لوگوں کو الله کے قریب کر واور خوش خبری دو، کیوں کہ کوئی بھی جنت میں اپنے عمل سے داخل نہ ہو گا ، صحابہ نے کہا ۔” اے الله کے رسول ، کیا آپ بھی ؟“ تو فرمایا ۔ ” میں بھی داخل نہیں ہو سکتا، مگر یہ کہ الله کی رحمت مجھے ڈھانپ لے۔“
صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” الله تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے ، اے آدم! اُٹھ او رجہنم میں بھیجے جانے والوں کو اٹھا، تو وہ کہیں گے ۔ اے رب! میں حاضر ہوں اور اسی میں سعادت ہے اور بھلائی سب تیرے ہاتھ میں ہے ۔ اے میرے الله! آگ کا حصہ کتنا ہے ؟ تو حکم ہو گا ۔ ہزار میں سے نو سو ننانوے، تو اس وقت بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی اور تو لوگوں کو مدہوش دیکھے گا اور وہ حقیقت میں مدہوش نہیں ہوں گے ، لیکن الله کا عذاب بڑا سخت ہو گا تو یہ بات لوگوں پر بڑی شاق گزری، یہاں تک کہ ان کے چہرے متغیر ہو گئے اور کہنے لگے اے الله کے رسول! اور وہ ایک ہم میں سے کون ہو گا؟ “ تو آپ نے فرمایا: یاجوج ماجوج میں سے نو سوننانوے اور تم میں ایک۔ تو لوگوں نے کہا الله اکبر، پھر نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے امید ہے کہ تم جنت والوں کا چوتھا حصہ ہو گے ۔ خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا تیسرا حصہ ہو گے ۔ الله کی قسم ! مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں میں سے آدھے ہوگے۔“ تو لوگوں نے تکبیر کہی، پھر فرمایا: ” اس دن تم لوگوں میں اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل میں سفید بال یا سفیدبیل میں سیاہ بال۔“
تو دیکھو! کیسے انداز سے ڈرایا، پھر جب بے چین ہوئے تو کس طرح مہربانی کا تذکرہ فرمایا۔ جب دل خواہشات میں مطمئن ہوں تو انہیں بے چین کرنا چاہیے او رجب بے چینی بڑھ جائے تو تسلی دی جائے، تاکہ معاملہ معتدل رہے۔
ابن مسعود رضی الله عنہ نے کہا، الله قیامت کے دن اتنی بخشش فرمائے گا کہ کسی کے دل میں اس کا تصور بھی نہیں آسکتا۔
بیان کیا گیا ہے کہ ایک مجوسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کھانا مانگا۔ آپ نے نہ دیا اور کہا ۔” اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو میں تمہیں کھانا کھلاؤں گا۔“ اس پر الله نے ان کی طرف وحی کی ۔ اے ابراہیم! میں اس کو کفر کے باوجود نو ے سال سے کھلا رہا ہوں۔ تو ابراہیم علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے۔ اُسے واپس لائے اور سب حال بتایا تواس نے الله کی نوازش پر تعجب کیا اور مسلمان ہو گیا۔
یہ وہ اسباب ہیں جو خائف اور مایوس لوگوں کے دلوں میں اُمید کی روح پھونک دیتے ہیں ۔ ہاں مغرور اور بے وقوف لوگ ایسی باتیں نہیں سنتے ، بلکہ وہ ایسی باتیں سنتے ہیں جن کو ہم اسباب خوف میں بیان کر رہے ہیں، کیوں کہ اکثر لوگ ایسی ہی باتوں سے درست ہوتے ہیں، جیسے وہ غلام جو لاٹھی سے سیدھا رہ سکتا ہے۔
خوف، اُس کی حقیقت او ردرجات
