Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 16
***
ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخیں
محمد سرور شوکت
متعلم تخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
رسالت مآب، سید البشر رحمة للّعا لمین صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے، اس سلسلے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ دن مہینہ اور تاریخ ۔ دن اور مہینہ میں سب موٴرخین کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ (پیر ) اور مہینہ ربیع الاول کا ہے، بعض مرجوح اقوال ربیع الاول کے علاوہ کے بھی ہیں، لیکن جمہور کے مقابلے میں قابل التفا ت نہیں؛ البتہ تاریخ میں اختلاف ایک معر کة الآرا موضوع ہے؛ معتبرقول کیاہے؟ اس کو جاننے کے لیے ائمہ کی تاریخی شہادتوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت تھی، جس کومعتبرعلماء ، محققین نے کرکے بتادیاہے ۔
ولادت باسعادت
ولادت باسعادت کے بارے میں بعض مرجوح اقوال ہیں، جنہیں الامام الحافظ الموٴرخ ابو الفداء اسماعیل بن کثیر نے تاریخ کی مشہور کتاب ”البدایة والنھایة“ میں ذکر کیا ہے۔چناں چہ پہلی روایت وہ ہے جسے ابن عبدالبر نے زبیر بن بکاء سے نقل کیا ہے، اس کو حافظ صاحب صریح طور پر مرجوح لکھتے ہیں۔
اَ نہ وُلد فی رمضان، نقلہ ابن عبدالبر عن الزبیر بن بکار، ھوقول غریب جداً․
آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان میں پیدا ہوئے، اس کو ابن عبد البر نے زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے، یہ بہت غریب قول ہے۔
اسی طرح زبیر بن بکار ایک اور روایت نقل کرتے ہیں، جس میں مکان ولادت کی بھی تعیین ہے۔
قال الزبیر بن بکار․․․․․․:وُلِد بمکة بالدار المعروفة بمحمد بن یوسف․․․․․․․لاثنتی عشرة خلت من شھر رمضان․
زبیر بن بکار کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں دارالمعروفہ میں رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔
مذکورہ روایت میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح ایک روایت ہے جس میں دن کاذکر ہے۔
ورواہ الحافظ ابن عساکر من طریق محمد بن عثمان․․․ولد یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من شھر رمضان․
حافظ ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے روایت ذکر کی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پیر کے دن رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔
ایک دوسری روایت کو ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے ببان کیا ہے ،اس میں رمضان کی بارہ تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔
واَبعد بل اَخطا من قال: ولد یوم الجمعة لسبع عشرة خلت من ربیع الاول․(البدایة والنھایة، 33/3، ط: دار ابن کثیر)
جس نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے روز اورسترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔اس نے غلط بات کہی ہے۔ 
مذکور ہ اقوال مرجوح ہیں ، اب جو اقوال راجح ہیں ان کو ذکر کیا جاتا ہے، اس میں مختلف اقوال ہیں۔
پہلا قول : دو تاریخ 
بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوئی، حافظ ابن عبد البر  نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب میں اس کو ذکر کیا ہے۔ چناں چہ حافظ اسماعیل بن کثیر نے البدایہ والنھایة میں اس کو ذکر کیا ہے۔
فقیل: للیلتین خلتا منہ․ قالہ ابن عبد البر فی الاستیعاب ورواہ الواقدی عن ابی معشر نجیح بن عبدالرحمن المدنی․
ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔ اس کو حافظ ابن عبدالبرنے استیعاب میں ذکر کیا ہے اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی سے اس کو روایت کیا ہے ۔ 
دوسرا قول : آٹھ ربیع الاول 
آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے، چناں چہ علامہ حافظ ابن کثیر  نے ” البدایہ والنھایہ “ میں اس قول کے متعلق روایت نقل کی ہے:
و قیل : لثمان خلون منہ حکاہ الحمیدی عن ابن حزم۔ ورواہ مالک، وعقیل، و یونس بن یزید، وغیرھم ․․․․․، ونقل ابن عبد البر عن اَ صحاب التاریخ اَنھم صححوہ․ (البدایہ والنھایہ ،33/3 )
․ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت آٹھ ربیع الاول کو ہوئی، اسی کو حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے اور امام مالک، عقیل اور یونس بن یزید نے بھی اسی کو روایت کیا ہے۔ اور ابن عبدا لبر نے اصحاب تاریخ سے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔
اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو شیخ الحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں اپنی عظیم تصنیف میں تحریر فرمایا ہے۔
” سر ور دو عالم، سید ولد آدم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم و شرف و کرم واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن روز کے بعد بتاریخ 8 ربیع الاول یوم دو شنبہ مطابق ماہ اپریل 570 عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور موٴرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، عبدالله بن عباس اور جبیر بن مطعم  سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے۔ “ (سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم، 65/1 ،ادریس کاندھلوی )
اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو مولوی احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اختیار کیا ہے اور دوسرے اقوال کو مرجوح قرار دیا ہے اورفتاوی رضویہ صفحہ نمبر 412اور جلد نمبر 26 میں اس کو ذکر کیا ہے۔ 
یہاں پر ایک بات افسوس سے لکھنی پڑرہی ہے کہ جو حضرات مولوی احمد رضا خان صاحب کے مسلک کے ہیں وہ کھینچ تان کر ولادت 12 ربیع الاول کو ثابت کرتے ہیں اور اپنے امام کا قول ذکر ہی نہیں کرتے، گویا کہ ان کے یہاں یہ قول مردود ہے۔
تیسرا قول : نو ربیع الاول 
بعض علماء نے نو ربیع الاول کے قول کو اختیار فرمایا، چناں چہ خلافت اسلامیہ کے آخری شیخ الاسلام کے نائب، عالم اسلام کے عظیم محقق، امام، محمد زاہد بن الحسن الکوثری  المتوفی 1371 ہجری نے نو ربیع الاول والے قول کو اختیار فرمایا ہے اور اپنے ایک مقالے” المولد الشریف النبوی“ جو مقالات کو ثری کے مجموعہ میں شامل ہے، میں تحریر فرماتے ہیں․
ولادتہ علیہ الاسلام عند انقضاء ثمانیة اَیام من الشھر․ فیکون ھذا ھو الراجح روایة بل المتعین درایة، لاَن الیوم التاسع عند انقضاء تلک الایام الثمانیة․ مقالات الکوثری، 406 ، دار الشہبی للنشر․
․․ترجمہ :۔ آپ علیہ السلام کی ولادت ربیع الاول کے آٹھ دن گزرنے کے بعد ہوئی ․․․․یہی روایت راجح ہے بلکہد رایةً بھی یہی متعین ہے۔
نو ربیع الاول کا قول مصرکے مشہور ریاضی دان محمود پاشا الفلکی کا اختیار کردہ ہے، اسی کو علامہ زاہد الکوثری نے اختیار کیا ہے، چناں چہ آگے ذکر فرماتے ہیں۔
ھو الذی تعین لمولدہ صلی الله علیہوسلم بعد اِجراء تحقیق ریاضی لا یتخلف بمعرفة الریاضی المشہور العلامة محمود باشا الفلکی المصری رحمہ الله فی رسالة لہ باللغة الغربیة فی تقو یم العرب قبل الاسلام․ (مقالات الکوثری ․ 406)
اسی طرح نو ربیع الاول کے قول کو مشہورسیرت نگار علامہ شبلی نعمانی  اختیار فرماتے ہیں ، چناں چہ اپنی گرانقدر سیرت کی کتاب سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم میں رقمطراز ہیں۔
”تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہےئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت 9ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 20اِپریل 571 ھ میں ہوئی تھی “ 
چوتھا قول 
ایک روایت دس ربیع الاول کی بھی ہے، دس ربیع الاول کی روایت کو ابن دحیہ اپنی کتاب میں نقل فرماتے ہیں اور اس کو علامہ ابن عساکر روایت کرتے ہیں جس کو علامہ ابن کثیر  نے البدایہ والنھایہ میں اور موٴرخ عزالدین ابی الحسن الشیبانی المعروف بابن اثیر المتوفی 630ھ نے تاریخ کی مشہور کتاب الکامل فی التاریخ میں ذکر کیا ہے یہ دونوں حضرات تحریر فرماتے ہیں۔
وقیل: لعشر خلون منہ۔ نقلہ ابن دحیہ فی کتابہ۔ ورواہ ابن عساکر۔ البدایہ والنھایہ،33/3 ط: دار ابن کثیر الکامل فی التاریخ299/2دارالمعر فة بیروت۔
ترجمہ:۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسی قول کو ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
پانچواں قول : بارہ ربیع الاول
بارہ تاریخ کے قول کو علامہ ابن اسحاق  نے اختیار کیا ہے اور اس کو امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی مَصَنف میں روایت کیا ہے، اسی قول کو علامہ ابن کثیر  البدایة والنھایة میں ذکر کرتے ہیں چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔
”اور کہاجاتا ہے کہ بارہ تاریخ۔ اسی پر ابن اسحاق کا قو ل ہے اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں حضرت جابر و ابن عباس سے روایت ذکر کی ہے ،وہ دونوں فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔“ 
اسی طرح اس روایت کو علامہ ابن ہشام  نقل فرماتے ہیں :قال ابن اسحاق: ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین، لاثنتین عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول، عام الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام 158/1 ملتزم الطبع والنشر )
اسی روایت کو ابن اسحاق کے طریق سے علامہ ابن اثیر  نقل فرماتے ہیں۔ متاخرین علماء میں سے صرف مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع صاحب  اس قول کو اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔
” مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے ۔“ 
یہاں پانچوں اقوال کو ذکر کر دیا گیا ہے، ان میں راجح قول نویں تاریخ کا ہے، متعدد وجوہات کی وجہ سے ، پہلے قول کو کم استعمال کیا گیا ہے اور متاخرین نے بھی اس کو ذکر نہیں کیا، بارہ تاریخ کی ایک ہی روایت ہے جسے سب نے ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ مشہور ہو گیا، جب کہ ان کے مقابلے میں نو تاریخ کے قول کو اکثر نے اختیار کیا ہے، نو تاریخ کے قول کو آٹھ اور دس تاریخ کے اقوال سے قریب ہونے کی وجہ سے تقویت ملتی ہے، لہٰذا نو تاریخ کا قول قوی ثابت ہوا، نو تاریخ کے قول کے بارے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت الله دہلوی  فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ 
” حضور سرور عالم صلی الله علہ وسلم کی تاریخ ولادت میں پہلے سے موّرخین و اہل سیر کا اختلاف ہے، دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تو متفق علیہ ہے، مگر تاریخ کی تعین میں متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے دوسری ، کسی نے تیسری، کسی نے آٹھویں ، کسی نے نویں، کسی نے بارہویں تاریخ بتائی ہے۔ از روئے حساب جو جانچا گیا تو 9تاریخ والا قول زیادہ قوی ثابت ہوا۔“(کفایت المفتی،147/1 ، دار الاشاعت )
تاریخ وصال پر ملال
تاریخ ولادت باسعادت کی طرح تاریخ وصال میں بھی اختلاف ہے، دن اور مہینہ تو سب کے یہاں متفق علیہ ہے کہ پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں وصال ہوا، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں مہینہ کا اختلاف ظاہر کیا گیا ہے،لیکن یہ روایات شاذ ہیں، البتہ جن روایات میں تاریخ کا اختلاف ہے وہ بڑی معرکة الآراہیں، تاریخ کی روشنی میں ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے، تعین تاریخ میں چار اقوال ہیں۔
پہلا قول : یکم ربیع الاول 
اس قول کی روایت کو یعقوب بن سفیان نقل کرتے ہیں اور علامہ ابن کثیر  نے البدایة والنھایہ میں بھی اس کو ذکر کیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔
وقال یعقوب بن سفیان…توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاِثنین للیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 359/5 ط : دار ابن کثیر)
ترجمہ:۔ بعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یکم ربیع الاول پیر کے روز وفات پائی۔
آگے جا کر علامہ ابن کثیر  یکم ربیع الاول کا ایک اور قول نقل کرتے ہیں لیکن وہ ابو نعیم الفضل بن دکین کا اختیار کردہ ہے، چناں چہ ابن کثیر  تحریر فرماتے ہیں۔
وقال ابو نعیم الفضل بن دکین: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین مستھل ربیع الاول․(ایضاً) 
ترجمہ :۔ ابو نعیم فضل بن دکین فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز یکم ربیع الاول کوو فات پائی۔ 
دوسرا قول : دو ربیع الاول
بعض روایات میں آ تا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوا ، اس روایت کو علامہ و اقدی کے حوالے سے ابن کثیر  نے کچھ یوں ذکر کیا ہے۔
وقال الوا قدی․․․․․․․․:توفی یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․(البدایہ والنھایہ ، 359/5)
ترجمہ :۔ واقدی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز دو ربیع الاول کو وفات پائی۔
اسی طرح اس قول کی ایک روایت امام المحد ثین ابی بکر احمد بن الحسین بن علی بیہقی سے منقول ہے، جسے البدایہ والنھایہ میں اس طرح سے ذکر کیا گیا۔
وقال البیہقی․․․․․․․:کانت وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین للیلتین خلتا من شھر ربیع الاول․
ترجمہ:۔ بیہقی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پیر کے روز دو ربیع الاول کو واقع ہوئی۔
اسی قول کو سعد بن ابراہیم الزھری ابن عساکر اور واقدی سے نقل کرتے ہیں۔
توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ، 360/5)