معلوم ہونا چاہیے کہ خوف عبارت ہے دل کے اس درد اور جلن سے جو کسی تکلیف دہ چیز کے واقع ہونے کے سبب سے ہو۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی آدمی بادشاہ کا گناہ کرے۔ پھر گرفتار ہو جائے اور اسے قتل ہونے کے ڈر کے ساتھ معافی کی توقع بھی ہو ، ایسی صورت میں اس کے قلب کی کیفیت سزا پانے اور معاف کر دیے جانے کے اسباب کے مطابق ہو گی ، یعنی اگر سزا کے اسباب کمزور ہوں گے تو خوف بھی کم ہو گا۔
کبھی خوف گناہ کی وجہ سے نہیں ہوتا ، بلکہ الله کی عظمت وجلال کی وجہ سے ہوتا ہے، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اگر الله تعالیٰ تمام جہان والوں کو ہلاک کر دے تو پھر بھی اسے کوئی پروانہ ہو گی اور نہ اسے کوئی روک سکتا ہے ، تو آدمی جتنا اپنے عیوب اور الله تعالیٰ کے جلال اور اس کی بے نیاری سے واقف ہو گا اتنا ہی اس کا خوف زیادہ ہو گا۔
سب سے زیادہ خوف اس آدمی کو ہوتا ہے جو سب سے زیادہ اپنے نفس کو او راپنے رب کو جانتا ہو ۔ اسی لیے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ”میں تم سب سے زیادہ الله کو جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اس سے ڈرتا ہوں۔“
الله تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ انما یخشی الله من عبادہ العلماء﴾․ ( سورة ناظر، آیت:28)
الله کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں۔
جب معرفت مکمل ہوتی ہے تو خوف اثر کرتا ہے او راس کا اثر دل پر پڑتا ہے ۔ پھر اعضا پر ظاہر ہوتا ہے او رصفات متاثر ہوتی ہیں ۔ مثلاً جسم کی کمزوری، چہرے کی زردی ، رونے اور غشی بلکہ کبھی موت تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے اور کبھی دماغ کی طرف چڑھتی ہے تو عقل کو بگاڑ دیتی ہے۔
حقیقی معنوں میں خوف کا اعضا پر اثر کرنا یہ ہے کہ وہ گناہوں سے رُک جائیں اور تقصیرات کو پورا کرنے او رمستقبل کی تیاری کے لیے طاعات کو لازم پکڑیں۔
بعض نے کہا:” جوڈرا، اس نے رات کو سفر کیا۔“
دوسرے نے کہا:” خائف وہ نہیں جو روئے ، بلکہ خائف وہ ہے جو گناہوں کو چھوڑ دے۔“
خوف کے نتائج یہ ہیں کہ وہ شہوات کو توڑتا ہے ،لذات کو مکدر کرتا ہے او رجب یوں ہو تو محبوب گناہ بھی اس کی نگاہ میں مکروہ ہو جاتے ہیں، جیسے کہ اس آدمی کو شہدا بُرا معلوم ہو گا جسے علم ہواس میں زہرملا ہوا ہے، پس اسی طرح خوف سے شہوات جل جاتی ہیں۔ اعضا شائستہ ہو جاتے ہیں ۔ دل ذلیل اور مسکین ہو جاتا ہے اور تکبر، کینہ اور حسد ختم ہو جاتے ہیں۔
خوف او راپنی عاقبت کے خطرات دل پر مسلط ہو جائیں، تو وہ کسی اور چیز کے لیے فارغ ہی نہیں ہوتا۔ اس کا شغل مراقبہ، مجاہدہ او راپنا محاسبہ کرنا ہو جاتا ہے ۔ گویا اس کا حال اس آدمی جیسا ہو جاتا ہے جو ایک ظالم درندے کے پنجے میں آگیا ہو ۔ وہ نہیں جانتا کہ وہ غافل ہو جائے گا اور یہ بچ جائے گا یا وہ اس پر غلبہ حاصل کرکے اس کو ہلاک کر دے ۔ اس کا شغل صرف اپنا حال ہے، جس میں مبتلا ہے تو جتنا خوف طاقتور ہو گا اتنا ہی محاسبہ ومراقبہ طاقت ور ہو گا اورجتنی الله تعالیٰ کے جلال اور صفات کی معرفت ہو گی اور جتنا اپنے نفس کے عیوب اور آئندہ کے اہوال وخطرات کو جانے گا۔ اتنا ہی اس کا خوف ہو گا۔
خوف کا سب سے کمتر درجہ جس کا اثر اعمال میں ظاہر ہو یہ ہے کہ نواہی سے بچے ، جس کے حرام ہونے کا شبہ ہو اس کو چھوڑنے کا نام ورع ہے اوراگر اس کے ساتھ تنہا ئی اور عیش سے روگردانی بھی ہو تو اس کا نام صِدق ہے۔
خوف وجہِ رحمت بھی ہے
معلوم ہونا چاہیے کہ خوف الله تعالیٰ کا کوڑا ہے جس سے وہ اپنے بندوں کو علم اور عمل کے دوام کی طرف ہانکتا ہے ، تاکہ اس کے ساتھ قرب کا مرتبہ حاصل کر سکیں۔
علماء کے نزدیک خوف کے تین درجے ہیں : افراط ، اعتدال اور تفریط اور ان میں سے اچھا اعتدال ہے ۔ اور وہ ایسا ہے جیسے جانور کے لیے کوڑا۔ کیوں کہ جانور کے لیے بہتر یہی ہے کہ کہ کوڑے سے واقف نہ ہو ، البتہ مارنے میں مبالغہ بھی اچھا نہیں ۔
انسان کے لیے وہ اس طرح ہے کہ کوئی آیت یا کوئی ہول ناک بات سنی ، تو دل میں ڈرا اور وہ رونے لگا، جب وہ سبب غائب ہو گیا، تو دل میں پھر غفلت آگئی ، یہ کمتر خوف ہے او راس کا نفع قلیل ہے ، یہ تو ایسا ہے کہ کمزور سی لاٹھی کسی طاقت ور جانور کو مار ی جائے اور اسے معمولی سی تکلیف ہو اسے پوری طرح اندازہ نہ ہو کہ کیوں تادیب کی گئی ہے ؟ قریب قریب یہ حالت عام لوگوں پر غالب ہے ۔ سوائے عارفین اور علماء کے، یعنی وہ علماء اور عارفین جو الله تعالیٰ اور اس کی آیات کو جانتے ہیں ایسی معمولی تنبیہ سے بھی ہوشیار ہو جاتے ہیں۔
پہلی قسم، یعنی خوف کی زیادتی یہ ہے کہ مایوسی اور ناامیدی پیدا ہو جائے اور یہ بھی بری ہے، کیوں کہ یہ عمل سے روک دیتی اور کبھی انسان کو دیوانگی او رموت تک پہنچا دیتی ہے۔ دراصل ہر وہ چیز جو کسی کام کے لیے مطلوب ہو اس کا محمود درجہ صرف وہ ہے جس سے مقصود حاصل ہو سکے او رجو اس سے کم ہو یا حد سے گزر جائے تو وہ برائی ہے ۔
خوف کا فائدہ احتیاط ، ورع، پرہیز گاری ، مجاہدہ وفکر وذکر اورعبادت کی طرف راغب کرنا ہے ، اس کا مقصد وہ تمام اسباب ہیں جو الله تعالیٰ تک پہنچائیں اور یہ ساری چیزیں زندگی کے سبب سے ہیں، جس میں بدن کی صحت اور عقل کی سلامتی بھی ہو ۔ جب ان چیزوں میں خلل پڑے گا تو اصل فائدہ زائل ہو جائے گا۔
اگر کہا جائے کہ جو آدمی خوف سے مر جائے اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟ تو جواب یہ ہے کہ اس نے اس حالت میں موت سے ایک ایسا مرتبہ پایا ہے کہ اگر اس کے سوا مرتا تو وہ مرتبہ اسے حاصل نہ ہوتا، تاہم اگر وہ زندہ رہتا اور معارف واعلیٰ معاملات کے درجات تک ترقی کرتا تو یہ اس سے بہتر ہوتا کیوں کہ بہترین سعادت الله کی اطاعت میں لمبی عمر پانا ہے ۔ ہر وہ چیز جو عمر ، عقل اور صحت کو ختم کردے نقصان او رخسارہ ہے۔
خوف کی اقسام
معلوم ہونا چاہیے کہ خائف لوگوں کے مختلف مقامات ہیں ، مثلاً:
بعض وہ ہیں جن کے دل پر توبہ سے پہلے ہی موت کے آنے کا خوف غالب ہوتا ہے۔
بعض وہ ہیں جن پر نعمتوں کے استدراج کا خوف غالب ہوتا ہے یا ان کو استقامت سے ہٹ جانے کا خوف ہوتا ہے۔
بعض وہ ہیں جن کو برُے خاتمے کا خوف ہوتا ہے اوران میں سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ سابقہ زندگی کا خوف ہو، کیوں کہ خاتمہ، سابقہ کی شاخ ہے اور الله جسے چاہے بغیر وسیلے کے بلند کرے اور جسے چاہے بغیر وسیلے کے نیچے پھینک دے ۔ وہ جو بھی کرے ، اسے کون پوچھ سکتا ہے !!