ترجمہ:۔ دو ربیع الاول کو آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
تیسرا قول : دس ربیع الاول 
اس قول کی روایت کو یوسف بن عمر عبدالله بن عباس  سے نقل کرتے ہیں۔ وروی یوسف بن عمر․․․․․مات یوم الاثنین لعشر خلون من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 360/5)
ترجمہ :۔ یوسف بن عمر سے روایت ہے کہ پیر روز دس ربیع الاول کو آپ کا وصال ہوا۔
اس قول کے متعلق یہی روایت ملی ہے۔
چوتھا قول : بارہ ربیع الاول 
اکثرعلماء اسی قول کو نقل کرتے ہیں، چناں چہ اس قول کی ایک روایت علامہ و اقدی حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے نقل فرماتے ہیں
ورواہ الوقدی عن ابن عباس وعائشہ رضی الله عنہا اثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ،361/5)
ترجمہ :۔ واقدی بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوا۔ ایک اور روایت کو علامہ واقدی  محمد بن سعد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں ،جسے البدایہ والنھایہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
بارہ تاریخ کے قول کو محمد بن اسحاق  نے بھی اختیار فرمایا ہے، چناں چہ ان کے قول کو ابن کثیر  کچھ اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں۔
وقال محمد بن اسحاق: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لأثنتی عشر لیلة خلت من شھر ربیع الاول․ (البدایة والنھایة، 359/5)
ترجمہ :۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاول کو وفات پائی۔
اسی طرح اسی قول کو حافظ ابن اثیر  اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ کچھ اس طرح سے ” الکامل فی التاریخ میں رقم طراز ہیں۔
وکان موتہ فی یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (الکامل فی التاریخ ، 299/2،دار المعر فة بیروت)
اسی طرح بارہ تاریخ کے قول کو متاخرین علماء بھی اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ مشہورسیرت نگار شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ،، سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں فرماتے ہیں
”یہ جاں گداز اور روح فرسا واقعہ جس نے دنیا کو نبوت ورسالت کے فیوض و برکات اور وحی ربانی کے انو ار و تجلیات سے محروم کر دیا، بروز دو شنبہ دو پہر کے وقت 12، ربیع الاول کو پیش آیا“
بارہ تاریخ کے قول پر علامہ ابو القاسم السھیلی  کو اعتراض ہوتا ہے کہ از روئے حساب اگر دیکھا جائے تو بارہ تاریخ پیر کے دن نہیں پڑتی، چناں چہ اسی بات کو البدایہ والنھایة میں اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے ۔
قال ابو القاسم السھیلی فی ”الروض“ ما مضمونہ: لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول من سنة احدی عشر، وذلک لانہ علیہ الصلاة والسلام وقف فی حجّة الوداع سنة عشر یوم الجمعة، فکان اول ذی الحجة یوم الخمیس، فعلی تقدیر ان تحسب الشھور تامة او ناقصة او بعضھاتامة وبعضھا ناقصة، لا یتصور ان یکون یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول ․(البدایة والنھایہ، 361/5)
لیکن اس اشکال کو علامہ ابن کثیر  نے اختلاف مطالع کی وجہ سے رد کر دیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔
ان یکون اھل مکة راوا ھلال ذی الحجة لیلة الخمیس، واما اھل المدینة فلم یروہ الا لیلة الجمعة، ویوید ھذا قول عائشة وغیرھا، خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم لخمس بقین من ذی القعدة․ یعنی من المدینة․ الی حجة الوداع و یتعین بما ذکرناہ انہ خرج یوم السبت، ولیس کما زعم ابن حزم انہ خرج یوم الخمیس، لانہ قد بقی اکثر من خمس بلاشک، ولا جائز ان یکون خرج یوم الجمعة؛ لان انساً قال: صلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الظہر بالمدینة اربعاً، والعصر بذی الحلیفة رکعتین، فتعین انہ خرج یوم السبت لخمس بقین، فعلی ھذا انما رای اھل المدینة ھلال ذی الحجة لیلة الجمعة، واذا کان اول ذی الحجة عند اھل المدینة الجمعة، وحسبت الشھور بعدہ کو امل، یکون اول ربیع الاول یوم الخمیس، فیکون ثانی عشرة یوم الاثنین․(البدایہ والنھایہ، 361/5)
لہٰذا معلوم ہوا کہ بارہ تاریخ وفات کی متعین ہے، اس تاریخ کی روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور ان کو روایت کرنے والے کبار علماء ہیں، اسی وجہ سے اسی کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ( والله اعلم )

Flag Counter