الله تعالیٰ نے فرمایا ہے : یہ لوگ جنتی ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں اور یہ دوزخی ہیں اور مجھے کوئی پروا نہیں کچھ خوف کھانے والوں میں سے وہ بھی ہیں جو سکرات موت اور اس کی سختی سے ڈرتے ہیں، یا منکر نکیر کے سوال سے یا عذاب قرب سے ڈرتے ہیں۔
بعض وہ ہیں جو الله تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونے کی ہیبت اورحساب کی گرفت اور پل صراط پر گزرنے اور دوزخ او راس کی ہولناکیوں یا جنت کی محرومی یا الله تعالیٰ سے حجاب میں ہو جانے سے ڈرتے ہیں اور خوف کی یہ تمام حالتیں بذات خود ناپسندیدہ، خوف کے لائق ہیں۔
اعلیٰ ترین مرتبہ الله تعالیٰ سے حجاب کے خوف کا ہے اور یہ عارفین کا خوف ہے او رجس کا اس سے پہلے ذکر ہوا ،وہ زاہدوں اور عابدوں کا خوف ہے۔
خوف اور اُمید میں کس کو غالب رہنا چاہیے؟
ہر چیز کی فضیلت، طلب سعادت پر مدد کرنے کے لحاظ سے ہے اور وہ ہے الله تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا قرب، تو ہر وہ چیز جو اس پر مدد کرے وہ فضیلت ہے۔
الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿ولمن خاف مقام ربہ جنتان﴾․ (سورة رحمن، آیت:46)
اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
فرمایا: ﴿رضی الله عنھم ورضوا عنہ ذلک لمن خشی ربہ﴾․ ( سورة بینہ، آیت:8)
الله اُن سے راضی ہوا اور وہ الله سے راضی ہوئے۔ یہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔
حدیث میں ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب الله کے ڈر سے بندے کی کھال پر رونگٹے کھڑے ہو جائیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جیسے ( آندھی میں) درخت کے خشک پتے۔“
ایک اور حدیث میں ہے:” الله اس پر کبھی ناراض نہ ہو گا جس میں خوف ہے۔“
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” الله تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت وجلال کی قسم! میں بندے پر دو خوف جمع نہ کروں گا اور نہ دوا من جمع کروں گا۔ اگر دنیا میں وہ مجھ سے بے خوف رہا تو میں قیامت میں اس کو ڈراؤں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے ڈرا تو میں قیامت میں اس کو امن دوں گا۔“
حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” دو آنکھوں کوکبھی آگ نہیں لگے گی ۔ ایک وہ آنکھ جو الله کے خوف سے روئی او رایک وہ آنکھ جس نے الله کی راہ میں رات کو پہرا دیا۔“ 
معلوم ہونا چاہیے کہ کہنے والے کی یہ بات کہ خوف افضل ہے یا امید؟ یہ اسی طرح کی بات ہے کہ روٹی افضل ہے یا پانی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ کہا جائے بھوکے کے لیے روٹی افضل ہے اور پیاسے کے لیے پانی اور اگر دونوں جمع ہوں تو جس کی زیادہ ضرورت ہو اس کو دیکھا جا ئے گا۔ اگر دونوں برابر ہوں تو وہ دونوں برابر ہوں گے۔
خوف اور امید دراصل دو دوائیں ہیں، جن سے دلوں کا علاج کیا جاتا ہے ، تو ان کی فضیلت بیماری کے مطابق ہے ، اگر الله کی پکڑ سے بے پروائی غالب ہو ، تو خوف افضل ہے ۔ اسی طرح اگر بندے پر نافرمانی غالب ہو تو بھی خوف افضل ہے ، لیکن اگر مایوسی اور ناامیدی غالب ہو تو امید افضل ہے ۔ ویسے یہ بھی جائز ہے کہ مطلقاً کہا جائے خوف افضل ہے، جیسے کہا جائے روٹی سکنجبین سے افضل ہے، کیوں کہ روٹی سے بھوک کا علاج کیا جاتا ہے اور سکنجبین سے صفرا وی بیماریوں کا اور بھوک کی بیماری غالب اور اکثر ہے ، تو روٹی کی ضرورت بھی زیادہ ہو گی ، چناں چہ اسی لحاظ سے افضل ہے۔
مخلوق کا گناہ اور دھوکے میں مبتلا ہونا عام ہے اور اسی اعتبار سے خوف کا افضل ہونا مانا جائے گا۔ اگر ہم خوف اور امید کے مقام کو دیکھیں تو امید افضل ہے، کیوں کہ امید الله کی رحمت کے سمندر سے تعلق رکھتی ہے اور خوف الله کے غضب سے، متقی کے حق میں بہتر یہ ہے کہ اس کے دل میں خوف اور امید برابر ہوں ۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اگرمومن کے خوف اور امید کا وزن کیا جائے تو وہ برابر ہوں گے۔
بعض سلف نے کہا: ”اگر آواز دی جائے کہ ایک آدمی کے سوا باقی سب جنت میں چلے جائیں گے ، تو مجھے ڈر ہے کہ وہ آدمی میں ہی نہ ہوں ! اور اگر آواز دی جائے کہ ایک آدمی کے سوا سب دورخ میں داخل ہو جائیں گے تو مجھے امید ہے کہ شاید وہ آدمی میں ہی ہوں ۔“ یہ کیفیت مومن متقی کے ساتھ مخصوص ہے۔
اگر کہا جائے کہ مومن کے دل میں خوف اور امید برابر کیسے ہو سکتے ہیں ، حالاں کہ وہ تقویٰ کے مقام پر ہے“ اس کے دل میں تو امید کو غالب ہونا چاہیے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مومن کو اپنے عمل کی صحت کا یقین نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اس آدمی کی سی ہوتی ہے جو بیج ڈالے ، لیکن اس کی جنس اُسے معلوم نہ ہوا ور نہ زمین کے مزاج کا پتہ ہو ، تو بیج ایمان ہے اور اس کی صحت کی شرطیں بڑی باریک ہیں اور زمین دل ہے اور اس کا ناپاک اور پاک ہونا پوشیدہ امور ہیں۔ اخلاق کی صفتیں بہت مخفی ہیں ۔ یقینی طور پر ان کا ادراک نہیں ہوتا اور اسی لیے مومن کے قلب پر خوف کا غلبہ رہتا ہے۔ اس کا تویہ حال ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ، حضرت حذیفہ رضی الله عنہ سے پوچھ رہے ہیں کہ کہیں میں منافق تو نہیں ہو گیا ہوں ؟ ان کو خوف تھا کہ ان کے عیب ان سے پوشیدہ نہ رہ گئے ہوں ۔ بہرحال اچھا خوف وہی ہے جو عمل پر آمادہ کرے اور دنیا کی طرف مائل ہونے سے دل میں بے چینی پیدا کر دے۔
ہاں موت آنے کے وقت انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ امید غالب ہو ، کیوں کہ خوف تو کوڑا ہے، جو عمل پر آمادہ کرنے والا ہے او راب عمل کا وقت نہیں ہے ۔ اب تو خوف سے سوائے دل کی رگ کاٹنے کے اور کوئی فائدہ نہ ہو گا ،البتہ اس حال میں امید اس کے دل کو طاقت دے گی اور الله تعالیٰ کی ملاقات کو محبوب بنائے گی، کسی کو لائق نہیں کہ الله کی محبت کے سوا اور حالت میں دنیا کو چھوڑ کر جائے ۔ سب کو الله پر حسن ظن رکھنا چاہیے۔ حضرت سلیمان تیمی نے اپنی موت کے وقت حاضرین سے کہا : ”مجھے رخصت کی حدیثیں سناؤ، تاکہ میں الله سے حُسنِ ظن کی حالت میں ملاقات کروں۔“ (جاری ہے)

Flag Counter